جماعت اسلامی کے ایجنٹ نے پیپلز پارٹی کا ووٹر کیسے پہچانا 

سلمان یونس

جماعت اسلامی کے ایجنٹ نے پیپلز پارٹی کا ووٹر کیسے پہچانا 

از، سلمان یونس 

باہر نکلیں اگر ہم سے اتفاق کرتے ہیں تو ہمیں ووٹ ڈالیں۔

باہر نکلیں اگر ہم سے متفق نہیں تو ہمارے خلاف ووٹ ڈالیں۔

یہ پیپلز پارٹی کے منشور کی آخری دو لائنیں ہیں۔ پاکستان میں قومی سطح کی واحد سیاسی جماعت جس میں یہ بات کہنے کا ظرف، حوصلہ اور سمجھ ہے۔

بی بی کی دوسری حکومت برطرف کیے جانے کے بعد فروری 1997 میں ہونے والے عام انتخابات کی بات ہے۔ ووٹنگ والے دن پولنگ سٹیشن گیا تو یاد آیا کہ میرا شناختی کارڈ تو ٹریفک چالان کی وجہ سے اسلام آباد ٹریفک پولیس کے پاس جمع تھا جو میں واپس لینا بھول گیا تھا۔ پولنگ کے عملے کو پاسپورٹ اور ڈومیسائل پر ووٹ ڈالنے کی درخواست کی، لیکن وہ نہ مانے۔

نا چار ایک دوست کی وساطت سے اسلام آباد کچہری کے متعلقہ عملے تک رسائی حاصل کی۔ آفس الیکشن کی وجہ سے کھلا تھا۔ بیش تَر عملہ بھی مختلف ڈیوٹیوں کی وجہ سے آ جا رہا تھا۔ بڑی تگ و دو کے بعد رجسٹر کھنگال کر شناختی کارڈ کا سراغ نکالا تو پتا چلا کہ میرا کارڈ جس الماری میں ہے، اور اس کی چابی جس اہل کار کے پاس ہے وہ گجر خان کا رہنے والا ہے اور اس کی وہیں ڈیوٹی لگی ہے۔

اس وقت تک دن کےساڑھے بارہ بج چکے تھے۔

رمضان کا مہینہ تھا۔ والد صاحب محلے کی مسجد میں مُعتکِف تھے اور میں نے کئی دن لگا کر انھیں قائل کیا تھا کہ اعتکاف سے رخصت لے کر ووٹ ضرور ڈالیں؛ حالاں کہ انھوں نے اعلانیہ پی پی کے خلاف ووٹ ڈالنا تھا، مگر میرا اصرار تھا کہ اس کے با وُجود میرے نزدیک اہمیت ووٹ ڈالنے کی ہے وہ چاہے جسے مرضی دیں۔

خیر، کچہری والے کام کو بیچ میں چھوڑ کر والد صاحب کو مسجد سے لے کر ووٹ ڈلوانے لے کر گیا اور پھر مسجد چھوڑ کر واپس اپنے شناختی کارڈ کے پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا۔

کچہری کے عملے میں سے ایک بندے کو کہہ کہلا کر ساتھ لیے ہم گُجر خان گئے، متعلقہ بندے کو ڈھونڈا، اس سے الماری کی چابی لی، واپس کچہری آئے؛ الماری کھولی، اس میں پڑے ڈیڑھ دو ہزار کارڈوں میں سے اپنا کارڈ ڈھونڈا، چالان کے برابر رقم اور چائے پانی اور شکریہ ادا کر کے جب میں پولنگ سٹیشن پہنچا تو قریباً چار بجے کا عمل ہو گا۔

ٹرن آؤٹ ملک بھر میں ہی کم تھا، اور اسلام آباد میں سردیوں کی شام کو رش نہ ہونے کے برابر تھا، پولنگ کا عملہ اور پولنگ ایجنٹس ساتھ بیٹھے چائے سموسے اڑا رہے تھے۔

یہ میرا ان کے پاس صبح سے تیسرا چکر تھا۔ میں نے اپنا شناختی کارڈ پیش کیا، تو انھوں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ اب کہاں سے مل گیا۔ میں نے جواباً کارڈ کے حصول کی تگ و دو سنا دی تو ایک پولنگ ایجنٹ کہنے لگا کہ یار ووٹ ڈالنے کے لیے اتنا کشٹ؟ آپ کا ووٹ بہت قیمتی ہے، مجھے بتائیں کہ آپ کسے ووٹ دیں گے؟

میں نے بتانے میں تامل کیا تو ایک پولنگ ایجنٹ، غالباً، جماعت اسلامی کا تھا، کہنے لگا میں بتا دیتا ہوں، یہ پی پی کو ووٹ دیں گے، پاکستان میں ایسا ووٹر صرف پی پی کا ہو سکتا ہے جو اپنے مخالف کا ووٹ بھی ڈلوائے اور اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے  اتنی تگ و دو کرے۔

اسی الیکشن کی رات کی بات ہے، ٹی وی پر تبصرے ہو رہے تھے، مجیب الرحمان شامی ایک پروگرام میں  بیٹھے بڑے طُمطراق سے کہہ رہے تھی کہ پیپلز پارٹی اب ہمیشہ کے لیے ایک علاقائی، بَل کہ، ضلعی جماعت بن گئی ہے۔

آج بھی جغادریوں اور چوزوں کو جب مختلف سیاسی جماعتوں کے متعلق یہ کہتے سنتا ہوں کہ غیر متعلق ہو گئے اور سیاست ختم ہو گئی وغیرہ  تو تجزیے  کے نام پر خواہشات کے اظہار کا گمان ہوتا ہے۔