وفاق اور ریاست سے علیحدگی کا حق اور غداری کا معاملہ

Dr Irfan Shahzad

وفاق اور ریاست سے علیحدگی کا حق اور غداری کا معاملہ

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

ریاست پاکستان آج جن علاقوں پر مشتمل ہے وہ قیام پاکستان سے پہلے بھی مختلف انتظامی بند و بست کے تحت ہزاروں سالوں سے موجود تھے۔ یہاں کی بیش تر آبادی اپنے آبا و اجداد کے زمانے سے ہزاوں سال سے یہاں کے قدیمی باشندے ہیں۔ اگست 1947 میں ان علاقوں کا پاکستان کے نام پر ان کا ایک اور بند و بست میں وجود میں آیا۔ ایسا نہیں تھا کہ پاکستان کے نام پر پہلے کوئی ملک تخلیق کیا گیا اور پھر لوگوں کو اس میں لا بسایا گیا ہے۔ چناں چِہ اگر کسی کو ریاست پاکستان کے موجودہ ریاستی بند و بست سے اختلاف تھا یا ہے یا وہ یہاں کا غالب مذھب نہیں رکھتا تو اس سے کہنا کہ وہ غدار تھا یا ہے یا پاکستان چھوڑ کر چلا جائے نا دانی کی بات ہے۔

یہ زمین یہاں بسنے والوں کے پُرکھوں کی زمین ہے۔ اس پر ان کا آبائی حق ہے، اسی طرح ان کو دیگر لوگوں کی طرح یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے بارے میں اپنی رائے رکھیں، خواہ وہ غالب اکثریت یا مقتدرہ کی رائے سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔ کل ان علاقوں کا کوئی اور ریاستی بند و بست وجود پذیر ہو جائے، اس کےجغرافیے میں تبدیلی ہو جائے، جیسا کہ اس سے پہلے 1971 میں ہوئی تھی، تب بھی یہاں کے باشندوں سے یہاں رہنے کا حق چھینا نہیں جا سکتا اور نہ کسی اور بند و بست میں جا کر ان کی شناخت گم ہو جائے گی۔ اسی بنا پر ملکی یا ریاستی شناخت کے ساتھ مقامی شناخت بھی ایک حقیقت ہے بَل کِہ زیادہ گہری اور ابدی حقیقت ہے۔

پاکستان ایک وفاق ہے۔ اس کے صوبوں نے تقسیم ہند کے دوران اپنی مرضی سے ایک ریاستی بند و بست میں رہنا قبول کیا تھا۔ چناں چہ اس وفاقی بندوبست میں یہ حق آپ سے آپ شامل ہے کہ وہ اس سے اگر علیحدہ ہونا چاہیں تو علیحدہ بھی ہو سکتے ہیں۔ چناں چہ کسی علیحدگی کے خیال اور تحریک کو غداری کہنا بالکل بے بنیاد بات ہے، سوائے یہ کہ وہ کسی خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہو اور اپنے مقاصد مسلح جد و جہد یا دہشت گردی وغیرہ سے حاصل کرنا چاہیں، جب کہ قانونی طور پر انھیں اپنا مطالبہ پیش کرنے کی اجازت بھی ہو۔


مزید و متعلقہ: علیحدگی پسند تحریکوں کے برپا ہونے کی بنیادی وجہ  از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

جینا ہے کہ مرنا ہے اک بار ٹھہر جائے  از، ڈاکٹر صولت ناگی


آئینِ پاکستان میں غداری کی تعریف میں وفاق سے علیحدگی کی مطالبہ شامل نہیں، البتہ آئین کی خلاف ورزی، طاقت کے استعمال سے اس کی تنسیخ یا معطلی کو غداری میں شمار کرتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں اب تک جو ایسے غدار پیدا ہوئے ہیں، طرفہ تماشا یہ ہے کہ انھوں نے اپنی اس غداری کے با وجود حب الوطنی کی اسناد بھی خود کو خود ہی جاری کیں، جس میں بد قسمتی سے عدلیہ ان کی معاون رہی۔

وفاقِ پاکستان کا کوئی حصہ اس سے علیحدگی چاہتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ اس علاقہ کے لوگوں کو کرنا ہے اور ان کا یہ حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ان کا فیصلہ معلوم کرنے کا آسان طریقہ ریفرنڈم ہے۔ اگر کسی حصے کے عوام کی اکثریت علیحدگی کے حق میں ووٹ دے تو مرکزی حکومت یا کسی بھی ریاستی ادارے کو اس کو جبراً روک رکھنے کی کوئی آئینی گنجایش نہیں ہے۔ اور اگر اس حصے کے عوام کی اکثریت ایسا نہیں چاہتے تو ایسا چاہنے والی اقلیتی گروہوں کو اس کے باوجود اپنا یہ خیال رکھنے اور اس کی ترویج و اشاعت کا آئینی حق حاصل ہے۔ انھیں بھی غدار کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس طرح کوئی لڑائی جھگڑا پیدا نہیں ہوتا۔

یہ گزرے زمانے کا استبدادی مزاج تھا کہ ایک بادشاہ کے زیرِ نگیں ملک کا کوئی حصہ اس سے علیحدگی چاہتا تو اسے بغاوت قرار دے کر بادشاہ فوجی حملہ کرتا اور بغاوت کو دبانے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن بیسویں صدی میں دنیا بدل گئی جب نو آبادیاتی قوتوں نےقومی ریاستوں کے قیام کا بین الاقوامی فیصلہ کیا، جس کے تحت کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کو جبراً اپنے قبضے میں نہیں رکھ سکتی۔ انھوں نے اس کے لیے ریاستی آئین کا تصور دیا جسے تسلیم کرنا ریاست کے شہریوں اور یونٹوں کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔

ریاست و حکومت میں آنے والی اس پیش رفت کو بِلا اختلاف دنیا بھر میں تسلیم کر لیا گیا۔ چناں چہ اب کسی ریاست کو یا ریاست کے کسی حصے کو جبراً اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کی کوئی قانونی گنجایش نہیں ہے۔

وفاق کو قائم رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ اپنی رضا سے اس میں شامل رہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے تمام حصوں میں ایسی کوئی شکایت پیدا نہ ہو کہ وفاق کی بجائے علیحدہ ہونے کو ترجیح دیں۔ ملک کے وسائل کی تقسیم میں، انصاف برتا جائے اور بنیادی حقوق اور ترقی کے مواقع یکساں مہیا کیے جائیں۔

ریاست پاکستان میں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پرانا استبدادی دور ابھی گزرا نہیں اور ہم تاریخ کے گزشتہ دور میں ہی رکے رہ گئے ہیں۔ یہاں اسی بنا پر موجودہ ریاستی بندوبست سے اختلاف کو غداری اور اس کے پر امن مطالبے بلکہ ذکر تک کو بغاوت قرار دے کر بزور بازو اس بغاوت کو فرو کرنا ملک کی سالمیت کے نام پر جائز سمجھتا ہے۔

بنگال کی علیحدگی کی تحریک کے خلاف اسی طرح بلا ضرورت فوج کشی کی گئی جس کے نتیجے میں عظیم انسانی المیے نے جنم لیا، اور پاکستان کی ذلت آمیز شکست الگ ماتھے کا کلَنک بنا۔ اس کے با وجود بھی دورِ رفتہ کا استبدادی نظریہ اور مزاج نہیں بدلا۔ اب بھی مزید جہاں جہاں سے علیحدگی کی بات سنائی دیتی فوراً غداری کے فتوے جَڑ دیے جاتے ہیں ، لوگوں کو ماورائے عدالت سزائیں دی جاتی ہیں۔

علیحدگی کا مطالبہ اِستِحصال کے احساس کے تحت پیدا ہوتا ہے۔ اپنی مرضی سے کسی بند و بست کا حصہ کے احساس کی بجائے اگر غلامی اور مجبوری کا احساس پیدا ہوجائے تو انسان کا جذبۂِ حریت بیدار ہو جاتا ہے، جو پھر کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ صدیوں کی انسانی تاریخ یہی ہے۔ مگر طاقت ور نہ تو حقوق دینے پر رضامند ہوتا ہے اور نہ جذبۂِ حُریت کو راہ دینے پر۔ نتیجہ گولی اور سینے کی لڑائی ٹھہرتا ہے۔

ان مسائل کا آسان حل یہ ہے کہ ریاست کے ذمہ دار سیاست دان ہوں، نہ کہ فوجی سربراہان کیوں کہ ایسے مسائل میں شامل مختلف سماجی عوام کو سمجھنے کی صلاحیت سیاست دانوں میں ہی ہو سکتی ہے۔ سیاست دان اس بات کو یقینی بنائیں کہ ریاست میں اختیارات کی تقسیم تمام صوبوں کے لیے یکساں اصولوں پر مبنی ہو، ملکی وسائل سے ہر صوبے کو اس کا حصہ انصاف کے اصولوں کے مطابق ملے۔ اس کےبعد عمومًا علیحدگی کے خیالات پیدا نہیں ہوتے۔

اس کے با وجود اگر کوئی گروہ مقامی قومیت یا کسی اور بنا پر علیحدگی کا مطالبہ کرے تو پھر بھی اس کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل رہے۔ ریاست کا عمل اگر مثبت ہوگا تو علیحدگی پسندوں کی بات عوام نہیں سنیں گے۔

عوام کو نظریاتی نعروں کی بجائے ہمیشہ حقیقی اور معروضی حقائق متاثر کرتے ہیں۔ جبری زبان بندی سے معاملہ البتہ مظلومیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور مظلومیت خود ایک اخلاقی جواز بن جاتی ہے خواہ در حقیقت وہ کسی درست بنیاد پر قائم ہو یا نہ ہو۔