معاشرہ ہی تو مجرم بناتا ہے

معاشرہ ہی تو مجرم بناتا ہے

از، شاہد نسیم

پچھلے دنوں معمول کے حادثات میں سے ایک حادثہ قندیل بلوچ کا قتل بهی تها، یوں تو ہمارے ہاں قتل ہونا یا کرنا اس قدر معمول کا عمل بن چکا ہے کہ اب اس طرح کی خبروں پر حیران ہونا خود حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ بهلا اس میں چونکنے والی کیا بات. مگر اس حادثے سے بڑا سانحہ کہ جس نے اسیر ذہن اور بیمار سوچ میں ہلکہ سا تغیر پیدا کیا وہ یہ خبر تهی کہ بھائی نے بہن کو قتل کر دیا آپ کے سر کی چادر جب آپ ہی کے گلے کا پهندا بن جائے، اور انگلی پکڑ کر چلنا سیکهانے والے ہاتھ جب آپ کے گلے کی جانب اٹھ جائیں تو انسان موت سے بہت پہلے ہی مرجاتا ہے.

عمومی رائے ہے کہ جب سانس کی آمدورفت اور دل کی دھڑکن حتمی طور پر تهم جائے تو اس حالت کو موت کہتے ہیں مگر نجانے کیوں مجھے یقین ہے کہ جس دم اس بھائی کے ہاتھ اسکی بہن کی گردن پر پڑے ہوں گے وہ اسی لمحے یا اس سے پہلے ہی مر گئ ہوگی. اور اس نادان بھائی نے بس ایک جسم کے زیاں کا بےجا الزام اپنے سر لے لیا. معلوم نہی اس خبر کے بعد کتنی بہنوں کے جسم سے رات سونے سے پہلے اپنے بھائی کا سوچ کر خوف  کی ایک لہر سی گزری ہوگی. نجانے اس اطلاع کے بعد کتنے بھائی اپنی بہنوں سے نظریں چرا رہے ہوں گے.

مگر ان تمام باتوں کے باوجود، اس کے باوجود کے ایک انسان سے جینے کا حق چھین لیا گیا مجھے خدا جانے کیوں قاتل سے زیادہ ہمدردی محسوس ہو رہی ہے. اس نادان بھائی کو تو احساس بهی نہ ہو گا کہ وہ کیا کر بیٹها ہے. اور اگر کبھی اس کو اپنے عمل کی سنگین حیثیت کا اندازہ ہو گیا تو پهر اس کی حالت کیا ہوگی. مجھے بار بار خیال آتا ہے کہ اس طرح کہ جرائم اور مجرموں کا نفسیاتی مطالعہ کب ہوگا، اسیر زہنوں میں سوچ کس طرح بهری جائے گی. میں جتنا سوچتا ہوں مجھے وہ بھائی اتنا ہی مظلوم دکهتا ہے. اس معاشرے نے نجانے کس طرح اسکی زہنی پرورش کی کہ اس کے فکری معیار کی یہ حالت ہوگئی.کون کون سے دروازے بند کیے ہوں گے اور کن تاریکیوں میں دکهیلا ہو گاکہ اس حال کو پہنچا کہ بینائی سے محروم ہو گیا.

کن سانچوں میں ڈهال کر کیسی بهٹیوں میں پکایا گیا ہو گا کہ باہر نکلا تو سماج کے لیے ناسور بن گیا. اور اس پر یہ خیال تو لرزا دینے والا ہے کی معاشرے کے جن عقوبت خانوں سے ایسے بھائی باہر آتے ہیں وہاں اور بهی تو ہوں گے اور جب جب کوئی بھائی وہاں سے باہر آئے گا  تب ایک اور بہن کو قربان ہونا پڑے گا. ایک اور ماں ایک اور بیٹی کو زندہ دفن ہونا پڑے گا. اور ان کے بھائی باپ اور بیٹے انکے مرده جسموں کو قتل کرنے کا الزام پهر اپنے سر لیں گے. : بعض اوقات مجھے بےموقع و بےمحل کچھ شعر یاد آجاتے ہیں. غالب کہتے ہیں

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بهی میسر نہیں انساں ہونا