سولہ دسمبر: خود احتسابی سے آنکھ چُرائیے، خود تَرحمی کی مارکیٹ لگائیے

Khizer Hayat
خضرحیات

سولہ دسمبر: خود احتسابی سے آنکھ چُرائیے، خود تَرحمی  کی مارکیٹ لگائیے

از، خضرحیات

تین سال پہلے تک ہمارے ملک میں جب 16 دسمبر آتا تھا تو یہ لازمی ہوتا کہ اپنے ساتھ 1971ء کی ناخوشگوار یادیں بھی لے کر آتا اور چونکہ یہ یادیں کچھ بہت زیادہ خوشگوار نہیں تھیں لہٰذا ہر سال ہی غم و غصے، افسوس، ندامت، شرمندگی اور سُبکی کے ملے جلے جذبات اس روز کم و بیش ہر دردمند پاکستانی دل میں اُمڈ آتے تھے۔ 16 دسمبر کے ساتھ 1971ء کا لاحقہ اور سُبکی کا استعارہ ایسے چپک چکے تھے جیسے یہ تینوں ہمیشہ سے ہی اکٹھے رہے ہوں۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے 1971ء کے واقعے پر اردگرد کے لوگوں کو افسوس کرنے سے زیادہ شرمندہ ہوتے دیکھا ہے اور ہمیں جب تھوڑی بہت معاملات کی سمجھ آنے لگی تو اس شرمندگی کی بازگشت ہمارے بھی پیچھے پڑگئی۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم ابھی اتنے پختہ ذہن نہیں ہوئے تھے کہ خود سے سوچنا شروع کردیں لہٰذا ہمیں اب تک اس دن کے حوالے سے محض آدھی کہانی ہی پتہ چل سکی تھی اور ہم اس آدھی کہانی پہ ہی پورا یقین کرکے کفِ افسوس ملنے کی بجائے کفِ شرمندگی مَلنے والوں میں شامل ہو گئے تھے۔ ہم بھی اپنے اردگرد کے باقی لوگوں کی طرح اس دن اپنا کچرہ ایک مرتبہ پھر دیوار کے پار پھینکنے پر کاربند تھے اور بھارت کو باجماعت گالیاں دے کر سمجھتے تھے کہ اپنا فرض پورا کر لیا۔

ابھی تک ہمیں یہ کسی نے واضح طور پر نہیں بتایا تھا کہ اندرونی طور پر ہم سے کیا کچھ غلط ہوا اور ہم نے بنگالیوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھا تھا۔ نصابی کتابوں میں تو اس سے متعلق بہت ہی محدود مواد ملتا تھا، اساتذہ بھی آدھی بات بتاتے تھے، ذرائع ابلاغ تو تھے ہی حکومت کے زیرِ دست، اور پھر ہمارے اردگرد پڑھے لکھے لوگوں کی بھی شدید کمی تھی۔

اس تناظر میں عالمِ شباب تک پہنچنے تک تمام ذرائع سے جو معلومات ہم تک پہنچ سکی تھیں یا وہ تمام اساطیر جو زبان زدِ عام (خاصوں کا ہمیں نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا سوچتے ہیں) تھیں ان کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں:

1) بنگالی شروع سے ہی پاکستان مخالف تھے اور یہ مخالفت شیخ مجیب الرحمٰن نامی ایک شخص کے دل میں 1947ء میں ہی پیدا ہو چکی تھی۔

2) بنگالی لوگ ثقافتی طور پر ہمارے جیسے نہیں تھے، وہ پاکستانی کم اور بھارتی زیادہ لگتے تھے اس  لیے وہ ہماری وحدت کا حصہ نہیں رہ سکے۔

3) بھارت کی بے جا مداخلت کی وجہ سے بنگالیوں کو شہ ملی اور انہوں نے کھل کھلا کے پاکستانی فوج، پاکستانی جھنڈے، پاکستانی ترانے، پاکستانی زبان اور پاکستانی سرحد کی مخالفت شروع کر دی تھی۔

4) بنگالیوں کی ان گستاخیوں کا منہ توڑ جواب دینے کے علاوہ پاکستان کے پاس دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس  لیے ہم (یعنی مغربی پاکستان) نے بنگالیوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کیا۔

5) ہماری فوج اکیلی نہیں تھی، جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیمیں البدر اور الشمس بھی مشرقی پاکستان میں فوج کے شانہ بشانہ تھیں۔

6) گستاخ بنگالیوں کو ہم نے بہت اچھا سبق سکھا دینا تھا مگر بھارت نے گڑبڑ کر دی۔ اندرا گاندھی بہت چالاک نکلی اور اس نے بنگالیوں کی پشت پناہی کے ساتھ ساتھ لاجسٹک سپورٹ بھی شروع کر دی۔

7) یحییٰ خان ایک شرابی جرنیل تھا جس کی وجہ سے ہم بھارت سے جنگ ہار گئے اور بنگالی ہم سے الگ ہوگئے۔

8) اچھا ہی ہوگیا کہ الگ ہو گئے، وہ ہمارے مزاج کے تھے ہی نہیں۔ بہت نیچ اور گھٹیا سے تھے۔

9) بھارت نے ہمارے 94 ہزار فوجی قیدی بنا  لیے تھے جنہیں بعد میں ذوالفقارعلی بھٹو نے اندرا گاندھی کے ساتھ مذاکرات کرکے بازیاب کروایا تھا۔

10) اور اندرا گاندھی کا یہ بیان کہ ‘آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے’ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت بنگالیوں کے ساتھ مِلا ہوا تھا۔

وغیرہ وغیرہ

مگر بعد میں جب اپنے گریبان میں بھی جھانکنے کی توفیق اور حوصلہ ہوا تو شدید دکھ ہوا۔ ندامت دو چند ہو گئی اور بھارت کے ساتھ ساتھ اپنوں کے کرم بھی قابلِ شرم محسوس ہونے لگے۔ جب ادھر ادھر سے چیزیں ہاتھ آئیں، فلمیں دیکھیں، کتابیں پڑھیں، حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کے بارے میں سنا اور پڑھا تو شدید صدمہ ہوا۔ سیاستوں کے چکر میں ایک پوری قوم استحصال کا شکار ہوتی رہی، ان کی زبان کو نظرانداز کیا گیا، ان کے کلچر کو پرایا سمجھا گیا، انہیں ملیچھ سمجھ کر جھٹکا گیا، ان سے محنت تو کروائی گئی مگر اس کی کمائی کہیں راستے میں ہی گم ہو کر رہ گئی، کبھی اصل حق داروں تک نہ پہنچنے پائی۔ اور پھر اس داستان کا سب سے ذلت آمیز اور ہوش رُبا حصہ تو وہ تھا جس میں ہم نے بنگالی عورتوں کے ساتھ جنونیت کا کھلواڑ کیا۔

مردوں کا شروع سے یہی مسئلہ رہا ہے کہ اپنی لڑائی کا بدلہ چکانے کے لیے وہ ظلم عورتوں پر کرتے ہیں۔ کسی مرد کا انتقام عورت سے کیوں لیا جاتا ہے اس بات کی سمجھ نہیں آتی۔ ہم نے ایک طرف بنگالی صحافیوں، دانشوروں، لکھاریوں اور فنکاروں کو پکڑ پکڑ کے گولیاں ماریں تو دوسری طرف ان کی عورتوں کی عِصمت دری کی۔ مردوں کو اگر مردوں سے انتقام لینا ہے تو وہ مردوں کا ہی ریپ کیوں نہیں کرتے، عورتیں خواہ مخواہ کیوں چکّی کے اس پاٹ میں آ جاتی ہیں؟ شروع دن سے ہی بربریت کے کھیل میں عورتیں ہی کیوں سافٹ ٹارگٹ سمجھی جاتی ہیں؟

جب تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر سے گزرا تو اس دن سے یوں ہونے لگا کہ اس دن کی یاد آتے ہی دُکھوں کا ایک سیلاب تھا جو سینے سے اٹھنے لگتا اور آنکھوں سے بہتا چلا جاتا اور یہ کیفیت آج تک جاری و ساری ہے۔ بنگالیوں کا یہی قصور تھا کہ پہلے انہوں نے اپنی زبان مانگی تھی، پھر کلچر کے لیے وڈّے صاحب (مغربی پاکستان) کی مہربان نظر کی اپیل کی تھی، پھر انہوں نے اپنے معاشی استحصال میں ذرا نرمی برتنے کی مانگ کی تھی، پھر انہوں نے ووٹ کے ذریعے اپنی ہی ایک جماعت پر اعتماد کرتے ہوئے اپنا خود کا ایک نمائندہ چنا تھا جس کے بارے میں انہیں لگتا تھا کہ یہ اُن ہی میں سے ہے اور ان کا احساس کرے گا۔

24 سال میں انہوں نے یہ چند بڑی بڑی گستاخیاں کی تھیں اور ہم نے ان کی ہر گستاخی کو شیر کی آنکھ سے دیکھا تھا۔ یہ گستاخی جو شروع میں محض ایک ورم جتنی تھی بعد میں کینسر بنتی چلی گئی اور حالت یہ ہو گئی کہ بنگال کے لوگ مغربی پاکستان کی بجائے اس حصے کو جہاں آج ہم رہتے ہیں، پاکستان ہی کہنے لگ گئے۔ ان کے لیے ہم کوئی الگ ملک تھے اور وہ کوئی الگ۔ پے در پے نظرانداز کیے جانے کا نتیجہ ایسا ہی کچھ ہو سکتا تھا جیسا 16 دسمبر 1971ء کو ہمارے سامنے آیا۔

تین سال پہلے تک 16 دسمبر کی جو پہچان تھی اس میں دکھ تو تھا ہی، ہار کی پشیمانی بھی تھی۔ مگر پھر دہشت گردوں نے سوچا کہ ٹھیک اسی دن اگر پشاور کے ایک آرمی پبلک سکول پر خودکش حملہ کرکے 150 کے قریب بچوں کی جان لے لی جائے تو 16 دسمبر کو ہم ایک نئی پہچان دے سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ 1971ء کا جو لاحقہ اور سُبکی کا جو استعارہ نتھی ہو چکا ہے اسے اگر مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم دُھندلا تو کیا جا سکتا ہے۔ مجھے تو دہشت گردوں کے اس ارادے میں بھی ‘حبّ الوطنی’ ہی نظر آتی ہے ورنہ وہ اسی دن کا ہی انتخاب کیوں کرتے؟ انہوں نے سوچا کہ قوم کو پرانے دکھ سے نجات دی جائے اور دکھوں کا ایک نیا باب رقم کیا جائے جس میں کل کے ظالم آج کے مظلوم قرار پائیں گے چنانچہ اس حملے کے لیے سکول بھی ایسا ہی منتخب کیا گیا جہاں فوجیوں کے ہی بچے پڑھتے تھے۔

اب اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ اتفاقی طور پر انہوں نے اس دن حملہ کر دیا تھا تو جناب ایسے خودکش حملے اگر اتفاقات پر ہی چلتے ہیں تو محرم کے جلوس، اولیاء کے عرس اور خاص خاص مواقع پر ہی یہ اتفاقات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ کسی عام دن بھی تو کوئی خودکش دھماکہ ہوا ہوتا! اور ایسے خودکش حملے بہرحال کسی چھینک کی طرح اتفاقی طور پر رونما نہیں ہوتے۔

اب ہمارے ملک میں 16 دسمبر کو ایک نئی پہچان مل چکی ہے اور یہ ہندسہ ذہن میں آتے ہی فوراً ہمیں سرحد پار جانے کی ضرورت نہیں پیش آتی، ہمیں ایک ہی سانس میں بھارت یاد نہیں آ جاتا، ہمیں جھٹ سے 71ء یاد نہیں آتا کیونکہ 71ء اب دوسرے نمبر پہ چلا گیا ہے اور شاید حملہ آوروں کا منصوبہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔

آج جب میں دیکھتا ہوں کہ پشاور والا حملہ ہمیں پہلے نمبر پر ہی یاد آنے لگا ہے اور واقعی ہمیں 1971ء بھولنے لگا ہے تو میرے تخریب کار ذہن میں یہ خیال پیدا ہونے لگتا ہے کہ دہشت گرد اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اب آج کے دن ہم فوج، بنگالیوں اور بھارت کو گالیاں نہیں دیتے بلکہ فوجیوں کے بچے شہید ہونے کا ماتم مناتے ہیں۔

نئے دکھ نے پرانے دکھ کی جگہ لے لی ہے اور جگہ بدلی کے اس کھیل میں کرداروں کے ساتھ جُڑے کچھ استعارے بھی بدل گئے ہیں۔ 16 دسمبر کی بساط اگر مکمل طور پر نہیں تو کافی حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ کیلنڈر میں پایا جانے والا یہ سیاہ دن اب آرمی پبلک سکول دھماکے کی بے رحم یاد کا خون آلود لبادہ اوڑھ چکا ہے۔