دہلی یونیورسٹی کا غیر درسی نظام

Izzah Moin
عزہ معین

دہلی یونیورسٹی کا غیر درسی نظام

از، عزہ معین

سنبھلی۔ ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی

یہاں مطلب دلی میں آپ نے بہت کچھ دیکھا ہوگا،دلی کو دہلی بنتے ہوئے دیکھنے والے بھی اکثر حیات ہیں ہزاروں واقعات آپ کی نظر اور سماعت کا حصہ بنے ہوں گے،آپ نےکبھی بہت خوش کن اور کبھی غم بھری شامیں یہاں گزاری ہوں گی، پارکوں کی بہاریں، نوجوانوں کے رومانس، یونیورسٹی کی جنریشن،لڑکے اور لڑکیوں کےمعاشرتی ماحول پر محمول قصے،اوباش قسم کی  زندگی اور کامیاب ہوتے بچے، والدین کا انتظار کے بعد ملنا، روٹھنا منانا، شادیاں اور طلاقیں،جامعہ کے مناظر،رات میں لائبریری کی رونق، جٹ کر محنت کرنے والے، کتابی طالب علم، چائے کے دیوانے طلباء کا اسٹال پر کھڑے ہوکر اچھے برے تجربات شئر کرنا ، جماعت میں بڑے بڑوں کو لاجواب کرنے کافن، گروپ کی شکل میں مشاعروں کا انعقاد اور شاعر کی اچھی سے  اچھی غزل کو ریجیکٹ کردینا، وہیں دہلی یونیورسٹی کا وسیع کیمپس، وہاں تک جانے لیے بٹلہ ہاؤس سے بس کا انتظار کرنا، ساتھ ہی میٹرو انجینئروں پر لعنت ملامت کرنا، یہاں رہائش پذیر طلباء کا یونیورسٹی جانے کے لیے مکمل پلان بنانا اور صبح ہونے تک کینسل کردینا، آگے بڑھنے کی لگن، ہمت و حوصلہ سے گھر اور گھر سے دور رہنے پر ہونے والی پریشانیوں سے جوجھنا، پی ایچ ڈی اسکالرز کاشادی کی فکر میں رات دن گھلنا، کیمپس میں ہونے والی گوسپ،وغیرہ وغیرہ وقتی طور پر مشکل واقعات ہیں لیکن دیکھا جائے تو زندگی کا اصل حسن انھیں میں ہے۔

زمانے گزر جائیں گے یہ باتیں وہی رہیں گی ہر صدی کے ہرعشرے میں اسی طرح یہاں یہ سب دہرایا جائیگا۔ نئے آنے والے طلباء ان سب باتوں کو اپنے لیے نیا سمجھ کردہرائیں گے اور پرانے ان سب کو دیکھ کر زیر لب مسکرا دیں گے۔انھیں اداروں سے کامیاب ہو کر درس و تدریس سے وابستہ ہو جانے والےاساتذہ ان عصری مظاہروں سے کبھی لطف اندوز ہو ں گے کبھی انھیں طالب علموں کے لیے قہار بن کر سزائیں دیں گے۔کتنا عجیب ہے نا طلب علم اپنا موازنہ نہیں کرتے لیکن ہر استاد کا ایک خاکہ اپنے ذہن میں بنا کر رکھتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر ہی استاد کی عزت کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اسی لیے ہر ایک کا ادب کرنے کا طریقہ بھی جدا جدا ہو تا ہے۔

اب ذرا دہلی کے غیر درسی نظام کی بات کرتے ہیں یہاں کا ماحول بہت ہی صبر آزما ہے یہاں پر لوگ اپنے کام کے لیے کس قدر ظلم سہہ رہے ہیں یہ یہ ناقابل بیان حقیقت ہے جس کی عکاسی کرنے کی ایک معمولی سی کوشش میرے قلم کے ذریعہ آپ تک پہنچ رہی ہے۔ گھر کی جنت سے نکل کر ذاتی خواہش یا حسبِ ضرورت راستوں پر چلنے کے لیے اپنی طبیعتوں کو راغب کرنا آج مسلم نوجوانوں کا عبادت کے لیے نکلنے کے مترادف ہو گیاہے۔ اب تک لوگ  مسجد کے نام سے خار کھاتے تھے لیکن اب راستوں کی دھول اور رش انھیں گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے کے لیے مجبور کر رہی ہے۔

حالانکہ ہمارے حکام نے لوگوں کی سہولت کے مطابق سڑکوں کے نظام کو بہت ذہن سوزی اور ماہر انجینئروں کی مدد سے آرام اور پر سکون کر نے کی ایک حد تک کوشش کی ہے لیکن کیا کیا جا سکتا ہے ہمارے ملک میں نظام اور حکومت کو کوسنے والے افراد کی تعداد بحر بیکراں ہے اور خود کو سنوارنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی طرف غور وفکر کرنے کی ضرورت محسوس کرنے والے ناپید۔ ہمارے ہندوستانی بھائی غیر ممالک میں صفائی کا نظام ،قوانین کی احتیاط اور لوگوں کی روزگار سے مزین زندگی دیکھ کر رشک کرتے ہیں اپنے ملک میں بدانتظامی کی شکایتوں کا انبار ان کے سینوں میں جوار بھاٹا دہکائے رکھتاہے اور ملکی سطح کو ،اس کی عظمت کواسکی شکایتوں کے ذریعہ پامال کرنے کے لیے ہر دم سر گرداں رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک واقعہ سامنے آیا جو نہ صرف بے حد حیرت انگیز تھا بلکہ عوام و خواص کے لیے باعثِ شرم بھی ثابت ہوا۔

ملک کے ذمہ دار عہدے پر فائز ایک معتبرہستی نے حب الوطنی کے نعرے کو فراموش کرکے جب ایک غیر ملکی حاکم سے ہندستان کی وہ خامیاں بیان کیں جو دراصل اس میں ہیں ہی نہیں اگر کسی خطہ میں نظر آرہی ہیں تو سراسر ہمارے والدِ قول کی ہی وجہ سے، انھیں دور کرنے کے بجائے اس کا برسرعام ذکر کرنا کہاں کی دانش مندی اور حب الوطنی ہے ؟ ہمارے راستوں کے درمیان میں کچرے کے ڈھیر ہیں، لوگ بے روزگار ہیں یا پھر ہر طرف جام کی پریشانی ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ غیر مملکت سے موازنہ کرتے ہوئے سراسر مبتذل نظریہ حاوی کر لیا جائے۔

اگر ہم اپنے ضروری فرائض کی ادائیگی کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں نرم نرم آوازوں کی جگہ کرکش آوازیں سماعت کے مخملی پردوں کو چیرتی ہوئی ذہن کے پر سکون گوشوں میں زلزلے کے امکانات کی وضاحت کرتی محسوس ہوتی ہیں اس میں جہاں تک میں سمجھتی ہوں ہماری اپنی غلطی ستر فج صد سے زائد ہے جس کو سدھارنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں۔ اس ستر فی صد میں سے اگر ہم پچیس فی صد کو اپنے کنٹرول میں کرلیں تومیں  دعوے سے کہہ سکتی ہوں حکومت کے لیے ہم کو شکایت ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ اب ذرا غور کیجیے راستوں پر چلنے کے لیے ہم کس طرح کا رویہ روا رکھتے ہیں؟ کہیں دور کیوں جائیں یہیں اپنے بٹلہ ہاؤس میں دیکھ لیجیے۔ کوڑے دان بنانے کے لیے گورمنٹ نے جو جگہ منتخب کی ہے کیا کسی طور مناسب کہی جا سکتی ہے بالکل بازار کے درمیان میں کوڑے کا ڈھیر کیا ظاہر کرتا ہے اس کے جراثیم یہاں کے دوکان داروں اور راہگیروں کی صحت پر کیا اثر ڈالیں گے کبھی غور کیا ہے؟

 اسی وجہ سے گزرنے والے افراد بھی لاپرئی برتتے ہیں اور جہاں تہاں کچرے کو پھینکنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ خوردو نوش کی اشیاء کے خوبصورت ریپر ادھر ادھر پھینکنا آج ہر ایک کا محبوب مشغلہ ہے۔ ہزاروں کوڑے دان بنے ہونے کے باوجود سب اسی روش پر اپنا راستہ سجانے کو بے قرار رہتے ہیں۔اپنی ٹم ٹم  پر سوار لوگ تو اور سونے پہ سہاگہ ہیں ۔بائک پرگزرنے والوں کو آپ خود دیکھ لیجیے انھیں آپ زبان کے ذریعہ متعارف نہیں کر سکتے۔جب یہ اپنی رہائش سے نکلتے ہیں تو آپ دیکھیں گے۔۔  کسی کو کسی کی سمع مبارک کا پاس نہیں۔ لوگوں کو بالخصوص مسلم نوجوانوں کو اپنے نام و نمائش میں منمہک دیکھ کر کبھی کبھی کف افسوس بھی ایک دوسرے سے گلے ملنے کو انکار کر دیتے ہیں۔

ہم تو پھر بھی قوت برداشت میں ان رش بھرے راستوں پر نکلنے قابل ہیں ذرا ان بزرگوں کو دیکھیے جن کے خون جگر سے سینچے گئے جوان ہو چکے اشجار انھیں چھوڑ کر کسی اور دنیاں میں مگن ہو گئے ہیں اور یہ بے چارے تنھا زندگی کا سفر طے کرنے کو مجبور ہیں اپنی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے لیے باہر نکلنا بھی ان کے لیے ضروری ہے کیوں کہ وہ شجر کے جس کا سایہ انھیں درکار تھا اپنے پھل ہر مہینہ ٹوکروں کے حساب سے ان کو پہنچا دیتے ہیں اور یہ ان روپیوں سے اپنی حوائج ومًعمولات پورا کرنے کے لیے رات دن بحالت مجبوری بازاروں کی خاک چھاننے کو نکل جاتے ہیں۔

گھر سے نکلنا اس عمر میں جتنا دشوار ہے اس سے کہیں زیادہ سواریوں میں لگے ہارن انھیں اپنی کرکش آوازوں سے بیمار کر دیتے ہیں۔ یہ ہمارے دور کا المیہ ہے۔اس کی سب سے بری اور بڑی مثال ہے دلی کا “بٹلہ ہاؤس چوک  ” میں کہوں گی کہ یہ کم از کم رہنے کی جگہ تو بالکل نہیں ہے۔ کیسی گھنی آبادی، کتنا شور، ہر طرف گھر، اوپر ،نیچے، دائیں، بائیں، درمیان۔ نہ راستہ نہ گلی صرف حجوم، ہر طرف لوگ، ہر دکان، ہر مکان، ہر میدان میں مجمع  الغرض کہیں سکون نہیں ہے۔   چھوٹے چھوٹے گھر،  پرندوں کے لیے بنے گھروں کی طرح، جنہیں اصطلاحاً فلیٹ کہا جاتا ہے اس میں رہنا تو درکنار جھانکنے کے لیے ایک کوئنٹل کوئنٹل سمجھتے ہیں نا آپ؟

اچھا چلیے ایسا کہ لیجیے سیروں ہمت درکار ہے۔ زمین کے کم سے کم اسکوائر میں زیادہ سے زیادہ لوگ مثلا جگہ ہے پچیس گز اس میں دو روم بنے ہیں ان کے اوپر پانچ منزل تعمیر کی گئی ہے ان ساری منازل میں دو دو کمرے ہر کمرے میں کم از کم تین تین افراد اور پورے بٹلہ ہاؤس میں اسی طرز پر بنے ہزاروں ۔۔اونھھ ۔۔کروڑوں گھر۔ قابل غور ہے کیسا گھنا گھچ بھرا ہوا علاقہ ہے لیکن کو ئی بھی کسی دوسرے سے واقف نہیں ایک روم کے فرد کو دوسرے روم والے سے کو ئی تعلق نہیں  یہ دوسری بات ہے کہ کبھی بحالت مجبوری  ایک دوسرے سے ایک آدھ بات کر لی جائے اس کے غم کو ایک دو منٹ کا وقت دے دیا جائے لیکن وہ بھی اسی صورت میں جب اپنا وقت کاٹنے کے لیے کو ئی دوسرا ذریعہ موجود نہ ہو۔

ہاں یہاں ایک خصوصیت جو بہت متاثر کن ہے اور جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا وہ ہے جس کا شاید ہی کہیں اور کسی شہر میں وجود  ممکن ہے وہ ہے ہر شخص کا ایک بہت ہی جگری دوست ہو تا ہے وہ صرف دوست اور ایسی دوستی کہ دنیا میں کم از کم میں نےتو کہیں ایسی مثال پائی نہیں نہ ہی دیکھی۔ آپ یہاں کسی فلم کی مثال نہیں دے سکتے کیوں کہ کوئی بھی فلم ایسی دوستی دکھانے میں اب تک ناکام رہی ہے آپ کو توجہ دلا دوں کہ فلمی دوستی کو سامنے رکھیں تو ذرا سا ذہن کو ہلا ڈلا کر دیکھ لیں کہ کیا کسی بھی فلم میں مکمل دوستی دیکھی ہے؟

ہر ایک میں دوستی کے درمیاں دراڑ ضرور دیکھی ہو گی ۔فلم کی شروعات تو بڑی گہری دوستی سے ہوتی ہے لیکن فلم کے درمیان ہی اس میں ایک ایسی دراڑ پڑ جاتی ہے جو فلم کےانجام میں مددگار ثابت ہو تی ہے۔ وہ درمیانی رنجش آخر تک ختم نہیں ہوتی۔لیکن آپ دلی کی دوستی دیکھیں ذرا جس سے نبھ گئی سو ایسی نبھی کی پھر تو ڑے سے نہ ٹوٹے۔ نہیں تو کسی سے بنتی ہی کہاں ہے۔ کو ئی کسی کو نظر اٹھا کے بھی نہیں دیکھتا۔ تو یہ ہے وہ دلی جس کے لیے لوگ مرے جا رہے ہیں اک کہاوت ہے “دلی دور نہیں ” اسے سب سے پہلے سیاسی طور پر استعمال کیا گیا تھا اگر میری معلومات سہی ہے تو  لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ نوجوانوں میں جوش و جذبہ بھرنے کے کے لیے اکثر و بیشتر لوگوں کی زبان سے سنائی دینے لگی۔

مجھے اکثر اس کو سن کر عجیب سی امید نظر آتی تھی کہ دلی۔۔۔۔۔۔ ہاں دلی ۔۔جو کہ اب دہلی کہلائی جانے لگی ہے شاید وہاں رہنا بہت قسمت والوں کے لیے ممکن ہے شاید ایک ایسا رونق و روشنی سے مزین خطہ ہے جہاں لوگ ہر وقت مصروف رہتے ہیں انھیں ہر چیز منتخب کی ہوئی پہنچتی ہے۔ ہوتا ہے نا جب پھل اور سبزیاں کھیتوں پر بوریوں میں بھری جاتی ہیں تو لوگ کہتے ہیں یہ دلی جانے والی بوریاں ہیں اس میں کوئی بھی کمزور حالت کی قسم رکھنے سے گریز کیا جائے یہ بوریاں بہت صاف ستھری اور خوش شکل اقسام کے پھل میووں وغیرہ سے بھری جاتی ہیں۔

مثلا ً آلو ہی بالکل بے داغ رکھے جاتے ہیں بڑے سائز کے ہو تے ہیں اس پر ایک پرت پیلی مٹی کی اسے مزید رونق بخشنے کے لیے چڑھائی جاتی ہے۔وغیرہ وغیرہ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دلی کا جو ہیولا دہلی کے باہر یعنی پورے ملک میں بنایا گیا ہے وہ بے حد مبالغہ آمیز ہے۔۔۔ہمم یہ صحیح ہے کہ یہاں بجلی، پانی اور دیگر ضروریات ہر وقت ہر جگہ مہیا کی گئی ہیں ،بسوں کا انتظام بہت بہتر ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ جس نمبر کی بس کا انتظار کیجیے اس بس کے نہ آنے کے یقین کے ساتھ کیجیے گا۔ کیوں کہ اس نمبر کی تمام بسیں اپوذٹ ڈائریکشن سے آتی ہوئی نظر آئیں گی لیکن آپ کے سائڈ میں بس نہیں آنی ہے اور نہیں آئے گی۔

اگر آپ اولا کیب یا پھر اوبر سے کہیں باہر نکلنے کا پلان کرتے ہیں تو سب سے پہلے تو ان کا کرایہ ہی اتنا زیادہ ہے کہ اگر کسی گاوں سے آپ آئے ہیں تو افکورس آپ اس کرائے کو افورڈ نہیں کرسکتے پھر آپ کے پاس چاہے جتنا بھی سرمایہ ہو دھیرے دھیرے سب ختم ہی ہو جائیگا۔ دوسرا طریقہ آپ کے پاس ہے میٹرو سو میٹرو کو بھی سن لیجیے جتنا آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے خرچ کرنے کا پلان بنا کر گئے ہیں اتنا آپ صرف میٹرو تک پہنچنے کے لیے آٹو سروس کو دیں گے مزید ملاحظہ فرمائیے اس کے بعد آپ کو میٹرو کا کرایہ دینا ہو گا جو حال ہی میں ہمارے ہر دل عزیز دنیاں میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے وزیرِاعلی کے رحم و کرم کے طفیل   GST لگ جانے کی وجہ سے اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ عام آدمی اسے برداشت نہیں کرسکتا۔

اب اگر کسی کو اتنا خرچ ہی کرنا ہے تو کیوں جابہ جا دھکے کھانے کے لیے اس الیکٹرک ودیشی محبوبہ کے در پہ جائیگا کیوں نہ اپنے لیے ایک عزیز از جان کا انتخاب کرلے اور اسی  کے  نازنخروں سے لطف اندوز ہو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک عدد مرسڈیز لے آئے اور شان سے راستوں پر شور مچاتا دندناتا ہوا لڑکیوں کو مسخر کرتا ہوا گزرتا چلا جائے ویسے بھی دہلی کی لڑکیاں سنا ہے کار والوں کے ساتھ پارٹیاں، ڈیٹنگ وغیرہ خوب ارینج کرتی ہیں۔ جیسی یہاں پر یہ دوشیزائیں نظر آتی ہیں نا دراصل اندر سے یہ اور بھی زیادہ نرم دل ہو تی ہیں۔ ارے بھئی اب دہلی جیسی جگہ پر رہ کر بھی ان کو جینے کی آزادی نہیں دوگے تو کیا جھنم میں ہی ان کا ٹھکانا بنوانے کا ارداہ ہے۔ خبردار یہ ساری گفتگو ہر لڑکی پر نافذ نہیں ہو تی اگر نافہمی کا ثبوت دیا تو اپنے کرئر اور اپنی صحت و سلامتی کے  ذمہ دار آپ خود ہیں۔

اس کے علاوہ آپ یہاں ایک اہم چیز اور دیکھیں گے وہ ہے دعوت کی دیوانگی ہاں اس میں آپ ہر چھوٹے بڑے کو پھر چاہے وہ طالب علم ہو یا استاد، تاجرہو یا خریدار،دوست ہو اجنبی، سرمایہ دار یا مزدورالغرض آپ سبھی کو منتظر پائیں گے کہ کوئی ان کی دعوت کرے اور وہ روکھے پھیکے کھانوں سے کم از کم ایک وقت کی نجات حاصل کر لیں۔ اس کی ایک عمدہ مثال آپ اسکالرز میں دیکھیں گے وہاں ہوتا یہ ہے کہ اسکالرز ہمہ وقت اس جستجو میں رہتے ہیں کہ کہیں سے کسی سیمنار کی اطلاع  ملے اور وہ پہنچ جائیں اپنا ذخیرہ شکم بڑھانے نہ کہ ذخیرہ ذہن کے لیے۔ اس بات سے  انحراف کرنے کے لیے آپ صرف ایک یا دو طلباء کا حوالہ نہیں دے سکتے جو اپنی جھوٹی شان و شوکت کی نمائش میں سرگرداں اپنے دل کی آواز سے انحراف کرتے ہیں اور پوری طرح آمادہ ہونے کے باوجود اپنی خواہش کو قتل کر نے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

دل سے اپنے جاننے والوں کو بددعائیں دیتے ہیں کہ کاش میں تنھا ہوتا کاش مجھے کو ئی نہ جانتا تو میں بھی آج اپنے منھ کا ذائقہ تبدیل کر سکتا۔ ایسے لوگ قابل رحم ہوتے ہیں ان کا آپ کوئی علاج نہیں کرسکتے یہ صرف اس صورت میں ضرور فیض یاب ہو سکتے ہیں کہ ان کو ایک ایسا کوئی ساتھی مل جائے جو ان کی نہ چلنے دے اور انھیں زبردستی کھہنچ کرمقام ِ دعوت تک لے جائے۔ پھر ہفتوں ان کے دل کے نہاں خانوں سے اس کے لیے دعائیں نکلتی رہیں گی۔کچھ بے باک قسم کے بھی ہوتے ہیں انھیں اپنی شان و شوکت اپنے طریقہ سے پسند ہوتی ہے وہ کہنے میں اور کرنے میں کوئی شرم وعار محسوس نہیں کرتے۔ اور بھی ہم دلی، یہاں کے رہنے والے، طلباء اور ان کی اقسام کا ایک مکمل مضمون تیار کر سکتے ہیں لیکن اب اس مضمون کو ختم ہو جانا چاہیے۔

تو بھئی یہ ہے دہلی کی وہ تصویر جو ان تین مہینوں میں یہاں کا مشاہدہ کرنے کے دوران ہمیں نظر آئی۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کسی بھی چیز یا کسی بھی فرد کی خوبصورتی دیکھنے والے کی نظر اور حالات پر مرکوز ہے تو اب اگر کسی دلی والے کو یہ تمام ناگوار گزرے تو ہماری نظر اور موجودہ حالات کو ذمہ دار سمجھیں ہم اس میں مکمل بے قصور ہیں۔ ارے ہاں ایک اور بات وہ یہ کہ ابھی اس مضمون کی ایک قسط اگلے تین مہینوں میں اور لکھنے کا ارادہ ہے اگر کہیں کمی رہے تو شکایت ضرور کیجیےگا۔ دہلی جو بھی ہے لیکن دہلی اتنی بھی اہم نہیں ہے جتنا اس کو تصور کیا جاتا ہے۔اورا تنی بھی بے جا نہیں ہے جتنا اس کو نئے آنے والے پریشان ہو کر ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ یہ کسی نئے کو اپناتی نہیں اور اگر کسی کو بھا جائے تو جانے بھی نہیں دیتی۔