مجھے پاکستان کیوں عزیز ہے؟

ایک روزن لکھاری
اصغر بشیر، صاحب تحریر

مجھے پاکستان کیوں عزیز ہے؟

از، اصغر بشیر

ویسے تو مجھے اپنے وطن سے محبت کے لیے کسی خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہےپھر بھی بعض لوگ ہر بات کو دلیل سے ماننے کے عادی ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ عقل مند لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ عقل کی انتہا سے محبت کی ابتداء ہوتی ہے۔ عقل کے دائرے میں رہتے ہوئے جو تعلق ہوتا ہے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے محبت نہیں ہو سکتا۔ میرے پاس ان باتوں کو ثابت کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

شاید یہ محبت کی ہی کمی ہے کہ ہم لوگ ہنسنا بھول گئے ہیں۔ گلی ، محلے، بازار جہاں مرضی چلے جائیں آپ قہقہوں کو ترس جائیں گے۔میں راہ چلتے اردگرد دیکھتا رہتا ہوں کہ شائد کسی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلتی ملے لیکن ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا جب میں نے کسی کو ہنستے دیکھا ہو۔ اب تو عادت ہی ہو گئی ہے کہ کہیں آتے جاتے لوگوں کے ہونٹوں کو دیکھتا ہوں کہ شائد بھولے سے ہی سہی کوئی مسکرا دے۔شائد یہ اس لیے ہے کہ ہم لوگ اپنا آپ بھول گئے ہیں۔جدید دنیا کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہم اپنی ذات کی خواہشات کو بھلا بیٹھے ہیں۔ گلوبل ساختیاتی نظام میں تعلقات کے بدلنے سے ہر گزرتے لمحے بدلتی اپنی پوزیشن سے ہم لوگ گھبرا گئے ہیں۔

جس تیزی کے ساتھ نئی معلومات تخلیق ہو رہی ہیں اور ان کو استعمال کیا جا رہا ہے؛ اتنی ہی تیزی کے ساتھ حقائق کثیر جہتی ہوتے جارہے ہیں۔ اب کسی ایک اصول کے تحت زندگی کے سبھی معاملات کو ہینڈل کرنا شائد ممکن نہیں رہا۔ ایسے میں یہ بات اہم ہے کہ ہم اپنے ماضی کے نقطہ نظر کو حقائق کی کسوٹی پر ضرور پرکھیں تاکہ اس کی خوبیاں اور خامیاں ہماری نظر میں آجائیں اور ہم مستقبل میں حقائق کے حوالے سے بہتر ونٹیج پوائنٹ پر ہوں۔ ایسے میں سب سے ضروری چیز اپنی دھرتی سے ایسی محبت کی ضرورت ہے جو کسی کی زر خرید غلام نہ ہو۔ اگر آپ کو پاکستان سے محبت کی وجوہات چاہیں تو درج ذیل پہلوؤں پر غور کریں۔

آج ہم لوگ اپنے موبائلز پر ہِل کلائمب کھیلنے میں اتنے مصروف ہیں کہ ہماری اکثریت کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ پاکستان میں دنیا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندوکش موجود ہیں۔ اسی پہاڑی سلسلہ میں دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں میں سے چار پہاڑی چوٹیاں موجود ہیں۔

بندر گاہیں تو دنیا کے اکثر ممالک میں موجود ہیں۔ ان کی خوبصورتی بھی لاجواب ہے۔ لیکن شائد سب کو نہ پتہ ہو کہ گوادر پورٹ دنیا کی گہری ترین سمندری بندرگاہ ہے۔ اس علاقے کی معیشت کی بقاء کا انحصار اسی پورٹ پر ہے ۔ اس بندرگاہ سے پوری دنیا میں بحری سفر کم ترین وقت میں طے ہو سکتا ہے ۔تمام بڑی طاقتیں اسی بندرگاہ کی بناء پر پاکستان سے دوستانہ تعلقات بحال رکھنے پر مجبور ہیں۔
قراقرم ہائی وے دنیا کی بلند ترین ہموار شاہراہ ہے۔یہ 15,397فٹ کی بلندی پر پاکستان اور چین کے درمیان واقع سڑک ہے۔ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی ہے۔

یہ تو اکثریت کے علم میں ہو گا کہ کھیوڑہ دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے۔ یہ بات بھی شائدسبھی جانتے ہوں کہ یہ پاکستان کی سب سے پرانی کان ہے۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کان کو سکندراعظم کے سپاہیوں نے 320قبل مسیح میں دریافت کیا تھا۔

دنیا کا سب سے اونچا پولو گراونڈ بھی پاکستان کے علاقے گلگت میں واقع ہے۔ اسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ہر سال گلگت اور چترال کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جانے والا پولو ٹورنامنٹ کثیر تعداد میں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے بارڈر پر واقع صحرائے تھر دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے۔اس کی عمر قریباً 10,000 سال ہے۔ یہ کسی دور میں وادی سندھ کی تہذیب کے لیے پانی کا ماخذ تھا۔

دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں موجود ہے۔ یہ نہری پانی قریباً ایک کروڑ چوالیس لاکھ ہیکڑ زرعی اراضی کو سیراب کرتا ہے۔ پاکستانی نہروں کی کل لمبائی 58,500 کلو میٹر ہے۔

ایدھی فاونڈیشن دنیا کی سب سے بڑی غیرمنافع بخش سماجی تنظیم ہے۔ عبدالستار ایدھی نے اس تنظیم کا آغاز ایک کمرے سے کیا تھا۔ آج اس کے تین سو سے زائد مراکز ہیں جو کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ تنظیم چوبیس گھنٹے ایمرجنسی سروس، طبی امداد، اور یتیموں کے لیے چھت کی سہولت مہیا کرتی ہے۔

28 مئی 1998ء کو پاکستان ایٹمی دھماکے کر کے نوکلیئر طاقت رکھنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا۔

ناسا کی رپورٹ کے مطابق سیالکوٹ میں بننے والے فٹبال دنیا میں سب سے بہترین فٹ بال ہیں۔ ہاتھ سے بنائے ہوئے یہ فٹ بال پوری دنیا میں ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں۔ پاکستان قریباً چھے کروڑ فٹ بال سالانہ ایکسپورٹ کرتا ہے۔ 2014ء میں ہونے والے فیفا فٹ بال ورلڈ کپ میں پاکستان نے چار کروڑ بیس لاکھ آفیشل بزوکا فٹ بال ایکسپورٹ کیے تھے۔

ان حقائق کی بنیاد پر پاکستان کے مسائل سے نظریں چرا کر ہر وقت قدرت کے تحفوں کے گن گانا یقیناً بے وقوفانہ عمل ہے۔اس کے برعکس ہر وقت منفی صورتحال کو پیش کرنابھی جذباتی عدم توازن کا باعث بنتا ہے ۔