قونیہ : رُومی اور شمس کا شہرِمحبت

aik Rozan writer
ڈاکٹر شاہد صدیقی، صاحبِ مضمون

قونیہ : رُومی اور شمس کا شہرِمحبت

ڈاکٹر شاہد صدیقی

ترکی کاشہر قونیہ استنبول سے بالکل مختلف ہے۔ اس کوصوفیاکاشہرکہاجاسکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ یہ رُومی کا شہر ہے۔ ہمارا ہوٹل ُرومی کے مسکن سے زیادہ دور نہیں۔ کمرے میں سامان رکھ کر میں پیدل ہی رومی کے مزار کی طرف چل پڑتا ہوں جس کا گنبد مجھے دور سے نظر آ رہا ہے ،اب سہہ پہر شام میں بدل رہی ہے اور ہوامیں خنکی گھل رہی ہے۔ رومی کے مزار پر اس کے چاہنے والے جوق درجوق آرہے ہیں۔ مزار کے اندر روحانیت کی خوشبو مہک رہی ہے، عقیدت کے پھول کھل رہے ہیں ایک عالمِ استغراق ہے۔ کچھ لوگ نوافل ادا کر رہے ہیں کچھ، دعاؤں میں میں مصروف ہیں۔مزار سے باہر نکل کر میں قونیہ کے آسمان کو دیکھتا ہوںشام کے دھندلکے پراندھیراغالب آنے لگاہے میں سوچتا ہوں ایسی ہی ایک رات رومی کی زندگی میں بھی آئی تھی جب اُس سے اس کی سب سے قیمتی متاع چھن گئی تھی۔یہی شہرقونیہ تھا۔

تیرھویں صدی کا قونیہ ۔دسمبر کے مہینے کی ٹھٹھرتی ہوئی رات۔باہر تاریکی کاسمندر جس میں برف سے اٹے ہوئے راستے اور درخت چھپ گئے تھے۔ کمرے کاماحول گدازتھا جہاں قونیہ کا مستندعالم رومی عاشقِ باصفا شمس تبریز کے سامنے ایک طفل ِسادہ کی مانند محوحیرت تھا۔حیرت، جس کا تصوف سے چولی دامن کاساتھ ہے۔ ایک صوفی ہمہ وقت سفرمیںرہتا ہے ایک مدارسے دوسرے مدارکاسفر۔ اورہرمدارمیں نئے تجربوں کی حیرتیں۔ رومی اور شمس کی گفتگو میں کبھی تو الفاظ کااستعمال ہوتاتھا۔ کبھی خاموشی گفتگوبن جاتی۔

انہماک کایہ عالم کہ پتہ بھی گرے تو اس کی آواز سنائی دے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی تھی اورکسی نے شمس کا نام پکارا تھا۔ رومی دروازہ کھولنے کے لیے اٹھا لیکن شمس نے اسے اشارے سے منع کردیا تھااورخود اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔ باہرسے ٹھنڈی ہواکا جھونکا آیا اورشمس نے باہرنکل کردروازہ بندکردیا تھا۔ رومی شمس کے کہنے پررک توگیا لیکن اس کاتجسس اپنی جگہ قائم تھا اتنی رات گئے کون تھاجوشمس سے ملنے آیاتھا؟ وہ کیاضروری کام تھا جس کے  لیے صبح تک صبرنہیں ہوسکتا تھا؟ رومی کووہ دن یادآگیاجب شمس تبریز ایک طوفان کی طر ح آیا تھا اور اس کی ٹھہری ہوئی خاموش زندگی میں ارتعاش پیداہوگیا تھا۔وہ دن اوراس سے ُجڑی ہوئی تفصیلات کویادکرتے ہوئے رُومی کے ہونٹوں پرمسکراہٹ کھیلنے لگی۔

رومی نے سوچا اُس دن سے پہلے کی زندگی کتنی باثروت تھی اس کے علم ودانش کی شہرت قونیہ میں ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، وہ قیمتی لباس زیبِ تن کرکے سفید گھوڑے پرسوار جب مسجد میںخطبہ دینے آتا تو اس کے جلومیں چاہنے والوں کاایک جلوس ہوتا اور خطبے کوسننے کے  لیے کتنے ہی لوگ گوش برآوازہوتے اورپھررُومی کے درس کاسلسلہ ،جس میںاس کے شاگردوں کی کثیرتعداداشریک ہوتی۔

اس دن بھی شاگردوں کاہجوم تھا اوررومی عُلوم کی گرہیں کھول رہا تھا۔ کتابوں کے ڈھیر لگے تھے اورسوال وجواب کا سلسلہ جاری تھا۔ اچانک رومی کی نگاہ ایک اجنبی پرپڑی جو سب سے آخرمیں بیٹھاتھا اس کے بال بے ترتیب تھے اورآنکھوں میں وہ چمک تھی جوکسی بھی چیز کوپگھلا سکتی تھی۔ رومی کویوں لگاتھا کہ ان آنکھوں نے اسے مکمل طورپراپنی گرفت میں لے لیاہے۔ اچانک اجنبی نے اپناہاتھ بلند کیا اورکتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”ایں چیست ‘‘؟ (یہ کیا ہے؟) رومی کو اس دخل درمعقولات سے ناگواری کا احساس ہو ا اور سوال کو بے معنی جانتے ہوئے جواب دیا ”ایں آں علم است کہ تو نہ می دانی‘‘ (یہ وہ علم ہے جس کے بارے میں تم نہیں جانتے) ۔سامعین نے مڑکر اجنبی کودیکھااور مسکرادیئے۔ اجنبی کے چہرے پر وہی سوال اب بھی لکھا تھا۔

رومی نے درس کاسلسلہ جہاں سے ٹوٹاتھا وہیں سے پھرشروع کردیا۔ اسی دوران درس میں وقفے کااعلان ہوا رومی اور شاگرد کچھ دیرکے  لیے اٹھ گئے۔ وقفے کے بعدواپسی پررومی اور ان کے شاگردوں نے وہ منظردیکھا جوان کے لیے انتہائی غیرمتوقع تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ ساری قلمی کتابیں پانی سے بھرے ہوئے تالاب میں پڑی ہیں اوروہی اجنبی تالاب کے کنارے کھڑا مسکرا رہا ہے۔ رومی کا غصہ قابلِ دید تھاکہ وہ سارا علم جوان کتابوں میںتھا ضائع ہوگیا تھا۔ اجنبی نے رومی کی بے چینی دیکھی تو تالاب میں اترگیا۔

کہتے ہیں وہ ایک ایک کتاب کواٹھاتا اس پرہاتھ مارتاتو گرداڑتی۔پانی نے کتابوں پرکوئی اثرنہیں کیاتھا۔ رومی کاساراعلم اس صورت حال کوسمجھنے سے قاصرتھا۔اس کی حیرت دیدنی تھی اسی عالم حیرت میں بے اختیار رومی کے منہ سے نکلا ” ایں چیست؟‘‘ (یہ کیاہے؟) اجنبی نے جواب دیا” ایں آں علم است کہ تونہ می دانی‘‘ (یہ وہ علم ہے جسے تو سمجھنے سے قاصر ہے)۔ یہ کہہ کراجنبی نے اپنی چادرکندھے پر رکھی اورچل دیا۔ رومی نے اپنے شاگردوں اورکتابوں کوچھوڑا اور اس اجنبی کے پیچھے چل دیا اورپھر باقی ساری زندگی اس کے پیچھے چلتا رہا۔

اس اجنبی کانام شمس تھا۔وہ دن اور وہ ملاقات رومی کو ہمیشہ یاد رہی۔اورپھر آج کی رات۔اچانک رومی کواحساس ہوا کہ شمس کو کمرے سے گئے کافی دیرہوگئی تھی۔ اتنی دیرتونہیں ہونی چاہیے تھی۔رومی اٹھا دروازہ کھولا۔سرد ہوا کاجھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ باہرتاریکی کا ایک سمندرتھا اورشمس کاکہیں نام ونشان تک نہیں تھا۔اُس رات شمس ایساگُم ہوا کہ پھر رومی کواس کاچہرہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ شمس تبریز جویہاں سے ہزاروں میل دور ایران کے شہرتبریز میں پیداہوا اورجس کا تن بدن اس کے نام کی مناسبت سے ایک آتشِ سیال سے دہک رہا تھا وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھا جسے وہ اپنی آتشِ عشق منتقل کر سکے، یہی تلاش اسے ترکی کے شہر قونیہ کھینچ لائی۔

یہیں پہ وہ گوہرِنایاب تھا جسے شمس نے اپنے جذبوں گی آگ سے صیقل کرنا تھا۔رومی خرد کا استعارہ تھا۔خرد کا ایک غرور ہوتا ہے۔ شمس سے ملنے کے بعد عشق نے رومی کی انا کا بُت توڑ دیا اور رومی کے اندر شاعری کا جھرنا بہہ نکلا اس جھرنے نے اس کا تن بدن بھگو دیا اور رومی محبت، عاجزی اور انکساری کی تصویربن گیا۔ شاعری کی تاریخ کا یہ بھی انوکھا واقعہ ہے کہ رومی نے اپنی شاعری کے دیوان کا نام دیوانِ شمس تبریز رکھا۔ شمس نے رومی کو بتایا کہ عشق کی روایت میں وارفتگی کا کیا مقام ہے اور وارفتگی کے اظہار کا ایک ذریعہ رقص ہے۔ یوں قونیہ کی فضاوں میں رقصِ درویش کی روایت کا آغاز ہوا۔رومی نے شمس کی صحبت میں سیکھا کہ محبت کا قانون کائنات کا سب سے بڑا قانون ہے۔رومی نے یہ جانا کہ خدا کی معرفت کا راستہ محبت کی وادی سے ہو کر نکلتا ہے۔بدن کے مقابلے میں روح اور خرد کے مقابلے میں عشق کی کیا اہمیت ہے۔
آج پھر رومی کے مزار کی کشش مجھے یہاں کھینچ لائی ہے ۔مز ار میں کچھ وقت گزار کر اب میں رومی کے مدرسے کے احاطے میں بیٹھا ہوںمیرے بالکل سامنے رومی کے مزار کامرکزی دروازہ ہے جس کی پیشانی پرجلی حروف میں ”یاحضرت مولانا‘‘ لکھا ہے، رُومی کے چاہنے والوں کا ایک ہجوم ہے، میں سوچتا ہوں رُومی کادورتیرھویں صدی کاتھا اس کے بعد کتنی ہی صدیاں گزرگئیں بہت سی سلطنتیں اوربادشاہتیں آئیں اورختم ہوگئیں۔لیکن یہ کیسی اقلیمِ عشق ہے جوسات صدیاں گزرجانے کے بعد بھی نہ صرف قائم ہے بلکہ اس کے عشاق میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے۔ اب یہاں سے رخصت ہونے کاوقت آگیاہے میں جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتاہوں۔بیرونی راستے کی طرف جاتے ہوئے میں مزار پر آخری نظرڈالتا ہوں جہاں کی گرمئی بازار میں کوئی فرق نہیں آیا عشاق کا ہجوم ہے کہ کم ہونے میں نہیں آرہا۔میں سوچتاہوں مجھ سے پہلے کتنے ہی لوگ اس قریہء محبت میں آئے ہوں گے اور کتنے ہی لوگ میرے بعد آئیںگے ہم سب کا جوگی والا پھیرا ہے مگر یہ شہرِ محبت یوں ہی آباد رہے گا اور اس کے دروازے یوں ہی سب کے لیے کھلے رہیں گے ۔وقت اور زمانوں سے بے نیاز۔

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری بادہ خانے تیرے

About ڈاکٹرشاہد صدیقی 57 Articles
ڈاکٹر شاہد صدیقی، اعلی پائے کے محقق، مصنف، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔