غمگین کالا ہرن کہے : ہائے مجھے تیرا تیر ہی کیوں لگا

Izzah Moin
عزہ معین

غمگین کالا ہرن کہے : ہائے مجھے تیرا تیر ہی کیوں لگا

از، سنتوش تریویدی
ترجمہ: عزہ معین، ریسرچ اسکالر، دہلی یونیورسٹی

آج دن بھر ایک ضروری کام میں الجھے رہنے کی وجہ سے کسی اور طرف توجہ کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ اتنا مصروف رہا کہ سوشل میڈیا بھی نہیں جھانک سکا۔ گھر پہنچ کر ایک گلاس پانی پیا اور غلطی سے نیوز چینل کھول دیا۔
یہ کیا یہاں تو ہاہا کار مچا ہوا تھا۔ بھائی جان کو ہرن مارنے پر جیل ہوگئی تھی۔
نیوز روم میں ماہرین پانی پی نہیں رہے تھے بلکہ وہ ان کی آنکھوں سے خودرو طور پہ بہہ رہا تھا۔ مجھے پہلی بار اپنے بے حس ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔ کاش! میں نے گھر آ کر ایک گلاس پانی نہ پیا ہوتا۔
میں چاہ کر بھی اب اس “قومی سوگ” کا حصہ نہیں بن سکتا تھا۔ ایک اور ضروری قومی فرض سے میں چوک گیا تھا۔ اس احساس گناہ سے میں چھٹپٹانے لگا۔ مجھے ہلکی سی امید سوشل میڈیا سے لگی چینل چھوڑ کر وہاں گھسا تو چونک گیا سوگ منانے کا زورو شور وہاں اور تیز تھا۔
ہمارے زیادہ تر دوست کئی گھنٹے پہلے بھائی جان کے غم میں غلط ہو چکے تھے۔ وہاں کوئی “اسکوپ” نہ دیکھ کر میں واپس “مکھیےدھارا” میں کود پڑا۔
ایک تیز چینل مکمل اعتماد سے جپت جا رہا تھا کہ شیئر بازار بھلے چھ سو گنتی اوپر چڑھا ہو پر بھائی جان کو ملی سزا سے چھ سو کروڑ روپیے بھسم سواہ ہو جائیں گے۔ شاید یہ بات فیصلہ سنانے والے جج صاحب کووقت رہتے بتا دی گئی ہوتی تو ملک اتنی بڑی مشکل میں نہ پھنستا۔
ملک و قوم کو ہمیشہ اس بات کا ملال رہے گا کہ چینل کے سمجھ دار اینکر کے ہوتے ہوئے بھائی نے غلط وکیل کیوں چن لیا۔ بات چیت میں شامل سبھی مفکرین بے حد فکر مند دکھائی دے رہے تھے۔ یہ وہی عالم و فاضل تھے جو نوٹ بندی کے نقصان کا آج تک ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔ مگر ایک ہیرو کے جیل جانے پر سو طرح کےنفع نقصان دکھا رہے تھے۔
ان کے لیے چھ سو کروڑ روپیے تو بس ایک شروعاتی اندازہ تھا۔ یہ چپت جیل میں اور بڑھ سکتی تھی۔ بھائی جان اگر جیل میں ہی پانچ سال بنے رہے تو کئیوں کا کیریئر ہمیشہ کے لیے قید ہو جائے گا۔ ہرن کے لیے ہم اتنا نقصان نہیں اٹھا سکتے۔ وہ “ٹائیگر” کی گولی سے نہیں مرتا تو بھی شکار تو وہ ٹائگر کا ہی ہوتا۔ حکومت کو اس میں ضرور دخل دینا چاہیے ضرورت پڑے تو اس معاملے کو سنودھان پیٹھ کو بھی سونپا جا سکتا ہے۔ اتنی سنجیدہ تقریر سن کر میں بہت جذباتی ہو گیا۔ زیادہ دیر وہاں رکتا تو خود کے بے حس ہو نے کا احساس لگاتار دوسری مرتبہ ہو جاتا۔
اس سے پہلے کہ میں مزید جذباتی ہوتا اس سے پہلے ہی چینل تبدیل کر دیا۔ یہ ایک مطلبی چینل تھا۔ اس گرفتاری سے پیدا ہوئے چٹخاروں سے لطف اندوز ہونے اور عوام کو چٹپٹا پیش کرنے کے لیے خود نیوز رپورٹر ہیرو کی رہائش پر پہنچ گئی تھی.۔ اس نے کیمرہ مین سے کہا کہ وہ اپنے کیمرے کی نظر سے ہیرو کی رہائش کے ارد گرد چھائے اندھیرے کو دکھائے۔ جیسا کہ ناظرین دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں کتنا انھیرا پھیلا ہوا ہے۔
معاف کرنا یہ اندھیرا آپ کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔ اس کے لیے آپ کو اپنے من کی آنکھیں کھولنی ہوں گی۔ آئیے ہم اس کام میں آپ کی مدد کرتے ہیں۔ یہ جو گھر کے سامنے ہیرو کے چاہنے والوں کی بھیڑ لگی ہے سب ان کے لیے دعا کر رہے ہیں۔
یہ جو اٹھے ہوئے ہاتھ آپ دیکھ رہے ہیں بھلے ہی روزگار سے خالی ہوں پر دعاؤں سے لبا لب ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے ہی میں نے ان کامشاہدہ کیا ہے پر وہ منظر آپ کو بے چین کر سکتے ہیں۔ ہمارا چینل ایک ذمہ دار چینل ہے اس لیے اس طرح کے مناظر منظر عام پر نہ لاکر ہم خود تک اس بے چینی کو محدود رکھنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، آپ کو وہ سب نہ دکھا کر۔ براہ کرم ہمارے ساتھ بنے رہیں۔
اتنی گزارش کے باوجود میں اپنی بے زاری ظاہر کیے بنا نہیں رہ سکا اور چینل تبدیل کر ہی دیا اس چینل کو کھولا تو یہاں کچھ راحت ملی۔ یہاں اس فیصلے پر پڑوسی ملک سے جواب آرہا تھا ان کا کہنا تھا کہ ہیرو کو اس کے کام کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہب کی وجہ سے سزا ملی ہے۔ سن کر تسلی ہوئی کہ ابھی بھی کچھ لوگ جاگ رہے ہیں۔
ایک ہم ہیں کہ اپنے ہیرو کو ملی سزا پر ڈھنگ سے افسوس بھی ظاہر نہیں کر پارہے ہیں۔ اس جرم میں شرمندہ ہو کر ہم نے فوراً چینل بدل دیا۔ اس چینل پر ہیرو کی انسانیت اور ہمدردی کے اکیاون قصے بتائے جا رہے تھے۔ “بیڈ بوائے” سے “بھائی جان” بن جانے کا دل چسپ سفر چل رہا تھا۔
نہ جانے کتنی پھس ہیروئنوں کا کیریئر بھائی جان نے سنوارا تھا۔ مجھے تو لگا کہ ہو نہ ہو بھائی نے اس اینکر کو بھی اپنی دریا دلی کا ثبوت ضرور دیا ہوگا۔
اس میں نہ جانے کب مجھے جھپکی آگئی پھر دیکھا کہ وہی کالا ہرن میرے سامنے کھڑا تھا۔ اس کا مجھ سے بھی برا حال تھا۔ اسے اپنے اوپر شرمندگی ہو رہی تھی میں نے اسے ہمت بندھائی وہ ایک دم سسک اٹھا، “میں کیوں ایسے بہترین آدمی کے تیر کی زد میں آگیا۔ میری نادانی کی وجہ سے آج سارا ملک غمگین ہے۔ ہم تو شکار ہونے کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ جنگل کے ٹائیگر سے بچ گئے تو شہر کے ٹائیگر ہماری روح کو آزاد کر دیتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا کے خاندان میں بھی ہمیشہ یہی روایت رہی ہے۔ ایسے میں بھائی جان کہاں سے مجرم ہوگئے میں خود بھائی جان کی گواہی دینے جا رہا ہوں۔” میں شرمندگی سے بھرے ہرن کی گواہی کا انتظار کر ہی رہا تھا کہ جب ہی خبرآ گئی کہ بھائی جان کوضمانت مل گئی۔