مغرب میں فلسفی ہوتے ہیں، ہمارے ہاں رشی منی

مغرب میں فلسفی

مغرب میں فلسفی ہوتے ہیں، ہمارے ہاں رشی منی

از، نصیر احمد

آج کچھ فریگی کی بات نہ ہو جائے۔ فریگی ریاضی کے ایک نامور فلسفی تھے اور ریاضی کو منطقی بنیادوں پر استوار کرنے کے خواہاں تھے اور سالہا سال سے مقالے لکھ رہے تھے اور ریاضی کے فلسفے کے ماہرین کہتے ہیں معاملات نہت کچھ سیدھے کر لیے تھے، اس لیے فلسفیوں میں ان کا بڑا نام تھا اور جیسے فلسفی ہوتے ہیں، اپنی ہر بات کو سونا جانتے تھے۔

یہ مرض فلسفیوں میں بہت عام ہے، ہر کوئی اپنا مقدمہ پیش کرتا ہی یہی سمجھ کے ہے اس نے جیسے کائنات کا راز دریافت کر لیا ہو لیکن زندگی ہر کسی کی بات کو تشنہ اور ادھوری ہی رکھتی ہے کہ زندگی کا اپنا انداز ہے، کسی کو زیادہ دیر تک لب بام ٹکنے نہیں دیتی جو کہ اچھی بات ہے، فلسفی بات شروع ہی کسی کی دانائی پر اعتراض کرتے ہوئے کرتے ہیں تو پھر انھیں اپنی دانائی پر اعتراضات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے لیکن انسان ہی ہوتے ہیں، اس لیے انا کے نشے سے پرہیز نہیں کر پاتے۔

فلسفے اور سائنس کی دنیا ایسی ہی ہوتی ہے چاہے لب بام رہیں یا نہ رہیں نئے خرد کار بمع ثبوت گفتگو کا معائنہ کر ہی لیتے ہیں۔ مغرب میں فلسفی ہوتے ہیں، ہمارے ہاں تو رشی منی ہوتے ہیں، اس لیے فلسفے کی بات ہم لوگ کچھ ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پاتے۔ اور اس رشی منی سے امت کی یہی توقع ہوتی ہے کہ امت کے تعصبات کے جواز فراہم کرتا رہے اور وہ اس کے گن گاتے رہے ہیں

اب خواتین کے حقوق کے خلاف گفتگو  کو ہمارے ہاں بڑا اعتبار حاصل ہے، علامہ اقبال ہوں یا مشتاق یوسفی، ہم  خواتین کے بارے نا منصفانہ   گفتگو کو پڑے لکھے پیرائے میں سن کر باغ باغ ہوتے رہتے ہیں۔اور علامہ اور یوسفی کے درجات بلند کرتے رہتے ہیں۔

اسی طرح اقلیتوں اور پردیسیوں کے بارے میں تعصبات کے لیے بھی ہمارے ہاں دانشور موجود ہیں اور ذات پات کے جواز فراہم کرنے کے لیے بھی انشا پرداز موجود ہیں۔اور ان دانشوروں کے معتقدین، مداحین اور مقلدین کی تو گنتی ہی نہیں ہو سکتی۔

اوپر سے ہم نے انسانی حقوق کے حوالے سے اکثر معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں ،جو ہمارے اور ہمارے دانشوروں کے تعصبات سے بالکل مختلف بات کہتے ہیں مگر یہاں، پندار، استواری اور ایفائے عہد کچھ گڑبڑا سے جاتے ہیں، اور اس گڑبڑاہٹ کے تدارک کے لیے ہم نے عہد شکنی کے جواز فراہم کرنے کے لیے بھی دانشور رکھے ہوئے ہیں جو عہد شکنی کے فوائد پر سیر حاصل مقالے لکھتے رہتے ہیں۔

ایسے دانشوروں کی بہتات کی وجہ سے سائنس اور فلسفے میں ہم کچھ ترقی نہیں کر سکے لیکن قصور تو ہمارا اپنا ہی ہے،جب ہم کچھ نیا سننا ہی نہیں چاہیں گے،تو نیا کون کہے گا؟

نہیں، نہیں، فریگی کی بات ہم بھولے نہیں، یہ ہمارا معاشرتی کمنٹری کا طریقہ واردات ہے، اس لیے اس پس منظر کی ضرورت پڑ گئی۔

تو فریگی ریاضی کی منطق پر ایک نیا مقالہ لکھ رہے تھے کہ ایک دن لارڈ رسل کا خط آگیا کہ فریگی تمھاری بنیادی بات ہی تضادات کا شکار ہے اور لارڈ رسل کے اپنے ہی ساختہ پیراڈوکس کا شکار ہے۔ کچھ سیٹوں کا معاملہ تھا کہ سیٹ اپنے ہی اگر رکن بن جائیں تو بات نہیں بنتی تھی۔ اور اس کا حل کوئی نہیں کہ سیٹ اپنے رکن نہ بن جائیں۔

یہ ریاضیاتی موشگافیاں شاید آپ کو نہ سمجھا سکیں کسی ریاضی دان سے سمجھ لیجے گا لیکن ہم جیسے گنواروں کے لیے سہل مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک نائی ہے جو صرف انھی لوگوں کی شیو بناتا ہے جو اپنی شیو نہیں بناتے۔ سوال یہ بنتا کیا یہ نائی اپنی شیو بناتا ہے؟ اب اگر اپنی شیو بنائے تو وہ نائی نہیں نہیں رہتا جو صرف ان لوگوں کی شیو بناتا ہے، جو اپنی شیو نہیں بناتے اور اگر وہ اپنی شیو نہیں بناتا تب بھی وہ نائی نہیں رہتا کہ نائی تو ان لوگوں کی شیو بناتا ہے، جو اپنی شیو نہیں بناتے۔

تو اس پیراڈوکس نے فریگی کا نظام گڑبڑا دیا جس سے فریگی بہت پریشان ہوا، اور اپنا سونا اسے کچھ سہاگہ سا لگنا شروع ہو گیا۔ لاڑد رسل کی بات نظر انداز کر کے ذہنی تسکین کا کچھ سامان کر لیتا لیکن صداقت سے وابستہ فلسفی تھا، اس نے لارڈ رسل کی بات اپنی پریشانی اور اداسی کے باوجود وزن دیا۔ پریشانی تو ہو جاتی ہے جب پتا چلے کہ زندگی کے سب سے بڑے کارنامے کی بنیادیں کچی ہیں۔ لیکن حوصلے والا آدمی تھا، سہہ گیا۔

کہنے کا مقصد ہےہمارے ہاں انگریزوں کی آمد سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ زندگی کے سب سے بڑے کارنامے ، جسے ہم اپنی ثقافت کہتے ہیں، کی بنیادیں ہی کچی ہیں۔ اور یہ خط ہمیں بار بار ملتے ہیں اور ان کچی بنیادوں کے نتائج بھی ہم مسلسل بھگتتے ہیں۔

اب اکیسویں صدی ہو گئی ہے، ہم یہ بات ماننے سے انکاری ہیں۔ بس شجر ظلمت سے چمٹے رہتے ہیں۔ جو بات بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ہمارے ہاں بھی رائج ہے لیکن ہم کچھ ایسا ڈراما کر لیتے ہیں کہ بات سے توجہ ہی ہٹ جاتی ہے اور سارا معاملہ شخصیت اور تشدد میں گم ہو جاتا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ سائنس اور فلسفے میں ہمارے ہاں تربیت نہیں کی جاتی، اس لیے فریگی جیسا حوصلہ نہیں بن پاتا ورنہ زندگی تو روزانہ نئے خط لکھتی ہے۔

اس پہ بھائی شیراز یاد آئے کہ سادہ شعاروں اور اطاعت گزاروں کا تمسخر اڑایا کرتے تھے کہ لوگو تم نے کیا فیصلہ کرنا ہے کہ جب فیصلے کا مرحلہ آئے تو تم بین کرتے ہوئے اباجی کو یاد کرنے لگتے ہو، اور ابا جی نے فیصلہ کرنا ہو، تو اپنے ابا جی کو یاد کر کے رونے لگتے ہیں اور معاملات رک جاتے ہیں، کوئی فیصلہ ہو نہیں پاتا۔