متبادل طرز ہائے حکومت

Naseer Ahmed
نصیر احمد

متبادل طرز ہائے حکومت

از، نصیر احمد

فضا میں اک بارشی دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اور سردی بھی کچھ بڑھی ہوئی تھی اور سوئی جیسے پتوں پر ٹھہری ہوئی بوندیں بہت بھلی لگ رہی تھیں لیکن جلی ہوئی گھاس ماحول میں کچھ بے کیفی اور بے لطفی کا باعث بنی ہوئی تھی۔

جلی ہوئی گھاس نے ہماری پوری دنیا میں سعودی طرز کی ایک بادشاہی کے نتائج کی طرف رہنمائی کر دی۔ سعودی عرب میں تقریبا اسی نوے سال سے یہ بادشاہی دولت سے کھیل رہی ہے۔ اور دولت کے ذریعے پوری دنیا میں اس بادشاہی کا ایک اثر رسوخ بھی ہے۔ جدید سے جدید تر اشیا کی فراوانی بھی ہے۔ لوگ بھی پیسوں کے حوالے سے دنیا کے بہت سارے لوگوں سے بہتر حالت میں ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب میں دس، بیس، پچاس، سو، ہزار کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی بین الاقوامی یونیورسٹی، بین الاقوامی عدالت یا کسی بھی عالمی فورم میں دھونس، دھاندلی، رشوت اور فراڈ کے بغیر اپنے نظام حکومت کا ایسا دفاع کر سکیں جو سعودی بادشاہی کو خلاقی، ایجاد و دریافت، انسانی حقوق، فکری آزادی اور مصنوعات سازی کے حوالے سے ایک روشن مثال ثابت کر سکے؟

اور اگر یہ بادشاہی پوری دنیا میں رائج ہو جائے تو تخلیق کاری، ایجاد، دریافت، فکری آزادی اور مصنوعات سازی کا کیا مستقبل ہو گا؟

اسی طرح ایران بھی ہے، وہاں چرب زبانی اور شیریں گفتاری اور غنائیت تو مل جائیں گے مگر ان کا طرز حکومت بھی اگر پوری دنیا میں رائج ہو جائے تو خلاقی، ایجاد، دریافت، فکری آزادی اور مصنوعات سازی کا ایک روشن مستقبل اس طرز حکومت میں دیکھنے کے لیے بہت ساری متبادل سچائیوں کے ارد گرد جھومر ،لڈی، سمی اور بھڑتھو جیسے ناچ ناچنے پڑیں گے۔

ادھر چین بھی ایک متبادل سچائی کا دعوے دار ہے اور چین کے مقدمہ کافی مضبوط بھی ہے لیکن چین خلاقی، ایجاد، دریافت، فکری آزادی اور مصنوعات سازی اور انسانی حقوق کے اس مقام پر نہیں پہنچا کہ چین کا طرز حکومت رائج کر کے ان اوصاف کا تحفظ کیا جا سکے۔ دنیا کی بہترین دانش گاہوں میں ابھی چینی دانش گاہیں نمایاں نہیں ہوئیں اور دنیا کی بہترین حکومتوں میں ابھی تک چین کا نام نہیں آیا۔

اور اگر چین کا طرز حکومت دنیا میں رائج ہو بھی جائے تب بھی تخلیق کاری، ایجاد، دریافت، انسانی حقوق، فکری آزادی اور مصنوعات سازی کا معیار دنیا میں پست ہو جائے گا۔ وہی نقالی کا مسئلہ، جب تخلیق کار موجود نہ رہیں گے تو نقالی کس کی کی جائے؟ اور جس کے نتیجے میں پہلے جمود اور اس کے بعد مسلسل سقوط۔

اسی طرح فاشزم بھی اگر پوری دنیا میں رائج ہو جائے تو بھی انسانیت کےجن اوصاف کا ہم ذکر کر رہے ہیں، ان سے بے وصف ہو جائے گی۔ موجودہ دور میں ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے انسانیت کے فاشزم کے تحت خاتمے کا زیادہ امکانات ہیں اوراگر انسانیت مکمل خاتمے سے بچ بھی جائے تو ایک تاریک زمانے کا آغاز ہو جائے گا۔

اس سب کی وجہ یہ ہے کہ دانائی کو چند افراد تک محدود نہیں کیا جا سکتا اور کسی

علمی، عقلی اور سائنسی شہادت کی عدم موجودی میں طاقت کے ذریعے، رضا کے بغیر دانائی مسلط تو کی جا سکتی ہے لیکن اس سے خلاقی، ایجاد، دریافت، فکری آزادی اور مصنوعات سازی اور بہتر معیار زندگی کے معیاری نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ جب بھی کبھی ان خوبیوں سے متصف کوئی گروہ نمودار ہو گا تو اس سے مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا۔ اور ان خوبیوں کے خاتمے کو ہی تاریک زمانہ کہا جاتا ہے۔

یونان قدیم میں ایتھنز، سپارٹا سے جنگ ہارنا شروع ہوا تو افلاطون کو اس ہار کے اسباب ایتھنز کی جمہوریت میں نظر آئے کہ جمہوریت کا یہ قدیم مسئلہ ہے کہ وہ شہرہ پسندی یا پاپولزم کا شکار ہو سکتی ہے۔ افلاطون نے عوام کو اوچھے، شہدے اور سفلے قرار دے کر کائنات کی ترتیب سیدھی کرنے کے زعم میں مبتلا فلسفیوں کی حکومت کا پرچار شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں یونان قدیم سے جمہوریت کا خاتمہ ہو گیا داناؤں کی بادشاہت تو قائم ہو گئی لیکن خلاقی، ایجاد، دریافت، فکری آزادی اور مصنوعات سازی کے معیار پست ہو گئے۔

اور یونان قدیم روم کی یلغار نہ سہہ سکا۔ رومیوں نے بھی کچھ عرصے بعد افلاطون کے خیالات کے زیر اثر بادشاہی کا رستہ اختیار کیا۔ ادھر عیسائیت بھی رومیوں کی حکومت کے دوران افلاطونی فلسفے سے قریب ہو گئی اور سیزر عیسائی ہونے لگے۔

مذہب اور افلاطونی فلسفے کا کچھ ایسا تال میل ہوا کہ یورپ میں ایک تاریک زمانے کا آغاز ہوا جو یورپ میں صدیوں پھیلا رہا۔ خلاقی، ایجاد، دریافت، فکری آزادی اور مصنوعات سازی المامون جیسے خلفا کے دربار میں متنقل ہو گئی لیکن طرز حکومت کی وجہ سے خلاقی، ایجاد، دریافت، فکری آزادی اور مصنوعات سازی کا خلافت میں کسی بڑے پیمانے پر رواج نہ ہو سکا۔ اور کچھ ہی عرصے بعد دین اور روایات کے تحفظ کے نام پر ان اوصاف کو فلسفے اور سائنس سے جدا کر کے شعر و نغمہ و زاویہ تک محدود کر دیا گیا۔

لیکن سپین میں شمعیں روشن رہیں اور مغرب میں احیائے علوم کی مختلف تحریکوں کو روشن کرتی رہیں جن کے اثرات آپ کو میکیاولی، بیکن، لاک، روجر بیکن، کوپرنیکس جیسے سائنسدانوں اور فلسفیوں میں دکھائی دیتے ہیں۔

پھر یورپ اور امریکہ میں خلاقی، ایجاد، دریافت، فکری آزادی اور مصنوعات سازی کا ایک سفر شروع ہوا جس کو ایک طرز حکومت یعنی جمہوریت سے سہارا دیا گیا۔جب خلاقی، ایجاد، دریافت، فکری آزادی کو جمہوریت اور جمہوری حقوق کا سہارا ملا تو دنیا تیزی سے بدلنے لگی۔ یہ حقوق صرف مغربی اقوام تک ہی محدود رہے اور وہاں پر بھی رئیسوں اور امیروں تک ہی یہ حقوق دو تین صدیوں تک محدود رہے ۔اور جو لوگ ان حقوق تک رسائی نہ کر سکے افلاطون کے فلسفے کا سہارا لیا اور کاملیت پرستی کی راہ اختیار کر لی۔

بیسویں صدی میں کاملیت پرستی اور جمہوریوں کی حماقتوں کے نتیجے میں بہت ساری تباہی و بربادی ہوئی جس کا حل جمہوریت میں شمولیت میں اضافے میں ڈھونڈا گیا۔اور اس شمولیت کے زیر اثر خلاقی، ایجاد، دریافت، فکری آزادی اور جموری حقوق کے معیار بہتر ہوتے چلے گئے۔

یہ ایک طویل اور پیچیدہ داستان ہے لیکن جمہوری نظام حکومت کا خلاقی، ایجاد، دریافت، فکری آزادی ، معیار زندگی ، انسانی حقوق اور مسائل کے حل سے ایک گہرا تعلق ہے۔ اگر جمہوریت پسپا پوتی ہے یہ اہم انسانی اوصاف بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اور اگر جمہوریت کی ترقی ہوتی ہے تو ان اوصاف میں بھی بہتری آ جاتی ہے۔ اور ان اوصاف کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ فرد کو اہمیت دی جائے، فرد کے حقوق کا احترام کیا جائے اور فرد کو اپنے فرائض سے متعلق اچھی تربیت دی جائے۔ اور فرد کی تعلیم سائنسی بنیادوں پر کی جائے۔

اور اگر دانائی کے نام پر فرد کی تحقیر کی جائے گی تو یہ گلشن اجاڑنے کے مترادف ہی ہے۔ اگر فرد کی تحقیر پر نظام حکومت استوار کیا جائے گا تو آپ کو بہت سارے آمر اور نقال ہی ملیں گے جو چند سالوں کے بعد صرف آمر رہ جائیں گے کہ آمریت نقل کے لیے بھی جو عقل درکار ہوتی ہے، اس کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے۔