رنگ برنگے شہر، مکالماتی سفر نامہ

Rang Barangay Shehr رنگ برنگے شہر، مکالماتی سفر نامہ
Rang Barangay Shehr

رنگ برنگے شہر، مکالماتی سفر نامہ

تبصرۂ کتاب از، ثقلین سرفراز

رنگ برنگے شہر سفر نامہ یورپ ہے جو کہ سید گلزار حسنین صاحب نے دل و جان سے لکھا ہے۔ وہ اس سفر نامہ کے ذریعے جہاں ہمیں یورپی تہذیب و ثقافت سے شناسا کراتے ہیں وہیں ان کے قلمی جوہر بھی طرز نگارش سے خوب آشکار ہوتے ہی۔ وہ یورپ کی جہانِ تازہ نمود کا اظہار اس سفر نامے میں بڑے کھلے انداز میں کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے ایک منچلے دوست ناصر کے ساتھ یورپ کی سیاحت کرتے ہیں اور ناصر کا ذکر اکثر جگہ پر مختلف حوالوں سے کرتے ہیں۔ ساتھ وہ ان کے کئی رویوں کا اظہار بھی بے لاگ انداز میں کرتے ہیں۔

ناصر اُن کے دوست ہیں۔ ان کے رویوں کو اکثر برداشت کرنا اور بعض موقعوں پہ نا چاہتے ہوئے اُن کا اپنے رد عمل سے اظہار کرنا شاید اُن کے مزاج کا حصہ بن چکا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا پالا مختلف لوگوں سے پڑتا ہے، جہاں وہ اُن سے مکالمہ کرتے ہوئے ان کے مزاج و رویوں سے شناسا ہوتے ہیں، وہیں وہ اپنے تاثرات قاری پر بھی واضح کرتے نظر آتے ہیں۔

ناصری رویہ سے جہاں جہاں صاحب تحریر دو چار ہوتا نظر آتا ہے وہاں وہاں قاری بھی اس کو محسوس کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناصری رویہ سے لکھاری کے رد عمل کے رویے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ لکھاری تصنع و مبالغہ آمیزی سے نالاں نظر آتا ہے۔ وہ صرف اوریجنیلٹی کے قائل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جہاں وہ ناصر کے جگہ جگہ اُن کے متعلق مبالغہ سے لبریز بے جا تعارف سے لگا کھاتا ہے وہیں وہ ناصر کی نصرت کے بھی قائل نظر آتے ہیں۔

اب ہم سفر نامہ کی مختلف جہات کو پیش کریں گے۔ سب سے پہلے میں اس سفر نامے کو ایک مکالماتی و جغرافیائی مطابقت سے مسلسل رواں دواں، ترتیب و تکمیل پانے والا سفر نامہ کہوں گا۔ مجھے یہ رائے زنی کرنے میں بھی کوئی تامّل نہیں کہ یہ صرف ایک مکالماتی سفر نامہ ہے جو کہ مختلف جغرافیائی خطوں سے حقیقیت سے مزین کشید شدہ کرداروں سے وجود و تکمیل پایا ہے۔

یہ بات بھی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ مختلف تانیثی کرداروں کے رومانوی مکالموں نے اس سفر نامہ کو مہمیز دی ہے۔ رومانوی مکالموں کی فضا کچھ ایسی دل کش و سِحَر انگیز ہے جس سے ایک قاری بھی اپنا دل لبھائے بَہ غیر نہیں رہتا، بَل کہ، بعض جگہوں پہ تو وہ خود شریکِ مکالمہ ہو جاتا ہے۔

مثلاً، سالسبرگ میں سیاحت کے دوران ایک جگہ بیٹھے ہوئےجب اُن کے پاس اک دوشیزہ آ بیٹھتی ہیں تو وہ اُن سے مکالمے کی راہ پیدا کرنے کے لیے پوچھ لیتے ہیں:

“تمہارا تعلق کس ملک سے ہے؟”

اس نے جواب دینے سے قبل اپنی زبان نازک ہونٹوں پر پھیر کر انھیں اور رسیلے بنایا، پھر بولی، “رومانیہ”

اس درج بالا بات سے ایک مکالمے کا آغاز ہوتا نظر آتا ہے جو کہ درج ذیل جملوں سے واضح ہو جائے گا اور دوسرا جملے میں رومانیت کا تڑکا سفر نامہ کی جاذبیت و دل کشی کو اُبھارتا ہے۔ یک قاری اس رومینٹک فضا میں کھو جاتا ہے اور تجسس و تسلسل کے ساتھ سفر نامہ کو پڑھتا چلا جاتا ہے۔

“اگر تم چاہو تو میرے ساتھ ٹھہر سکتی ہو۔”

“کہاں؟”

“میں اور میرا دوست اس کی دوست کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں۔”

اس نے دو بارہ جائزہ لیا اور پھر سوچ کر بولی: “اگر تمہارے پاس جگہ ہے تو مجھے تمارے ساتھ چلنے میں کوئی اعتراض نہیں۔”

مجھے یوں لگا جیسے ارد گرد کا ماحول اور زیادہ رنگین ہو گیا ہو، میں نے بینچ کی پشت چھوڑ دی اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔”

اس درج بالا شذرہ سے واضح ہو جاتا ہے، مکالماتی انداز اور رومانوی فضا دونوں مل کر اس سفر نامے کو جاذب و جاوید بنا دیتے ہیں۔ مکالماتی ماحول تو آخر تک قائم و موجود رہتا ہے، جب کہ رومانوی امرت بانی ایک آزاد و پر سکون ماحول کی متقاضی ہوتی ہے جُوں ہی بادِ نسیم کے رومانوی جھونکے پے در پے آتے ہیں تو ایسا منظر و ماحول بنتے دیر نہیں لگتی اور لکھاری کے اندر کا رومان انگڑائیاں لیتے ہوئے اپنے مطلوبہ تانیثی کردار سے دل آویز و دل کش مکالمہ شروع کر دیتا ہے۔ ایسے لمحات کا وہ شدت سے متلاشی ہوتا ہے۔

سفر نامے کا ایک اختصاصی پہلو یہ بھی کہ جب آپ اسے پڑھنا شروع کرتے ہیں تو ایک دم آپ کو لگتا ہے کہ آپ سفر نامہ نہیں شاید کوئی افسانہ پڑھنے لگے ہیں۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی آپ افسانوی فضا سے نکل کر سفر نامہ کے ٹریک پر آ جاتے ہیں۔

افسانوی مناظر بھی آپ کو کئی ایک جگہوں پر ملیں گے اور مختلف مقامات پر افسانوی باتوں کی طراوت و حلاوت سے اپنے آپ کو تازہ دم و شیریں مزاج محسوس کرتے ہیں۔ بعض جگہوں پر افسانوی فضا کا ہونا اس سفر نامے کا حُسن معلوم پڑتا ہے۔ ایسے موقعوں پر لکھاری کسی بھی منظر یا خیال کی ایسی افسانوی تعبیر و تشریح کرتا ہے جس سے سفر نامے کی جاذبیت دو بالا بل کہ سہ بالا ہو جاتی ہے۔

منظر و جزئیات نگاری پر موصوف مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ واقعات و احساسات کا تحریر میں ایسا دخول کرتے ہیں کہ پڑھتے ہوئے لطف آ جاتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ہر منظر آنکھوں کے سامنے چل رہا ہو اور محسوسات کا عمل بھی برابر ساتھ چلتا ہے۔ سفر نامہ کے ہر باب کے عنوان کو لفظوں کا اچھا لباس پہنایا گیا ہے جو کہ کسی بھی شہر کا خوب صورت و حقیقی دروازہ معلوم پڑتا ہے۔ جُوں ہی آپ دروازہ کھولتے ہیں تو آپ کو ہر باب کے اندر ایک الگ جہاں ملتا ہے۔ منظر و جزئیات نگاری کی ایک عمدہ منظر کشی لگے ہاتھوں ملاحظہ کریں:

“عمارت سبزے کی آغوش میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ خوش رنگ پھولوں کے تختے سبز لان میں ہنستے مسکراتے جزیرے دکھائی دیتے ہیں۔ قدیم گول اور چوکور تالابوں میں سایے پانی کے ساتھ ہم رقص لگے۔ ان کے درمیان اور کناروں پر بنے حقیقت کا گھونگھٹ اوڑھے ہوئے مجسمے جو اکثر ان تالابوں میں پانی اُگل رہے تھے، یوں لگتا تھا جیسے حقیقت اور وہم آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں۔”

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کمال منظر و جزئیات نگاری اس سفر نامہ کی زینت ٹھہرتی ہے۔ اس کے شان دار نمونے آپ کو جا بہ جا ملیں گے۔ آپ ان سے حظ اُٹھائے بنا نہیں رہ سکتے۔ اس کے ساتھ موصوف واقعات بینی کا جب تانتا باندھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ واقعات کے ساتھ وہ مغربی تہذیب و سماجی اخلاقیات کے گرویدہ نظر آتے ہیں اور ان کی توصیف، احسن انداز میں پیش کرنے پر کمال قدرت بھی رکھتے ہیں۔ ساتھ تاریخ کی جان کاری کو رقم کرنا وہ اپنا اوّلین فرض سمجھتے ہیں۔ اسی حوالہ سے ایک آدھ مثال ملاحظہ کریں:

“کئی صدیوں تک آسٹریا یورپی ترقی اور مغربی تہذیب و تمدن کا مرکز رہا ہے اور اس کے اثرات دیہی و شہری زندگی میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں کی خانقاہوں،گرجا گھروں، محلوں اور تاریخی مقامات میں نشاۃِ ثانیہ دور کی گہری چھاپ ہے۔ آسٹرین تین حصوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ وائین پینے والے، دوم بئیر کے شوقین، سوم سوڈا پینے والے۔ لیکن ان سب میں جو چیز مشترک ہے، وہ ان کا اعلیٰ اخلاق، مہمان نوازی اور حُسنِ مزاح۔ یہاں کسی دکان میں کچھ لینے چلے جائیں تو پہلے خوش آمدید اور دو تین متبادل کلمات کانوں میں پڑیں گے اور پھر مسکراہٹوں میں لپٹے الفاظ سے گفتگو۔”

آپ پڑھتے ہوئے کئی جگہوں پر مغربی تہذیب کی توصیف میں لکھا پڑھیں گے، جو کہ لکھاری کی ژرف نگاہی کا حقیقی ثبوت ہے، جسے انہوں نے باریک بینی سے دیکھا، محسوس کیا اور صفحۂِ قرطاس پر ان کو لفظوں کا جامہ پہنا کر ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیا۔ آپ سرِ تحریر ایک اور حوالہ دیکھتے جائیں:

“سوئس لوگ صفائی پسند ہونے کے علاوہ بہت سگھڑ قسم کے باشندے ہیں۔”

سید گلزار حسنین صاحب، جہاں مغربی تہذیب کی تعریف و توصیف کرتے نظر آتے ہیں وہیں وہ ان کی تہذیب کے کئی اور پہلوؤں کا احاطہ بھی کرتے ہیں۔ وہ مغربی تہذیب سے متاثر ضرور نظر آتے ہیں مگر مرعوب نہیں ہوتے۔ کچھ ایسا بھی نہیں کہ وہ مغربی تہذیب کے مقابل اپنی مشرقی تہذیب کو بھول جاتے ہیں بل کہ وہ کئی ایک جگہوں پہ مشرقی تہذیب کو دُہراتے پائے گئے ہیں۔ مثلاً، جب وہ ناروے کی سیاحت کے دوران اپنے ایک دوست کے ساتھ برہنہ بیچ پر جاتے ہیں تو وہاں اولادِ آدم کو ننگا دیکھ کر سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اپنی مشرقی تہذیب کے لباس کی اہمیت و ضرورت بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں:

“آج زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ لباس کتنی ضروری چیز ہے۔ انسان کو انسان بنانے میں اس کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔ بے شمار مرد و زن، خوب صورت سڈول جسم، برہنگی کے لباس میں سب حیوان لگ رہے تھے۔ عام انسانوں سے بالکل الگ۔”

اس سفر نامے کے متعلق جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ یہ ایک مکالماتی سفر نامہ ہے اور مکالمہ کے زور پر ہی آگے بڑھتا ہے۔ جہاں وہ مکالمہ کے ذریعے کئی کرداروں سے محوِ گفتگو ہوتے ہیں اور تقریباً زندگی کے ہر موضوع پر کسی نہ کسی رنگ میں مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں وہیں وہ عقل و شعور پہ مبنی دانش ورانہ گُل افشانی بھی کرتے ہیں اور سفر نامہ کو تعقلی شعور عطا کرتے ہیں۔ جس سے پڑھنے والے کو اس سفر نامہ میں سیاحت کے ساتھ دانش کے موتی بھی مل جاتے ہیں۔

ویانا شہر کی لڑکی سیمونے ایک پروگرام میں اُنہیں اپنے ساتھ رقص کرنے کا جب پوچھتی ہے تو موصوف رقص کی دعوت کو اپنی اسی حوالہ سے دانش کا یوں اظہار کرتے ہوئے قبولتے ہیں:

“ہاں ناچ کون سی مشکل بات ہے۔ یہ تو ازل سے انسان کا ساتھی ہے کیوں کہ یہ جذبات کا حرکات سے اظہار کا نام اور شکل ہے۔”

آگے چل کر ھیلا برون کی لڑکی سیدا جب ان سے میلہ وغیرہ پر بات کرتے ہوئے پوچھتی ہے:

“کیا تمہارے ہاں کوئی میلہ وغیرہ نہیں ہوتا؟”

اس کا جواب گلزار صاحب دیتے ہوئے میلہ کی حقیقی تعریف بھی ساتھ کر دیتے ہیں جو کہ عقل پر مبنی الفاظ معلوم پڑتے ہیں:

“انسان کی اجتماعی خوشی کے اظہار کا نام میلہ ہے۔”

گلزار صاحب، لفظوں کے شعبدہ گر ہیں۔ الفاظ سے کھیلنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ الفاظ کا انتخاب ایسا شان دار کرتے ہیں کہ ہر لفظ اپنی جگہ نگینہ سجائی دیتا ہے۔ لفظوں کی ایسی طمطراق مالا بُنتے ہیں کہ ہر لفظ کا حق ادا ہو جاتا ہے اور ہم اسے ادب کا زیور جانے بَہ غیر نہیں رہ سکتے بل کہ خود ادب اس پر آپ نازاں دکھائی دیتا ہے۔

گویا صَرف و نحو خود ان کے قلم کا ہم سفر بنی پھرتی ہے۔ موصوف ھیلا برون کی سیدا کو دل دے بیٹھتے ہیں اور ایک دفعہ جب وہ ان سے ملنے جاتے ہیں تو اس کیفیت و جذبات کا اظہار کچھ ایسے ناز و ادا سے کرتے دکھائی دیتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے وہ یہ سب اپنے قاری کو بتا رہے ہوں۔ جس میں جذباتی کسک کے ساتھ دل گداز و اداسی کی کیفیت بھی محسوس کی جا سکتی ہے:

“اس کے ریشم جیسے بالوں سے عجب نشاط انگیز مہک آ رہی تھی۔ ایسی مہک جو روح کو نہال کر رہی تھی۔ جو اپنی طلب بڑھا رہی تھی۔ جو کسک پیدا کر رہی تھی۔ جو آرزو اور امنگ کے پر لگائے ہر سمت پھیل رہی تھی۔ اس کسک اور طلب، آرزو اور امنگ کے گہرے غلاف میں سے اداسی نے جھانکنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ آرزو، امنگ، طلب سب کو پچھاڑنے لگی۔ اب گہرا ابر فقط اداسی کا تھا۔ آرزو اور امنگ کی گھٹا کو وسوسوں کی تیز ہوا مِنٹوں میں تتر بتر کر گئی۔”

ہم اس تجزیاتی مضمون کو مزید آگے کی طرف بڑھاتے ہوئے سفر نامہ کی کلائمکس رومانوی گفتگو سے چند حوالوں کے ساتھ بات کو اختتام کی طرف بھی لیے چلیں گے۔

اس سفر نامہ کو اگر خوب صورت و شائستہ اسلوب کا بے مثال مرقع کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا، بل کہ اس کے باب ھیلا برون کی سیدا میں اسلوب اپنے پورے جوبن کے ساتھ گل افشانی کے رنگوں کو بکھیرتا نظر آتا ہے۔

موصوف لکھاری کو جب ھیلا برون کی دوشیزہ سیدا سے والہانہ عشق ہوتا ہے تو ساتھ یہ گرمئیِ جذبات سیدا کی روح میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور اُن کو یہ فکر ستائے جا رہی ہوتی ہے کہ میرا دل رُبا کیا واقعی پاکستان واپس چلا جائے گا۔ اس ملی جُلی غیر یقینی کی کیفیت میں وہ پوچھ لیتی ہیں کہ کیا واقعی تم کل واپس جا رہے ہو…؟ اس کا جواب موصوف کسک مندی سے یوں دیتے ہیں:

“ہاں میرا جسم کل یہاں سے جا رہا ہے، لیکن روح یہیں رہے گی تمہارے آس پاس … اتنی دیر جب تم مجھے یاد رکھو گی۔ اگر جلد بھول گئیں تو میری روح گریہ زاری کرتی نگر نگر کی خاک چھانتی میرے پاس واپس پاکستان لوٹ آئے گی۔”

عشق و محبت کے یہ دونوں کردار ایک عجب جذباتی کسک میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ وہ مر کر بھی نہیں چاہتے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے جُدا ہو جائیں۔ فطرت نے اُنہیں ہم آغوش کر دیا تھا لیکن زندگی کی عجب بے ثباتی اُن کو ایک دوسرے سے وصال سے فراق کی طرف لے جا رہی تھی۔ خواہش، حسرت میں بدلنے والی تھی۔

وہ اس جُدائی سے غم زدہ ہوئے جا رہے تھے۔ کیوں کہ ان دونوں پر آنے والا کل قیامت ڈھانے والا تھا اور پھر ایک مسلسل اذیت ناک لمحات باقی رہنے جا رہے تھے۔ جب وہ دونوں ایک جگہ پہ بیٹھے ہوتے ہیں تو عجیب دل گُداز کیفیت میں غرق ہوئے وہ سیدا سے پوچھتا ہے:

“کل تم مجھے الوداع کہنے تو آؤ گی نا؟”

وہ یہ بات سُن کر جیسے سَکتے میں آ جاتی ہے اور کوئی جواب نہیں دیتی۔ اس لمحے وہ اپنے ہاتھ میں چیری پکڑے ہوتی ہے۔ وہ چیری کو جب دباتی ہے تو کیا سماں برپا ہو جاتا ہے؟ سرخ رس نکلتے ہوئے اس کی انگلیوں پر پھیل جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ سرخ رس اس کا خون جگر ہو۔ اس واقعہ کو جب وہ صفحۂِ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں تو وہ سرخ رس سارے صفحہ پر لہو کے چھینٹے معلوم پڑتے ہیں:

“اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ فقط ہاتھ میں پکڑی چیری کو دباتی رہی جس سے اس کا سرخ رس نکل کر اس کی انگلیوں پر پھیل گیا۔ وہ بالکل سرخ خون لگ رہا تھا۔

میں نے جیب سے رومال نکالا اور اس کا ہاتھ جو چیری کے رس سے سرخ ہو رہا تھا صاف کر دیا۔ ہم کافی دیر بنا کچھ بولے بیٹھے رہے۔”

انسان کے لیے جسے وہ ٹوٹ کر چاہتا ہو، اس سے جدائی کا سب سے درد ناک لمحہ کچھ اس وقت بھی زور پکڑنے لگتا ہے جب اُسے یہ یقین ہو جائے کہ یہ فاصلے اب ابدی ثابت ہونے جا رہے ہیں۔

واپس جانے کے لیے جب وہ ٹرین میں داخل ہونے لگا تو وہ گھڑیاں سیدا کے لیے موت سے بڑھ کر تھیں۔ کس حوصلہ و ہمت سے سیدا اپنی آنکھوں سے یہ سب مناظر دیکھ رہی ہو گی کیوں کہ وہ جس آس، امید کے ساتھ دھوپ میں دن، رات گزار چکی تھی وہ شجر اس کے نصیب میں ہی نا لکھا تھا۔

جب انسان اپنی راحت سے مجبوراً جدا ہو رہا ہو تو اسے ہر آئندہ خوشی، منظر، دل کشی ماند لگتی ہے۔ جب ٹرین چلتی ہے تو سوچوں کا ایک سمندر اس کے گرد گھیرا ڈال لیتا ہے۔ اسے کوئی بھی چیز اچھی نہیں لگتی اور بے بسی کی دنیا اس کی حالت غیر کر دیتی ہے۔

“آسمان پر نکھری دھوپ اور بادلوں کے بڑے بڑے ٹکڑے موجود تھے۔ کہیں تو بادلوں کی وجہ سے فصلیں اور جنگل گہرے سبز ہو رہے تھے اور کہیں بادلوں کے چاک لبادے سے جھانکتی تیز نکھری دھوپ سونے کی بارش لگ رہی تھی۔ دریائے ڈینیوب کے کنارے پر واقع قدیم بلند و بالا محلات، دریا کا نیلگوں پانی، مسکراتا سبزہ، کھلکھلاتی اٹکھیلیاں کرتی خوش گوار ہوا، لطیف ٹرین کے جھٹکے، دریا میں رواں کشتیوں کے پھڑ پھڑاتے رنگین بادبان، ہر شے ملکوتی حسن اور ازلی سِحَر لیے ہوئے تھی لیکن کچھ اچھا نہ لگا۔

ایک عجیب کیفیت اور احساس تھا جو دل و دماغ کو مغلوب کیے ہوئے تھا، آہستہ آہستہ شکنجہ کس رہا تھا۔”

جب انسان غم زدہ ہو تو ہر چیز اسے اداس اداس لگتی ہے، اس وقت وہ سمجھتا ہے ساری دنیا غم و اداسی کے غلاف میں لپٹ چکی ہے۔ اس کے خیالوں، سوچوں پر اداسی و پریشانی کی قدغن لگ جاتی ہے۔ ہر منظر اسے مرجھایا لگتا ہے۔ اس درج بالا پیرا گراف میں اسی مناسبت سے واضح عکاسی کی گئی ہے۔

اس سفر نامہ کو پڑھنے کے لیے جہاں رنگینئِ جذبات کی فراوانی درکار ہے۔ وہیں آپ کو مغربی تہذیب کی جاذبیت کی سِحَر انگیز کیفیت سے مشرقی تہذیب میں آنے کے لیے ہمت و حوصلہ بھی چاہیے۔ جہاں آپ رومانوی فضا کے سِحَر میں کھونے کو بے تاب ہوتے ہیں۔ وہیں آپ اس رومانوی فضا کے فراق سے نکلنے کا دل گردہ بھی رکھتے ہوں۔ آپ وصال کے لیے جذبات کی کثرت اور جدائی کے لیے صبر، ہمت و حوصلہ لیے اور اسی امتزاج کی ہم آہنگی سے اس سفر نامے کو آج ہی سے پڑھنا شروع کر دیں۔