ساختیات کے چند اصول اور ادبی تھیوری پر ان کا اطلاق (دوسری قسط)

 ساختیات کے چند اصول اور ادبی تھیوری پر ان کا اطلاق
Photo Credit: Professor John Lye from Brock News

ساختیات کے چند اصول اور ادبی تھیوری پر ان کا اطلاق (دوسری قسط)

ترجمہ، جواد حسنین بشرؔ

ساختیات، ثقافت اور متن

ساختیات، متون (texts) اور ثقافت دونوں کے مطالعے کو محیط ہے۔

علمِ نشانیات کو بَہ رُوئے کار لاتے ہوئے، ساختیات ہماری رہ نمائی اس جانب کرتی ہے کہ ہم ہر چیز کو ایک متن کی حیثیت سے دیکھ سکیں۔ ایک ایسا متن جو نشانات پر مشتمل ہے، نشانات جن پر معنی کی رسمیات (conventions) کی حاکمیت ہے اور جو رشتوں کے ایک pattern کے مطابق ترتیب پاتے ہیں۔

ساختیات ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم تاریخی اور بین الثّقافتی تناظر میں اور ایک منظم طریقے سے متُون کو پرکھ سکیں۔

جب ہم زیادہ سے زیادہ معروضی اندازِ نظر اپنانے کے خواہاں ہوں، جب ہم زمانی رکاوٹوں کو عبور کرنے، روایتی آراء کی حد بندیوں سے نکلنے، اور ثقافتی و مفاداتی تعصبات سے گریز اختیار کرنے کی جانب مائل ہوں تو ایسی صورت میں، ساختیاتی طریقۂِ کار (ایک خاص ترتیب، باہمی ربط و تسلسل اور معنویت کے اصولوں کی تلاش کا عمل) خود بَہ خود اہم اور غالب حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔

مطالَعہ کا یہ نیا طریقۂِ کار، ایسے متون کے ثقافتی تجزیے (cultural analysis) کی بھی راہ ہموار کرتا ہے جنھیں اب تک ایسے کسی بھی طریقے کے تحت پرکھنے سے گریز کیا جاتا تھا؛ ایسے متون جو بَہ ظاہر ادبی اصولوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ لہٰذا، وہ ادب نہیں کہلاتے جیسا کہ کسی طرح کی مقبول و مشہور (پاپولر) تحریریں (نان فکشن)، ذاتی، یا نجی تحریریں، یا پھر وہ متون جنھیں تاریخ کے نام سے موسُوم کیا جاتا ہے۔

بات در اصل یہ ہے کہ ادب کی معنویت کے ضابطوں کو، جب (کسی ثقافت کے وسیع تر معنیاتی میدان میں کارِ فرما) اصولوں کے بے شمار مجموعوں میں سے محض ایک مجموعہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے تو ادب کو ایسے کئی پہلوؤں سے محروم ہونا پڑتا ہے جنھیں ادب کے تقدم، ایک الگ اور مستحکم حیثیت اور مقام کا حوالہ سمجھا جاتا رہا ہے۔

لہٰذا، ساختیات میں، ادبی مطالعے کا دائرۂِ کار ہر طرح کے متن کے مطالعے تک پھیل جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں مقبول و مشہور تحریریں بھی سنجیدہ مطالَعہ کا معروض بن جاتی ہیں۔ مزید بَرآں (i) ادبی معنویت کی رسمیات اور (ii) اس طریقۂِ کار کہ جس کے تحت کوئی کلچر حقیقت کو متصور کرتا ہے، کے درمیان تعلق کی بنیادیں بھی فراہم ہو جاتی ہیں۔ جس کی بَہ دولت ادبی معنویت کا ثقافتی (یا انسانی اور روز مرہ کی) معنویت کے ساتھ جو رشتہ اور تعلق ہے اسے زیادہ واضح اور یقینی طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے علم میں آنے والی ہر چیز، ایک معنیاتی نظام کے ساتھ اور اس کے اندر اپنے تعلق، نسبت یا رشتے کی بَہ دولت جانی جا سکتی ہے۔ تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر چیز اپنے وُجُود کے اعتبار سے گویا متنی (textual) ہے۔

تمام تر دستاویزات کا مطالعہ ایک متن (text) کی طرح کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ادب کی طرز پر تاریخ اور سماجیات کا تجزیہ بھی ممکن ہے۔

تمام ثقافتوں کا مطالَعہ ایک متن کی طرح کیا جا سکتا ہے۔

عقائد کے مروّجہ نظام بھی ایک متن کی طرح ہی قابلِ مطالعہ اور لائق تجزیہ ہیں، کیوں کہ انسانی ذات اور اس کی فطرت کی تشکیل میں ان کا کردار بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔

نتیجتاً، اس بات پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے کہ کسی بھی کلچر میں زبان کے استعمال کی نوعیت کیا ہے؟ مختلف سماجی مظاہر، مسائل، موضوعات، معاملات اور مشاغل سے جڑا زبان کا مخصوص استعمال اب  ڈسکورس کہلاتا ہے۔ اگر چِہ ڈسکورس کی اصطلاح پسِ ساختیاتی فکر اور مباحث میں زیادہ مقبول اور مستعمل ہے۔

ساختیات اور ادب

متنیت (textuality) کے دائرۂِ کار کے دیگر متون تک پھیلاؤ کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم ادب کی پیچیدگی اور معنویت کی طاقت کو گھٹا رہے ہیں، بَل کہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس طریقِ کار کی بَہ دولت ادب کی متنیت اور ثقافتی معنویت (cultural meaningfulness) میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

اگر قاری اور متن دونوں ہی سماجی تشکیل ہیں، تو متون کی معنویت کا اظہار زیادہ بہتر انداز میں ممکن ہے، کیوں کہ قاری اور متن باہمی طور پرابلاغ کے لیے، معنیاتی تشکیلات (meaning-constructs) کو ہی استعمال میں لاتے ہیں۔ اگر ثقافت کی نوعیت متنی ہے تو ادب کی متنیت کے ساتھ ثقافت کا تعلق زیادہ فوری اور لازمی، زیادہ بہتر اور مناسب اور زیادہ دل چسپ ہو گا۔

ادب در اصل بہت سارے ڈسکورسز میں سے محض ایک ڈسکورس (discourse)  ہے۔ ہر ڈسکورس کا اپنا ایک معنیاتی نظام (meaning system) ہوتا ہے او ر اس میں زبان کا اپنا ایک مخصوص روایتی استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی طرح دیگر لسانی وسائل (بدیعیات) اور موضوعاتی تخصیص بھی ہر ڈسکورس میں مختلف طرح سے عمل پیرا ہوتی ہے۔

جسے حقیقت کا نام دیتے ہیں وہ در اصل ضابطہ بند (coded) اور رسمی (conventional) ہے۔ اس دعویٰ کی بَہ دولت ہم اس بات کو اَز سرِ نو زیرِ غور لا سکتے ہیں کہ حقیقت کو ادب میں کیسے پیش کیا جاتا ہے؟

ہمیں جو حاصل ہوتا ہے وہ حقیقت نہیں بَل کہ حقیقت کا تاثر (reality effect) ہوتا ہے۔ نشانات(signs) جو حقیقت کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ حقیقت یا فطرت کا بھیس لیے (naturalized) ہوتے ہیں۔ انھیں حقیقی اور فطری بنا کر پیش کیا جاتا ہے تا کِہ ہم انھی کے ذریعے حقیقت کو دیکھ سکیں، یا دوسرے لفظوں میں ان کی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ یہ حقیقت کے اصولوں پر پورا اترتا دکھائی دیں۔ یہ ممکن ہو پاتا ہےvraisemblance کے ذریعے۔ محض دکھاوے کی صداقت، یا ان نشانات کو فطری پن کا بھیس پہنا کر۔ Culler کی کتاب Structuralist Poetics کے مطابق  vraisemblance کے کچھ عناصر کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ یہ سماجی طور پر دیا گیا ایک متن ہوتا ہے جسے حقیقی دنیا کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے، اور اسے سچ بھی مان لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ بیان کہ ہم ذہن اور جسم رکھتے ہیں۔ یہ ایک متنی مظہر ہے۔ وہ اصطلاحیں جو اس بیان (ہم ذہن اور جسم رکھتے ہیں) کے بارے میں مستعمل ہیں اور ان اصطلاحوں میں سے بیش تر اصطلاحات کے درمیان تعلق اور یہاں تک کہ وہ معنی جو ہم ان اصطلاحات سے اخذ کرتے ہیں، یہ سب کچھ، در اصل مخصوص ثقافتی مفروضوں کو ضابطہ بند (codify) کرنے کا ایک عمل ہے۔

۲۔ ایک عمومی ثقافتی (کلچرل) متن جو قابلِ شناخت مشترکہ علم (shared knowledge) کا حامل ہوتا ہے۔ اپنی مخصوص ثقافت کا حصہ ہونے کے ناطے ہم اس مخصوص مشترکہ علم کو پہچان لیتے ہیں لیکن یہ مخصوص علم اصلاح، یا ترمیم کے تابع ہوتا ہے۔

اسی مشترکہ علم کی بَہ دولت ہم مختلف اعمال کے بارے میں دست یاب بیانات سے یا پھر ملبوسات اور لوگوں کے رویوں سے، کسی مقصد، نیت، کردار یا معنی کی تشریح، یا توضیح و تعبیر کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔

جیسا کہ یہ جملہ، جمیل نے صرف نیکر پہنی اور دفتر چلا گیا۔ ہمیں جمیل کے متعلق ایک طرح کی تشریح، یا توضیح فراہم کر ے گا، یا پھر ہمیں اس بات کی وضاحت کی جانب مائل کرے گا کہ جمیل نے ایک کلچرل کوڈ، ثقافتی اصول، یا ضابطے کو کیوں توڑا؟ اس مثال میں توڑا گیا ضابطہ، یا اصول لباس کے متعلق ہے جسے ہم dress code کہہ سکتے ہیں۔

اسی طرح یہ جملہ بھی کہ جمیل اس لڑکی کو دیر تک گھورتا رہا، ثقافتی طور پر coded بیان ہے۔ ہم نے جمیل کے رویے کو پڑھ لیا۔ ہم ثقافتی ضابطوں کی تدوین کے راستے حقیقت کی تقلید یا نقل کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

Some Elements of Structuralism and its Application to Literary Theory by Professor John Lye, Brock University (An article from Internet)

(اہم نکات اور حصوں کا ترجمہ، مفہوم، تلخیص)