سارتر سے سامنا ، از ایڈورڈ سعید

سارتر سے سامنا ، از ایڈورڈ سعید

(ترجمہ: عارف بخاری)

نوٹ: یہ مضمون جون ۲۰۰۰ء میں London Review of Books میں شائع ہوا۔

(مدیر)

 

عظیم شہرت یافتہ دانشور ژاں پال سارتر کا نام ایک وقت میں لوگوں کی یادداشت سے محو

سارتر سے سامنا ، از ایڈورڈ سعید
عارف بخاری

ہوگیا تھا۔۱۹۸۰ء میں ان کی موت کے فوراً بعد ہی ان کو بدنام زمانہ سویت روسی قیدخانوں کے بارے میں خاموشی پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ حتیٰ کہ ان کی انسان پرست وجددیت کو بھی اس بناء پر مضحکہ خیز گردانا جارہا تھا کہ وہ رجائیت اور رضاکاریت (voluntarism) جیسے اقدار کی اعلیٰ سطحوں تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔

سارتر ان برائے نام فلاسفہ جدیدیہ (Nouveaux philosopies) کے لیے جن کی شہرت ان کی تند و تیز اینٹی کمیونزم تھی، مایوسی کا باعث تھے اور ان پس ساختیات اور پس جدیدیت کے حامی مفکروں کے لیے بھی جو ایک خاص میکانیکی قسم کی آزردہ نرگسیت کا شکار ہوگئے تھے، ایسی نرگسیت جو سارتر کی جمہور پرستی ( Populism)اور ان کی جنگجویانہ عوامی سیاست سے کلی طور پر متصادم تھی۔

سارتر کے کار ہائے نمایاں کا عظیم پھیلا کینوس بطور ایک ناول نگار، ڈرامہ نگار، مضمون نویس، سوانح نگار، فلسفی، سیاسی دانشور، اور ایک سرگرم سیاسی رکن کے تھا۔ تاہم یہ سب کچھ لوگوں کو ان کی طرف کھینچنے کی بجائے ان سے دور رکھنے کا باعث رہا۔

ایک زمانہ تھا جب سارتر کے کام کے حوالے پر جگہ دیے جاتے تھے۔ لیکن پھر وہ وقت بھی آیا کہ قریباً بیس برس تک وہ سب سے کم قابل ذکر و قابل مطالعہ ادیب رہے۔ الجزائر اور ارجنٹائن پر اٹھنے والی ان کی آواز کو بھی فراموش کردیا گیا تھا۔ اسی طرح ان کی دنیا بھر کے مظلوموں کی حمایت، ۱۹۶۸ء کے پیرس کے طلباء مظاہروں کے ساتھ اظہار یکجہتی، اور ساتھ ہی ساتھ ادب میں ان کے کام کی وسعت (انھوں نے ادب کا نوبل انعام جیتا اور پھر رد بھی کیا)، یہ سب کچھ بھی لوگوں کو یاد نہ رہا۔ وہ ادبی دنیا کے پیش منظر سے ہٹ کر پس منظر میں چلے گئے۔

فقط اینگلو۔امریکی حلقے ان کا نام لیتے تھے جہاں انھیں ایک فلسفی کے طور پر تو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا، صرف ایک جزو قتی ناول نگار اور سوانح نگار کی حیثیت سے وہ وہاں جانے جاتے تھے۔ ایک اینٹی کمیونسٹ کے طور پر ان کو البرٹ کامیو (Albert Camus) سے کم حیثیت دی جاتی تھی جو کہ بہر حال سارتر سے کہیں کم درجے کے ادیب تھے۔

تب اچانک حالات تبدیل ہوئے اور یک دم سارتر کی مقبولیت کی ایک لہر اٹھی۔ سارتر پر کتب نمودار ہونا شروع ہوگئیں مع وہ ایک بار پھر موضوع گفتگو بن گئے۔ میری نسل کے لوگوں کے لیے سارتر بیسیویں صدی کے ایک عظیم دانشور تھے جن کی دانشورانہ صلاحیتیں ہمارے وقتوں کی ہر ترقی پسند تحریک کی خدمت کے لیے وقف تھیں۔

تاہم وہ کوتاہیوں اور کمزوریوں سے مبرا نہیں نظر آئے۔ مگر سارتر نے کبھی جانتے بوجھتے حقائق چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے بے باک اور آزاد منش ہونے کی بناء پر ان کی تحریریں دلچسپی سے بھر پور ہیں۔

ہاں ایک واضح استثنائی مثال ہے جو میں بیان کرنا چاہوں گا۔ مجھے یہ مثال حال ہی میں شائع ہونے والی سارتر کے دورۂ مصر کی رپورٹوں کے یاد دلائی۔ یہ ایک بھولی بسری یاد ہے مگر پھر بھی اس کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں: یہ جنوری ۱۹۷۹ء کی بات ہے۔ میں نیویارک میں تھا اور اپنے لیکچر تیار کر رہا تھا۔ اس اثناء میں مجھے پیرس سے ایک ٹیلی گرام وصول ہوا:

’’امسال 13 اور 14 مارچ کو پیرس میں Les Temps Moderness کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں امن کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا جارہا ہے۔ آپ کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ براہِ مہربانی جواب سے مطلع فرمائیے۔

منجانب : سمون ڈی بووار اور ژال پال سارتر
(Simone de Beauvoir and Jean Paul Sartre)

پہلے پہل تو یہ مجھے کسی قسم کا مذاق معلوم ہوا۔ اس تار کی صداقت معلوم کرنے میں مجھ دو دن لگے تھے۔ اور پھر اس سے مختصر وقت میں میں نے یہ دعوت غیر مشروط طور پر قبول کرلی۔ (خصوصاً جب کہ سفر خرچ سارتر کے جریدے LesTemps Modernes کی جانب سے تھا۔) ایک ہفتے بعد میں پیرس کی جانب محو پرواز تھا۔

Les Temps Modernes فرانسیسی و یورپی ادب میں بلکہ دنیا کے ادب میں بھی، ایک اہم کردار کا حامل ہے۔ سارتر نے اپنے گرد عظیم دماغ جمع کیے تھے، جن میں کچھ تو ان کے نظریاتی مخالف بھی تھے۔ ان بہترین دماغوں میں بووار، ان کے نظریاتی مخالف اہرون، مشہور فلسفی اور سارتر کے Ecole Normale کے ہم جماعت مارس مریویونٹی اور مائیکل لیریس، ماہر علم الاقوام، ماہر افریقیات، شامل تھے۔

Les Temps Modernes کا ہر خاص نمبر ایک ضخیم شمارے کی صورت میں ہر بڑے موضوع، بشمول ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ، پر شائع ہوتا تھا۔

پیرس میں ہوٹل پہنچنے پر میں نے سارتر اور بووار کی جانب سے ایک مختصر مگر پراسرار خط اپنا منتظر پایا: ’’سیکورٹی خدشات کی بناء پر ملاقات مائیکل فوکالٹ کی رہائش گاہ پر ہونا طے پائی ہے۔‘‘

خط کے ہمراہ مکمل پتہ موجود تھا۔ اگلی صبح دس بجے فوکو کی رہائش گاہ پر پہنچا تو وہاں خاص تعداد میں لوگوں کو پایا۔ سارتر تاحال نہیں پہنچے تھے۔ مجھے سیکیورٹی خدشات کی وجہ تو معلوم نہ ہوئی مگر فضا پر اس بناء پر ایک پر اسراریت سی طاری تھی۔ بووار وہیں موجود تھی۔ اپنی مشہور پگڑی باندھے اور حاضرین کو اپنے سفر ایران کا احوال سناتے ہوئے جو اس نے کیٹ میلیٹ کے ہمراہ کیا تھا اور جہاں انھوں چادر کے خلاف مظاہرے کا پلان تردیب دیا تھا۔

مجھے بووار کی گفتگو ذرا بے معنی سی لگی۔ اگرچہ میں بووار کی گفتگو سننے کا پہلے سے متمنی تھا، مگر مجھے احساس ہوا کہ اس کی باتوں میں خود نمائی بہت جھلک رہی تھی اور وہ کوئی مخالف دلیل سننے کو تیار نہیں تھی۔ تاہم سارتر کی آمد سے قبل ہی بووار وہاں سے چلی گئی اور پھر میں نے اسے دوبارہ نہیں دیکھا۔

فوکو نے بھی مجھ پر واضح کردیا کہ چوں کہ اسے کسی ریسرچ کے سلسلے میں جانا تھا لہٰذا وہ سیمینار شرکت نہیں کر سکے گا۔ وہاں اخبارات و جرائد سے اٹی پڑی کتابوں کی الماریوں میں کہیں مجھے اپنی کتاب Beginning دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اگرچہ فوکو اور میں نے خاصے بے تکلفانہ انداز میں گفتگو کی تاہم یہ مجھ خاصے عرصے بعد کھلا کہ وہ مجھ سے مشرق وسطیٰ کے بارے میں گفتگو کرنے سے کیوں کترا رہا تھا۔

دیدیر ایریبون اور جیمز مار نے اپنی اپنی سوانح میں انکشاف کیا کہ ۱۹۶۷ء میں فوکو تیونس میں پڑھاتا تھا اور جون میں جنگ شروع ہوتے ہی تیونس چھوڑ گیا تھا۔ فوکو نے تیونس چھوڑنے کی وجہ ان اسرائیل مخالف ہنگاموں کو بتایا تھا جو عربوں کی شکست فاش کی بناء پر عرب ممالک میں عام ہوگئے تھے۔ مگر ۱۹۹۰ء کے اوائل میں فوکو کے جامعہ تیونس کے ایک شریک کار کے مطابق فوکو کو وہاں سے اس کی ہم جنس پرستانہ سرگرمیوں کی بناء پر بے دخل کیاگیا تھا۔ مجھے علم نہیں کہ دونوں میں کون سی کہانی سچ ہے۔

پیرس سیمینار کے وقت فوکالٹ نے مجھے بتایا کہ وہ حال ہی میں Corriere della Sera کے نمائندہ خاص کے طور پر ایران میں مختصر قیام کرکے آیا ہے۔ وہ ایران میں اسلامی انقلاب کے آغاز کا دور تھا اور فوکو کے مطابق وہ سب کچھ بہت دلچسپ بہت عجیب اور بہت دیوانگی سے بھرپور تھا۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا شاید کہ ایران میں اس نے خود کو ایک وگ کے ذریعے چھپایا تھا۔ مگر اس کے آرٹیکل کے چھپنے کے فوراً بعد اس خود کو ایران اور اس سے متعلقہ ہر شے سے لاتعلق بنا لیا۔

۱۹۸۰ء کے اواخر میں مجھے فوکو کے ایک وقت کے گہرے دوست گلے ڈیلیوز کی زبانی یہ بھی پتا چلا کہ وہ اور فوکو مسئلہ فلسطین پر آپس میں الجھے تھے: فوکو اسرائیل کی حمایت میں اور ڈیلیوز فلسطین کی حمایت میں۔

فوکو کے وسیع اور آرام دہ اپارٹمنٹ کی نمایاں ترین بات اس کی نئی سفیدی اور سادگی تھی۔ یہ اس تنہا مفکر کے ذوق کا آئینہ دار تھا۔ وہاں فلسطین اور اسرائیلی یہودی بھی موجود تھے ۔ ان میں سے چند ایک ہی میرے شناسا تھے: ابراھیم دکک جو تب سے میرے ایک اچھے دوست بن گئے ہیں۔ بیرزیت کے ایک معلم نفیض نزل جن کو امریکہ میں سرسری طور پر جانتا تھا، اور عربی ھہن کے ایک اعلیٰ ماہر اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق چیف یہوشوفت حرکابی جن کو گلڈائیر نے نوکری سے برخاست کیا تھا کیونکہ انھوں نے غلطی سے یکبار آرمی کو الرٹ کروادیا تھا۔

تین برس قبل ہم دونوں Stanford Center for Advanced studies میں Behavioural Sciences کے شعبے میں شریک کار تھے، تاہم ہمارا تعلق قریبی نہ تھا۔ پیرس میں حرکابی اپنی پوزیشن تبدیل کرنے میں مصروف تھے۔ اب وہ اسرائیلی حکومت کے ایک ایسے امن پسند نمائندہ بننے جارہے تھے جس نے آگے جا کر فلسطین ریاست کے قیام کی ضرورت پر کھل کر بولنا تھا۔ ان کی نظر میں اسرائیل کے حوالے سے یہ ایک مفید عمل تھا۔

باقی شرکاء زیادہ تر اسرائیلی یا فرانسیسی یہودی تھے جن میں کٹر مذہبی سے انتہائی غیر مذہبی سبھی شامل تھے۔ اگرچہ کسی نہ کسی طور وہ تمام کے تمام صیہونیت کے حامی تھے ان میں سے ایک صاحب ایلی بن گال کا سارتر سے قریبی تعلق معلوم ہوتا تھا: ہمیں بتایا گیا کہ سارتر کے حالیہ دورۂ اسرائیل کے موقع پر وہ ان کے گائیڈ رہے۔

بالآخر وقت مقررہ کی خاصی دیر بعد وہ عظیم دانشور اور مفکر نمودار ہوئے۔ مجھے ان کا بڑھاپا اور کمزوری دیکھ کر گہرا صدمہ ہوا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک احمقانہ حرکت کے طور پر میں نے فوکو کو ان سے متعارف کروایا۔ مجھے یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ حشم و خدم کا ایک مختصر ہجوم ان کے گرد ان کی دیکھ بھال کو موجود تھا۔ سارتر مکمل طور پر ان لوگوں کے رحم و کرم پر تھے اور بدلے میں انھوں نے بھی سارتر کو اپنی زندگی کا محور مرکز بنا لیا تھا۔

ان میں سے ایک سارتر کی لے پالک دختر تھی جس کے ذمہ سارتر کے ادبی کام کو دیکھ بھال تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ نسلاً اس کا تعلق الجزائر سے تھا۔ ایک اور صاحب پیئر وکٹر نامی تھے جو سابقہ ماؤسٹ (Maoist) تھے اور ایک منسوخ شدہ جریدے Gauche Proktarienne میں سارتر کے شریک پبلشر رہ چکے تھے۔ یہ صاحب اب ایک کٹر یہودی بن چکے تھے۔

بعد میں جریدے کے ایک کارکن سے یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ وہ دراصل مصری یہودی تھے جنھیں بینی لیوی کہا جاتا تھا جو کہ عادل رفعت (نے لیوی) کے بھائی تھے۔ اور ان صاحب نے ایک مصری مسلمان (جو UNESCO میں ان کے شریک کار تھے) کے ساتھ مل کر محمود حسین کے نام سے ’’ La Lutte Des Classes en Egypte ‘‘ نامی مشہور تحریر تخلیق کی۔ وکٹر کہیں سے بھی مصری نہیں دکھتے تھے۔ وہ بائیں بازو کے دانشور دکھائی دیتے تھے جو نصف فلسفی ،نصف باعمل کارکن تھا۔

تیسری ایک خاتون ہیلن وان بولو، تین زبانیں بولنے والی جو ایک جریدے میں کام کرتی تھیں اور سارتر کی ترجمہ کار تھیں۔ اگرچہ سارتر جرمنی میں رہ چکے تھے اور نہ صرف ہیڈیگر بلکہ فالکنر اور ڈاس پاسوس پہ بھی لکھ چکے تھے مگر نہ تو وہ جرمن زبان سے واقف تھے نہ ہی انگریزی جانتے تھے۔

File---Sartre and Beauvoir released after arrest--Writer and philosopher Jean-Paul Sartre, left, and Simone de Beauvoir leave police station June 26 released after being picked up by police on a Paris street corner for distribution of a left wing newspaper. (AP Photo/str/MICOL)
File—Sartre and Beauvoir released after arrest–Writer and philosopher Jean-Paul Sartre, left, and Simone de Beauvoir leave police station June 26 released after being picked up by police on a Paris street corner for distribution of a left wing newspaper. (AP Photo/str/MICOL)

وان بولو ایک ملنسار اور نرم و نازک خاتون تھیں۔ سیمینار کے دو دن وہ سارتر کے قریب رہیں اور متواتر ان کے کان میں ’’تراجم‘‘ کی سرگوشیاں کرتی رہیں۔ ماسوائے ویانا سے آئے ہوئے ایک فلسفی کے، جو صرف عربی اور جرمنی بولتے تھے، سب کے سب نے انگریزی میں گفتگو کی۔

سارتر کیا کچھ سمجھ پائے تھے۔ یہ تو مجھے علم نہیں۔ لیکن مجھ سمیت باقیوں کے لیے بھی یہ بات خاصی مایوس کن تھی کہ سیمینار کے پہلے روز وہ بالکل خاموش رہے۔ سارتر کے کام کے مرتب مائیکل کو نٹاٹ بھی وہاں موجود تھے،مگر انھوں نے بحث میں حصہ نہیں لیا۔

ایک فرانسیسی طرز کے ظہرانے میں ہم نے شرکت کی جو کچھ دور ایک ریستوران میں تھا۔ عام حالات میں اس پر ایک گھنٹہ صرف ہوتا مگر بارش کے باعث اور ٹیکسیوں میں مندوبین کو بھر بھر کر لانے لے جانے کے باعث یہ پرتکلف ظہرانہ ساڑھے تین گھنٹے میں اختتام پذیر ہوا۔

لہٰذا پہلے روز امن پر ہماری گفتگو نسبتاً مختصر رہی۔ میں نے دیکھا کہ موضوعات کا چناؤ وکٹر نے کسی سے مشورے کے بغیر خود سے کیا تھا۔ بعد میں میں نے محسوس کیا کہ وہ خود ہی کوزہ، خود گل کوزہ و خود کوزہ گر تھے۔ سارتر سے ان کا تعلق ہی کچھ ایسا قریبی تھا (کبھی کبھار ان میں سرگوشیوں کا تبادلہ بھی ہوتا تھا) ہمیں درج ذیل موضوعات پر گفتگو کرنا تھی:

  1.  مصر اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے کی اہمیت (یہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا زمانہ تھا)
  2. عرب اور اسرائیل کے مابین عمومی امن
  3. مستقبل میں عرب اسرائیل کے بقائے باہمی کا بنیادی سوال

کوئی بھی عرب مندوب اس ایجنڈے سے خوش نہیں تھا۔ مجھے لگا کہ وہ مسئلہ فلسطین سے مکمل صرفِ نظر کرہے ہیں دکک اس سیٹ اپ سے اپ سیٹ دکھائی دے رہے تھے۔ لہٰذا پہلے ہی دن سیمینار چھوڑ گئے۔

گزرتے دنوں میں مجھے معلوم ہوا کہ اس سیمینار کے بارے میں بہت کچھ پہلے سے ہی طے شدہ تھا۔ اور یہ کہ عرب مندوبین کی شرکت کے حوالے سے بھی خاصی مصلحت برتی گئی تھی۔ مجھے یہ جان کر دکھ ہوا کہ مجھ سے اس معاملے میں کسی قسم کا مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔ شاید میں ابھی طفلِ مکتب گردانا جاتا تھا اور مجھے فقط سارتر سے ملنے کا شوق پیرس کھینچے لے گیا تھا۔ سیمینار میں الیا نویل لیویناس کی شرکت کی بات بھی ہوئی تھی مگر باقی مصری دانشوروں کی طرح وہ بھی کہیں دکھائی نہیں دیے۔

ہمارے سارے مباحث ریکارڈ کر لے گئے تھے اور بعد میں Les Temps Modernes کے ستمبر ۱۹۷۹ء کے ایک خاص شمارے کا حصہ بنے ۔ میں اس سارے معاملے سے خاص مطمئن نہیں تھا۔ ہماری گفتگو کم و بیش تمام پٹے پٹائے موضوعات پر رہی۔
بووار سے مل کر بھی مجھے خاصی مایوسی ہوئی۔ اس نے اسلام اور پردے کے بارے میں اپنا ایک نظریہ پال رکھا تھا جس کے بارے میں وہ بڑابڑاتے ہوئے نکل گئی تھی۔ اول اول تو مجھے اس کی غیر حاضری کا کوئی خاص افسوس نہ ہوا مگر پھر میں نے سوچا کہ شاید اس کی موجودگی میں کوئی گرما گرم بحث ہی ہوجاتی۔

سب سے عجیب بات سارتر کی غیر متاثر کن اور مبہم موجودگی تھی۔ سارتر گھنٹوں خاموش رہے۔ ظہرانے کے دوران وہ میرے مقابل بیٹھے تھے اور انتہائی مفلوج اداسی اور خاموشی کا شکار دکھائی دے رہے تھے۔ روٹی کے لقمے ان کے منہ سے گر گر جاتے تھے: مجھے ان سے کسی بھی قسم کی گفتگو شروع کرنے میں ناکامی ہوئی۔ مجھے یہ نہ معلوم ہو سکا کہ وہ سماعت سے بھی محروم تھے یا نہیں: بہر کیف ، مجھے وہ روایتی فقیر منش سارتر کا کوئی بھوت لگا۔

ان دنوں میں فلسطین سیاسیات کا خاصا سرگرم رکن تھا۔ ۱۹۷۷ء میں میں نے نیشنل کونسل کی ممبر شپ اختیار کی۔ بیروت میں اپنی والدہ سے ملاقات کے عرصے میں ( یہ لبنانی خانہ جنگی کا زمانہ تھا) میں متواتر یاسر عرفات اور دوسرے قابل ذکر قائدین سے ملتا رہا۔ میں نے سوچا تھا کہ اسرائیل مخالف زمانے میں سارتر کو فلسطین کے حق میں بیان دلوانے پر راغب کرنا ایک بڑی کامیابی ہوگی۔

مجھے اس تمام عرصے میں پیٹر وکٹر سارتر کے آقا کے طور پر دکھائی دیا۔ دونوں نہ صرف آپس میں سرگوشیاں کررہے تھے بلکہ وکٹر لڑکھڑاتے ہوئے سارتر کو ایک طرف لے جاکر تیز تیز لفظوں میں کچھ کہتا تھا اور پھر دونوں واپس آجاتے تھے۔ ان اثناء میں سیمینار کا ہر شریک اپنی اپنی بولی بولنے کی کوشش کررہا تھا۔ جس کی وجہ سے بحث آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ مگر جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ میٹنگ کا اصل مقصد اسرائیل مفادات کا تحفظ تھا نہ کہ عرب یا فلسطینی مفادات کا۔

کئی دفعہ میرے سامنے بے شمار عربوں نے کئی اہم دانشوروں کو اپنے مقصد کی طرف راغب کرے کی کوشش کی، اس امید پر کہ شاید آرنلڈ ٹوائن بی یا ساں مک برائیڈ جیسا کوئی اور مفکر سامنے آئے چند ایک دانشور راغب بھی ہوئے۔ مجھے سارتر کو راغب کرنا یوں بھی مناسب لگا کہ مجھے ان کا الجزائر کے مسئلے پر آواز اٹھانا یاد تھا، اور ایک فرانسیسی کے لیے یہ بات اسرائیل پر آواز اٹھانے سے زیادہ مشکل تھی۔ مگر شاید مجھے سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی۔

اس سارے بے مقصد مذاکرے کے دوران مجھے رہ رہ کر خیال آتا رہا کہ میں تو یہاں سارتر کو سننے آیا تھا ان لوگوں کی بے معنی گفتگو سننے کے لیے نہیں۔ لہٰذا شام کے وقت میں نے مداخلت کرکے نہایت اصرار سے کہا کہ ہمیں سارتر سے بھی کچھ سننا چاہیے۔ اس پر ان کے سارے لوگ متفکر ہوگئے سیمینار فوراً ملتوی کردیا گیا اور آپس میں صلاح مشورے شروع ہوگئے۔

مجھے یہ بات بیک وقت مضحکہ خیز اور قابل رحم لگ رہی تھی۔ جبکہ سارتر صاحب اس تمام معاملے سے قطعاً لاتعلق تھے۔ آخرکار پیئر وکٹر نے سب کو جمع کیا اور رومن سینیٹرز کے سے گھمبیر لہجے میں اعلان کیا کہ سارتر اگلے روز خطاب فرمائیں گے۔

اگلے روز سارتر نے ہمیں دو صفحات پر ٹائپ شدہ اپنی تقریر سنائی۔ اس میں انھوں نے نہایت روایتی اور پھیکے پھاکے انداز میں انور سادات کے حوصلہ کو سراہا تھا۔ مجھے یاد نہیں کر انھوں نے فلسطینیوں، ان کے ذہن اور ان کے سانحے پر کس قدر الفاظ کہے۔ مگر مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ انھوں نے اسرائیلی نو آبادیاتی نظام کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا جو کہ کئی طرح سے الجزائر میں فرانس کی مداخلت سے ملتا جلتا تھا۔

ان کی تقریر ایک نیوز رپورٹ سے زیادہ اہم نہیں لگ رہی تھی۔ یقیناً یہ تقریر ان کے ’آقا‘ وکٹر کی لکھی ہوئی تھی۔ مجھے یہ جان کر افسوس ہوا کہ یہ عظیم دانشور اپنے آخری وقت میں وکٹر جیسے رجعت پسند آقا کے رحم و کرم پر ہوگیا تھا۔ مظلوموں کے حقوق کا سابق ہیرو آج فلسطینیوں کے حقوق کے لیے ایک اخباری بیان سے زیادہ کچھ نہ سکا۔

باقی وقت سارتر بالکل خاموش رہے اور حالات جوں کے توں ہوگئے۔ مجھے اس وقت سارتر کے بارے میں ایک دیو مالائی کہانی یاد آئی جس میں بیس برس قبل سارتر نے روم کا سفر کیا تھا فاناں سے ملنے کے لیے (جو اس وقت خون کے سرطان میں مبتلا تھے) اور فاناں کو انھوں نے مسلسل سولہ گھنٹے مسئلہ الجزائر پر وعظ دیا تھا۔ اب وہ سارتر ہمیشہ کے لیے کھو گیا تھا۔

سیمینار کی تفصیلات کو کاٹ چھانٹ کر مزید بے ضرر بنا کر شائع کیا گیا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ایسا کیوں کیا گیا تھا۔ Les Temps Modernes کا وہ شمارہ تا حال میرے پاس محفوظ ہے مگر چند حصوں کے سوا میں نے اسے دوبارہ قابل مطالعہ نہیں سمجھا۔ ایک لحاظ سے میرا سارتر کو پیرس ملنے جانا ویسا ہی تھا جیسا ان کا مصری دانشوروں سے ملنے مصر جانا۔ دونوں کے نتائج یکساں مایوس کن تھے، اگرچہ میرے اور سارتر کے بیچ میں پیئر وکٹر جیسے آدمی کا پردہ حائل رہا۔

ایک اور بات : چند ہفتے قبل مجھے فرانسیسی ٹی وی پر Bouillon de cutture نامی ایک بحث و مباحث کا پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ پروگرام سارتر کی بعد از مرگ کھوئی ہوئی مقبولیت اور ان کی سیاسی اغلاط پر ہونے والی تنقید کے بارے میں تھا۔ برنارڈ ہنری لیوی جو عقل و دانش اور سیاسی سوجھ بوجھ میں سارتر کی ضد تھا، سارتر پر اپنی طرف سے بڑے مستند انداز میں بات کررہا تھا۔

برنارڈ لیوی کے خیال میں سارتر اس قدر برا آدمی نہیں تھا اور اس کے زیادہ تر اقدامات کی تعریف کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر (لیوی نے کہا) سارتر کا اسرائیل پر موقف ہمیشہ مثبت رہا۔ وہ ہمیشہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے آخری دم تک حامی رہے۔

وجہ تو مجھے نہیں معلوم مگر یہ طے ہے کہ سارتر ہمیشہ صیہونیت کے ایک بنیاد پرست حامی رہے۔ آیا وہ اسرائیل مخالف بننے سے گھبراتے تھے، یا ’’ہولو کاسٹ ‘‘ کے بارے میں احساس جرم کا شکار تھے، یا بھر اسرائیلی مظالم کے شکار فلسطینیوں کی لڑائی کو سراہنا نہیں چاہتے تھے، واللہ اعلم: مجھے تو بس اتنا پتہ ہے کہ اپنے بڑھاپے میں بھی وہ ویسے ہی رہے جیسا کہ وہ اپنی جوانی میں تھے، یعنی ہر (غیر الجزائری ) عرب کے لیے مایوسی کا باعث۔

یقیناً برٹرینڈ رسل سارتر سے بہت بہتر تھے جنھوں نے اپنی آخری عمر میں عرب مخالف اسرائیلی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔ معلوم نہیں بزرگ لوگ نوجوانوں کے اعمال بد کے آگے کیوں ہتھیار ڈال دیتے ہیں، یا کسی غلط سیاسی عقیدے کے گھیرے میں کیونکر آجاتے ہیں؟ عربوں کے موقف کی حمایت کی توفیق سارتر کو کبھی نہیں ہوئی۔

شاید مذہبی، شاید ثقافتی طور پر، اس معاملے میں سارتر اپنے محبوب دوست ژاں جینے کے بالکل برعکس تھے۔ جنھوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ثبوت میں باقاعدہ ان کے ساتھ رہ کر وقت گزارہ اور Quatre Heures a sabra et Chatila اور Le Captif amoure جیسے شہرہ آفاق شہکار تخلیق کیے۔ ہماری پیرس کی مختصر اور مایوسانہ ملاقات کے ایک برس بعد سارتر رحلت کر گئے ۔ مجھے آج بھی ان کی موت کا دکھ یاد ہے۔

1 Comment

  1. ہائے
    کمپوزنگ کی بے تحاشا اغلاط کے باوجود پڑھنے میں لطف آیا۔
    سارتر کے بارے میں جو باتیں سعید نے کیں ان میں سے بہت سی درست ہیں۔

Comments are closed.