معاشرے پر جمی سیاہی کی دبیز تہیں

Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد

معاشرے پر جمی سیاہی کی دبیز تہیں

از، ملک تنویر احمد

معاشرہ اس وقت شدید نوع کے جس ہیجان کا شکار ہے یہ کچھ عجب نہیں کیونکہ جس معاشرے میں تقسیم و انتشار کی بلاؤں کو نکیل ڈالنے کی بجائے انہیں کھلی چھوٹ دے دی جائے وہ ایسی ہی ہلاکت خیزیوں کے آتش فشاں  پر بیٹھے ہوتے ہیں جو اس وقت ہمارے مقدر میں لکھیے ہوئے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ اعلیٰ انسانی رویوں اور ان سے جڑے ارفع اجزاء کے حوالےسے کسی ایسی تابناک تاریخ کا حامل نہیں کہ ہم ان کی یاد رفتہ میں اپنی جانوں کو ہلکان کریں اور اگر کوئی ایسی زریں یادیں تھی بھی تو وہ ملک کی ازادی کے ابتدائی برسوں میں ہی تحلیل ہو گئی تھیں۔

گزشتہ چار پانچ عشروں میں  فقط تباہی و بربادی کے مناظر نے ہماری آنکھوں کو دھندلا یا اور ہمارے چہروں کو خاک آلود کیا۔ اس سیہ بختی کا گلہ غیروں  سے تو وہ اس وقت بنتا ہے جب اپنوں نے اس سیاہی کو دور کرنے کے لیے اپنا کوئی حصہ ڈالا ہو ۔ یہاں تو ستم بالائے ستم یہ اپنوں کے ہی کرموں کا نتیجہ ٹھہرا کہ معاشرے کے چہرے پر ملی ہوئی سیاہی کا رنگ گہرے سے گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔

کہنے کو تو ہم ایک جمہوری معاشرے میں سانس لیتے ہوئے نفوس ہیں کہ جہاں پر سیاسی ادارے بھی موجود ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی پورے زور و شور سے سر گرم عمل ہیں۔ ایک جمہوری نظام کے سارے لوازمات برتنے کے باوجود ہم معاشرے میں کسی جوہری تبدیلی سے ابھی تک محروم ہیں جو کسی جمہوری، بیدار اور توانا معاشرے کا عکاس ہوتی ہے۔اب جمہوریت کے نظام کا ہم نے جس طرح ستیا ناس کیا ہے شاید اس پر جمہوریت کے ان سرخیلوں کی روح بھی شرمندہ و شرمسار ہو جن کے نخل فکر پر پہلی بار اس نظام کا شگوفہ ہھوٹا تھا۔

ہمارے یہاں جمہوریت کے مروجہ نظام میں جو خامیاں ہیں انہیں ہم انسانی معاشرے میں موجود کوتاہیوں اور کمزوریوں کے کھاتے میں ڈال کر صرف نظر کر سکتے ہیں لیکن اس کے علمبرداروں کے ان جرائم سے نظریں نہیں پھیر سکتے جو آج معاشرے کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ جہاں کسی کی عزت و ناموس محفوظ ہے اور نا ہی جان و مال۔ یہ معاشرہ جس تباہی و بربادی کی ڈھلوان پر روبہ زوال ہے صاحبان فکر و نظر اس کا اندیشہ بہت عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں اور اس دھڑکے سے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ  ابھی شاید اس المناک داستان کا اختتام نہیں ہوا جو کہ اس معاشرے کے گزرے ماہ و سال اور شب و روز کے گرد گھومتی ہے۔

سیاست میں اختلاف ایک عام فہم سا انسانی رویہ ہے اور کوئی بھی جمہوری معاشرہ اس سے مبرا نہیں کیونکہ قسام ازل نے ہر انسانی ذہن کی ساخت و پرداخت مختلف سانچوں میں ڈھال کر کی ہے لیکن اس اختلاف کو برداشت، تحمل اور رواداری کے حصار میں مقید کر کے معاشرے کو انتشار، تقسیم اور بربادی بلاؤں سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ حالیہ عرصے میں عدم برداشت اور عدم رواداری کے چند واقعات نے ایک بار اس حقیقت کو افشاءکر ڈالا من حیث القوم ہم امن، سکون اور آسودگی کی سرسبز و شاداب فصلوں کو کاٹنے کی بجائے کانٹوں سے اپنے بدن کو زخمی کرنے پر مجبور ہیں۔ سیاسی سطح پر عدم برداشت کے رویے جس طرح فروغ پذیر ہیں وہ جوتے اچھالنے اور سیاہی پھینکنے کے ان افسوس ناک واقعات سے عیاں ہیں جن کی ہم سب مذمت تو کر رہے ہیں لیکن ان کے تدارک کے لیے عملی طور پر اقدامات اٹھانے سے گریزاں ہیں۔

یہاں جوتے یا سیاہی پھینکنے والا کا ہاتھ پکڑنا مقصود نہیں بلکہ ان نظریات اور خیالات و جذبات کو شائستگی اور اخلاقیات کے دائروں میں قید کرنا ہے جس میں اختلاف رائے کا اظہار تو برملا ہو لیکن فریق مخالف کی تضحیک کا پہلو نہ نکلتا ہو۔ پاکستان میں مذہب اور سیاست سے وابستہ شخصیات نے سماج پر ہمیشہ سے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔یہ ہماری بدقسمتی ٹھہری کہ چند استثنیات کے علاوہ مذہب اور سماج اوسط درجے کی ذہنیت کے ہاتھوں یر غمال بن چکا ہے اور ان کے بعض مظاہر تو اوسط سطح سے گر کر گھٹیا درجے میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ مذہب کے معاملے میں تو مذہبی افراد کے اقوال و اعمال پر ذرا سی تنقید آپ کے لیے کسی خطرناک صورت حال کو جنم دی سکتی ہے۔ مذہب کی آڑ میں ایک ٹولے نے جس طرح اس سماج کا سکون برباد کیا ہے اس کے خونیں نشانات اس ملک کے دروبام پر ثبت ہیں۔

مذہب جو بنیادی طور پر کسی معاشرے میں اعلیٰ اخلاق کی پرورش و ترویج کا کار خیر انجام دیتا ہے اسے بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تقسیم در تقسیم کے امور سے نتھی کر دیا گیا۔مذہب کو مسلک کے خانوں  میں بانٹ کر کیا کم ظلم ڈھا یا گیا کہ اس کے نام نہاد علمبرداروں کے انداز تخاطب سے لے کر انداز دعوت نے وہ قیامت ڈھائی کہ الامان الحفیظ۔ جو گفتگو صاحبان جبہ و دستار کے لبوں سے پھسلتی ہے وہ ان کی تقلید کرنے والوں کے جذبات میں حدت تو پیدا کرتی ہے لیکن اس سے حسن اخلاق اور حسن سلوک کے اوصاف کشید کرنا ناممکن ہے۔

ان کی فصاحت و بلاغت سے مزین تقریر وں میں گرمی گفتار ہوتی  اور اس میں کچھ مضائقہ بھی نہیں لیکن یہاں تو سطحی اور عامیانہ باتوں سے   شروع ہونے والا بیان دشنام طرازی پر جا ٹکتا ہے۔ اہل سیاست کا جو حال ہے وہ بھی کم ستم نہیں ڈھ رہا۔ اہل سیاست اقتدار کے حصول کی ترکیبیں لڑانے اور پس پردہ معاملات طے ہونے کے دھندے سے فراغت حاصل کریں تو کچھ معلوم پڑے کہ ان کا اصل نصب العین کیاہے۔

جب سے اس ملک میں “تبدیلی” نے اڑان بھری ہے تو اس نے تو سیاست میں کی لنکا ڈھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اہلِ سیاست خیر اس سے پہلے بھی اخلاقیات کے کسی اونچے برج کے مکین نہ تھے کہ فقط “نیا پاکستان” کے معماروں کو دوش دیا جائے کیونکہ نوے کی دہائی میں “اخلاق و کردار” کے جن “خوشنما و دل فریب” نقوش سے سیاست کے غازہ و رخسار سجائے گئے ان میں آج کے انقلابیوں و باغیوں نے خوب حصہ ڈالا تھا۔اج اہل سیاست پر گالی و دشنام و تضحیک و رسوائی کے سارے ہتھکنڈے قابل مذمت ٹھہرتے ہیں لیکن اہل سیاست سے یہ کہنے میں  ہم بھی حق بجانب ٹھہرتے ہیں کہ کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس کو دلوں میں پالنے کی بجائے کبھی تعمیر فرد و معاشرہ کو اپنا مطمع نظر جانا ہوتا تو آج معاشرے میں پھیلی ہوئی سیاہی تمہارے چہروں کو داغدار نہ کر رہی ہوتی۔