تمہارا وقت ختم ہوا جاتا ہے

Sheraz Basharat Khan
شیراز بشارت خان

تمہارا وقت ختم ہوا جاتا ہے

از، شیراز بشارت خان

ملنگی کے پیرہن میں سادھو پہنچا منزلِ مقصود پر۔ منزل بھی کیا تھی صاحب جنگل ہی جنگل تھا۔ عقدہِ خاطر کا اثر بڑا بھاری تھا، سادھو کسی چکر میں دنیا کے چکر کاٹتا پھر رہا تھا۔ جس جنگل میں سادھو کا پڑاؤ ہوا، وہاں سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر اک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اس گاؤں کے باسی بالن کے واستے اسی جنگل کا رخ کرتے تھے، اور اس بات سے سادھو بھرپور واقف تھا۔اس نے سب سے پہلے گھاس پھوس اور چند ٹہنیاں اکٹھی کیں اور چھوٹی سی اک جھونپڑی بنائی۔پھر مٹی سے اک کمال کا پیکر تراشا اور اس کا نام “بابا” رکھ دیا۔ بابے تلے اس نے دو چراغ جلا کر رکھے اور صیاد کے مانند شکار کے انتظار میں بیٹھ گیا.

گاؤں کے باسی جب سادھو کی شکار گاہ سے گزرے تو انہیں دیکھتے ہی اس نے اونچا اونچا منتر پڑھنا شروع کر دیا۔دلچسپی پیدا ہونے پر وہ سادھو کے قریب آ پہنچے اور قربت میں اس کی نوٹنکی کا درشن کیا۔خیر ان کے بیچ کچھ سوال جواب ہوئے۔سادھو ٹھہرا فنکار، اس نے اپنی اِلقائی باتوں سے انہیں متاثر کیا اور ساتھ ہی اپنے تخلیق شدہ بابے کا مرشد کی حیثیت سے تعارف بھی کرا دیا۔فراریت کے طلبگار باسی اس کے مرید ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سے شدید ہو گئے۔

مُلحَقہ علاقوں میں اک خاص طبقہ میں خبر گرم تھی کے سادھو دن رات کافروں کی سی حرکتیں کرتا ہے اور کوئی اس کو روکنے والا بھی نہیں۔ بلکہ ان کے لیے زیادہ خطرے کی بات یہ تھی کہ دن بدن اس کے مریدوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ ایسے میں اک کفر شکن اٹھا، جس کا نام غزنوی تھا۔ غزنوی بغیر کسی تعویق کے اس مقام پر پہنچ گیا جہاں سادھو ڈیرا ڈال کر بیٹھا ہوا تھا۔غزنوی اپنے آپ سے بولنے لگا “یہ تو کمبخت اب بھی اسی جھونپڑی میں رہ رہا ہے جس میں دو سال پہلے رہ رہا تھا، فرق بس اب اتنا ہے کہ آس پاس کا جنگل کاٹ کر اس کے کافر مریدوں نے اک نئی بستی آباد کر لی ہے۔”

غزنوی مزید وقت ضائع کیے بغیر اپنے مقصد اولیٰ پر کام کرنے میں لگ گیا۔پہلے اس نے سادھو کے بازو میں ہی اک زمین کا ٹکڑا خریدا اور اس پر چھوٹا سا گھر بنایا۔ پھر خیال آیا کہ کفر کی بستی میں کوئی مسجد ہی نہیں، لہٰذا مسجد تعمیر کی اور ماہانہ وار تنخواہ پر اک نہایت ایماندار مولوی صاحب کو ملازم مقرر کرلیا۔ وہ ساتھ ساتھ مولوی صاحب کو لقمے دیتا رہتا کہ وہ اپنے خطبوں میں سادھو کے خلاف بولا کریں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ سادھو نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اس کی دین میں کوئی گنجائش نہیں۔

لیکن مولوی صاحب ٹھہرے شریف آدمی، اور اسی شرافت کی بنا پر ملازمت کھو بیٹھے۔ غزنوی، مایوسی کا مارا، اب اس بات پر ایمان لے آیا تھا کہ سادھو کا جو بھی بندوبست کرنا ہے اس نے خود ہی کرنا ہے۔ لہٰذا وہ مسجد پر قابض ہو گیا، آذان سے نماز، نماز سے درس اور پھراس نے درس سے برسا برس علم میں لامتناہیت کا مقام حاصل کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے مقلدین بھی تیار کر لیے۔ غزنوی اور سادھو، دونوں بڑے ہی زبردست فنکار تھے۔ ایک عالمِ  فانی کا بِس دار اور دوسرا عالمِ ارواح کا حوالدار۔

اب تک دونوں نے کمال کے جُھنڈ بنا رکھے تھے۔ آمنے سامنے دو بستیاں تیار ہو چکی تھیں۔ سادھو کے بستی والے لاشعوری طور پر فراریت میں اک مقام حاصل کیے بیٹھے تھے، لیکن محیطِ شعور میں وہ اپنے آپ کو دین کا اصلی علم بردار جانتے تھے۔ دوسری طرف غزنوی کے بستی والے بھی مقابلتاً دین کا عَلَم لہرائے پھرتے تھے۔

جہاں کبھی صرف درخت سانس لیا کرتے تھے، اب وہاں انسانوں کا سانس لینا  بھی محال کر دیا گیا تھا۔ ترقی کا یہ عالم تھا کہ ٹانگوں کی جگہ گاڑیاں آگئیں، عمارتیں ایک منزل سے دوسری منزل اور دوسری سے تیسری تک پہنچ گئیں، ان گنت موٹرسائیکل مکھیوں کی طرح سڑکوں پر بھِن بھِن کرتے پھرتے، سب سے بڑھ  کر زمانے کی رفتار اتنی تیز ہوچکی تھی کہ لوگوں سے وقت قابو میں نہ آنے پا رہا تھا۔

دو گروہوں کے بیچ مجادلے کی فضا میں، کسی تیسرے کی مزید گنجائش نہ تھی۔ پر ایسے کہاں صاحب، تیسرے نے بھی بیچ میں چھلانگ تو لگانی تھی۔جب جنگل سے گاؤں اور گاؤں سے شہر بنا، تو جانوروں کے جانے سے اک خلا پیدا ہو گیا جسے انسانوں نے پُر کیا۔نیتا نے دیکھا کہ اک پورا شہر آباد ہو رہا ہے اور لوگ بے ترتیبی سے زندگی گزار رہے ہیں۔

نیتا نے شہر کے عَین درمیان جا کر، سادھو اور غزنوی کے بازو میں اک جگہ کرائے پر لی۔ اس کا پہلا مقصد ان دونوں کی طاقت کو زیر کرنا تھا۔سو اس نے جا کر دونوں سے دوستی لگائی اور سیاست کاری کے اصولوں کے مطابق دونوں کو علیحدہ علیحدہ محسوس کرایا کہ وہ ان سے بڑھ کر اور کسی کا مخلص نہیں۔ پہلے مرحلے میں کامیابی کے بعد اس نے دونوں میں مزید پھوٹ ڈالی اور آہستہ آہستہ لوگوں کو احساس دلایا کے ان کے دیے ہوئے نظام سے شہر نہیں چل پائے گا اور کوئی نیا سسٹم لانا ہو گا۔ پھر صاحب کیا ہونا تھا۔ بس نیتا تھا اور الیکشن تھے، اور اس کے بعد جمہوریت کے گھوڑے پر بیٹھ کر نیتا عوام کو کرتب دکھاتا اور عوام خوب لطف اندوز ہوتی۔

وقت گزرا اور گزرتا چلا گیا۔ اب وہ دور تھا جس میں شہر کے لوگ بُری طرح سادھو، غزنوی اور نیتا کے بگولے کی زد میں آ چکے تھے۔ ابھی بگولے نے اپنی گردش میں مزید زور پکڑا ہی تھا کہ اچانک اونچی سیٹی بجی اور آواز لگائی گئی “تمہارا وقت ختم ہوا جاتا ہے”، صاحب اپنی کرسی سے اٹھا، اور بُوٹے کے کاندھے پر تھپکی دے کر بولا, “میں یہ مشق کے لیے اک نئی گیم لایا تھا اور تم اس کو کھیلنے والے پہلے کھلاڑی ہو، مزا آگیا یار تمہاری مشق دیکھ کر، لاؤ یہ تینوں گوٹیاں میرے حوالے کر دو۔ اب میری باری ہے۔”