سرسید، شبلی اور حالی فکرِ نو کے معمار

ڈاکٹر صغیر افراہیم
ڈاکٹر صغیر افراہیم

سرسید، شبلی اور حالی فکرِ نو کے معمار

ڈاکٹر صغیر افراہیم

مدیر تہذیب الاخلاق

پروفیسر، شعبۂ اردو

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔

جون ۱۷۵۷ء میں رابرٹ کلائیو کے زیر قیادت مٹھی بھر برطانوی فوج نے جس طرح نواب سراج الدولہ کو شکست دی تھی اس نے صوبہ بنگال میں ہی نہیں قرب و جوار کی ریاستوں میں بھی ہلچل پیدا کردی تھی ۔ ۱۷۶۴ء میں بکسر کی لڑائی کے بعد ۱۷۹۹ء میں شیرمیسور ٹیپو سلطان کی شہادت نے ہندوستانیوں خصوصاً مسلم حکمرانوں کے اقتدار کا درپردہ فیصلہ کردیا تھا۔ وہ لوگ جوصدیوں حاکم رہے تھے ان کی حیثیت میں فرق آچلا تھا۔ مسلمانوں کی بگڑتی اور انحطاط پذیر صورتِ حال اورغیر ملکیوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور مذہبی قوت نے بہت سے ذہنوں کو جھنجھوڑ دیاتھا۔ شاہ ولی اللہ کی تحریک مجاہدین، مجنوں شاہ کی فقیری ، کرم شاہ کی پاگل پنتھی، حاجی شریعت اللہ کی فرائضی اور تیتومیر کی تحریک نے بیداری کے جتن کیے مگر مفاد پرستوں کے سامنے ان کے عزائم کچھ کام نہ آسکے۔ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے غداروں کی بدولت جانبازوں کوشکست دی،لیکن اس شکست کے بعد بدلے ہوئے حالات میں دانش وروں نے ازسرنو تمام حالات کا جائزہ لیا اور قومی مفادات کے لیے منظم طریقے سے کام کوآگے بڑھایا۔

نو آباد یاتی نظام نے ہندوستانی ذہن کو جدید علوم وفنون کی طرف مائل کرنے کے لیے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔ اُس کے قیام کے پچیس۲۵ سال بعد دلّی کالج نے مغرب کو سمجھنے میں مدد کی مگر ہندوستانیوں کے ذہنوں پر طاری ہونے والے جمود کو توڑنے، اذہان کو متحرک کرنے اور احساس کمتری کو ختم کرنے کا کام علی گڑھ تحریک نے انجام دیا۔ اِس کے روح رواں سرسید احمد خاں تھے جنھیں خوش قسمتی سے رفقاء اور جانشین بھی اپنے ہی جیسے ملے تھے،اور جن کی بدولت قوم کو سنبھلنے، سنور نے اور باعزت زندگی گزارنے کا موقع ملا۔ذرا اُس پُر آشوب دور کا تصور کیجیے جب سات سمندر پارکا طوفان صدیوں کی جمی جمائی بساط کو تباہ وبرباد کرنے کے درپے تھا۔ایسی مشکل گھڑی میں اپنی وراثت کو بچانے اور اپنا وجود برقراررکھنے کی خاطرآہنی عزم وارادے کے حامل چند اشخاص اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور مخالفین کی پروا کیے بغیر قوم کو تحفظ فراہم کرنے کی جدوجہد میں مصر وف رہے۔ وسائل کم مگر حوصلے بلند تھے لہٰذا وہ اصلاح اور فلاح کی ڈگر پر بے خوف وخطر آگے بڑھتے رہے۔ کامیابی نے اُن کے قدم چومے اور وہ تاریخ میں امر ہوگئے۔

اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کی عزت، شان وشوکت محض اقتدار کی وجہ سے تھی؟ اقتدار کے ختم ہوتے ہی وہ تنزلی کا شکار ہوئے یا وقت کی نزاکت کو سمجھنے سے قاصر رہے، آپسی رسہ کشی، تعلیمی نظام میں پیدا ہونے والی وسعت سے دُوری یا پھر اپنی غفلت کی بدولت ابتری میں مبتلا ہوئے ہیں۔بہر حال انتشار و خلفشار کی صورتِ حال پر سرسید لکھتے ہیں:

’’مگر میں نے غور کیا کہ یہ سب فروعی باتیں ہیں، اصلی سبب سوچنا چاہیے کہ قوم پر یہ مصیبت کیوں پڑی اور کیوں کر دُور ہوسکتی ہے۔ اس کا یہ جواب ملا کہ قوم میں تعلیم وتربیت نہیں تھی اور انگریزوں سے، جن کو خدا نے ہم پر مسلط کیا ہے، میل جول اور اتحاد نہ تھا۔ اور باہم ان دونوں میں مذہبی اور رسمی منافرت بلکہ مثل آب وزیر کاہ عداوت کا ہونا تھا۔ میں نے یقین کیا کہ اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوتیں تو یا غدر واقع نہ ہوتا، اگر ہوتا تو جو سخت مصیبت گورنمنٹ پر، ملک پر، ہماری قوم پر واقع ہوئی اس قدر نہ ہوتی‘‘۔۱؂

سرسید حال وماضی، قدیم وجدید کا موازنہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’تم اپنے حال کا اپنے بزرگوں کے حال سے مقابلہ کرو، آپ کے بزرگ جس زمانے میں تھے انھوں نے اپنے تئیں اُس زمانے کے لائق بنالیا تھا۔ اس لیے وہ دولت اور حشمت اور عزت سے نہال تھے اور جس زمانے میں کہ ہم ہیں، ہم نے اپنے تئیں اُس زمانے کے لائق نہیں بنایا اور اس لیے نکبت اور ذلت میں ہیں‘‘۔۲؂

سرسید یورپ کی ترقی اور ہماری تنزلی کو بھی موضوعِ بحث بناتے ہیں کہ ہم نے جب نئے علوم و فنون سے چشم پوشی اختیار کی اور اپنی معلومات وایجادات پر اکتفا کرلیا تو ہم میں ٹھہراؤ آگیا۔ مغرب جو کبھی ہم سے سبق حاصل کرتا تھا۔ وہ حصولِ علم کی تگ ودو میں مصروف رہ کر نئی نئی تحقیقات کرتارہا۔ نتیجتاً علوم وفنون کا احیا ہوا، صنعت وحرفت کو فروغ ملا۔ سائنٹفک اپروچ کے ساتھ یورپ میں جب عقل کو بنیادی حیثیت حاصل ہوئی تو مشرق خصوصاً ہندوستان کاایک طبقہ ذہنی انتشار میں مبتلا ہوا، اور یہیں سے آغاز ہوا جارحانہ اور مُدافعانہ جنگ کا۔ ہم قوموں کی نبض شناسی کے قصے گڑھتے رہے اور وہ نبض کی ہر حرکت سے واقف ہوتے گئے۔ ہم جوش میں حدود پار کرتے رہے اور وہ منصوبہ بندی پر عمل کرتے رہے۔ ہمیں اتنے محاذوں میں اُلجھا دیا گیا کہ ہم اپنوں سے ہی مشکوک ہوگئے۔ سرسید اس کشاکش سے گھبرائے نہیں، جھنجھلائے ضرور اور وہ بھی ہماری جہالت پر:

’’اگر ہماری قوم میں صرف جہالت ہی ہوتی تو چنداں مشکل نہ تھی۔ مشکل تو یہ ہے کہ قوم جہل مرکب میں مبتلا ہے۔ علوم جن کارواج ہماری قوم میں تھا یا ہے اور جس کے تکبر اور غرور سے ہر ایک پھولا ہوا ہے، دین ودنیا میں بکار آمدنہیں۔ غلط اور بے اصول باتوں کی پیروی کرنا، بے اصل اور اپنے آپ پیدا کیے ہوئے خیالات کو امور واقعی اور حقیقی سمجھ لینااور پھر ان پر فرضی بحثیں بڑھائے جانا اور دوسروں کی بات کو خواہ کیسی ہی سچی کیوں نہ ہو، نہ ماننا اور لفظی بحثوں پر علم وفضیلت کا دارومدار اُن کا شیوہ تھا‘‘۔۳؂

سرسید کی بیش تر تحریریں خصوصاً مقالات اِس کے گواہ ہیں کہ وہ قوم کو ہٹ دھرمی اور گُل افشانی کے بجائے خود احتسابی کی طرف راغب کرتے ہیں اور مختلف دلائل سے علوم وفنون کے نئے نئے گوشوں کو منتخب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔انھوں نے مشرق و مغرب سے استفادہ کے لیے ترمیم وتنسیخ میں یہ ملحوظ رکھا تھا کہ قدیم تہذیب کی صحت مند روایتوں کا احترام ہو اور نئی چیزوں کی بُرائیوں سے محفوظ رہا جائے۔ اس مشکل ڈگر پرگامزن سرسید کو رفقاء بھی پُرعزم اور روشن خیال ملے تھے۔ مثلاً شبلیؔ نے سیرت اور سوانح دونوں کی قومی اور ملّی تاریخ مُرتب کرنے کی سعی کی۔ حالیؔ نے شاعری کی نئی جہتیں تلاش کرتے ہوئے سوانح اور تنقید کے نئے معیار وضع کیے۔ مولوی ذکاء اللہ نے صحیفہ نگاری کو عروج بخشا۔ نذیر احمد نے افسانوی ادب کے اسلوب اور مزاج کو نیا پیراہن عطا کیا۔ شررؔ نے تاریخ کو ناول بنانے کاکام انجام دیا۔ محسن الملک نے پُرجوش تخاطب اور وقار الملک نے اعلیٰ منتظم کار کی حیثیت سے تحریک کو تقویت پہنچائی۔ محمدحسین آزادؔ نے زبان کو نیارنگ وآہنگ عطا کیا ۔

سرسیدسے نواب اسماعیل تک قوم وملت کے پاسبانوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جن کے زبردست عزائم ، وسیع النظری اور مضبوط قوت ارادی نے ماضی کے مثبت پہلوؤں کو سامنے رکھ کر وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے پر زور دیا اور مسلمانوں کی ترقی کے لیے علم کو بنیادی وسیلہ بنایا۔ ان سب کو مسلمانوں کی علمی اورتہذیبی روایات بہت عزیز تھیں۔اسی لیے انھوں نے اپنے مقالات، خطبات، تاریخ، سوانح، تنقید اور شاعری میں بیش بہا خدمات انجام ہی نہیں دیں بلکہ ہمیں یورپ پر اسپین اور بغداد کے توسط سے مسلمانوں کے عظیم کارہائے نمایاں بھی یاد دلائے ہیں۔

سرِ دست سرسید، شبلی اور حالی کا ذکر مقصود ہے، سرسید پر کچھ گفتگو ہوچکی ہے۔ اب شبلیؔ اور حالیؔ کو دیکھیے وہ بھی محض اُن کے تعلیمی تصورکے تعلق سے۔ تاریخ شاہد ہے کہ شبلی سرسید سے محض متاثر ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سرسید کو اپنے خوابوں میں بسالیا تھا۔ چوبیس سال کی عمر میں جب وہ اپنے بڑے بھائی مہدی حسن سے ملنے کے لیے ایم.اے.او. کالج آئے تو ان کا مقصد بھائی کی چاہت کے ساتھ ساتھ اُس شخص کے دیدار کرنے تھے جس کو انھوں نے اپنے تصورات وتخیلات میں سجا بسا رکھا تھا۔ قصیدہ کے پیرائے میں لکھی ہوئی وہ عقیدت ومحبت سرسید کو اس حد تک پسند آئی کہ احباب کو کئی بار سُنایا اور پھر ۱۵؍اکتوبر ۱۸۸۱ء کے علی گڑھ گزٹ میں اُسے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع بھی کرایا۔ کالج کی اقامتی زندگی کو دیکھنے کے بعد شبلیؔ بھی قوم کی فلاح وبہبود کے بارے میں سوچتے رہتے۔ اتفاق کہ ڈیڑھ سال بعد ہی ایم.اے.او. کالج کو مشرقی زبان کے ایک معلم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ شبلیؔ نے درخواست بھیجی، جو منظور کرلی گئی۔ آناً فاناً فارسی وعربی کے اُستاد کی حیثیت سے اُن کا تقرر ہو گیا۔ سرسید کی خواہش کے مطابق وہ اُن ہی کے بنگلے سے متصل مکان میں رہنے لگے۔ سرسید اُنھیں ہرپل مطالعہ میں مصروف، پڑھتے ہوئے دیکھتے۔ اُن کے اِس ذوق وشوق سے بے پناہ متاثر ہوکر سرسید نے شبلی کو اپنے خاص کتب خانہ سے استفادہ کی اجازت دے دی ۔ ’حیات شبلی‘ میں درج ہے:

’’’سرسید نے مجھے اپنے کتب خانہ کی کتابوں کو دیکھنے کی عام اجازت دے دی تھی۔۔۔ میرا یہ حال تھا کہ الماریوں کے سامنے گھنٹوں کھڑا رہتا، کبھی تھک کر زمین پر ہی اکڑوں بیٹھ جاتا، سرسید نے جو یہ کیفیت دیکھی تو سامنے کرسی رکھوادی‘‘۔ ۴؂

شبلیؔ عوام وخواص ، اساتذہ اور طلبا سبھی میں بے حد مقبول تھے۔ وہ درس و تدریس کے علاوہ مختلف درجات کے طلبا کو درس قرآن ، دینی واخلاقی تربیت دیتے اور تصنیف وتالیف کی طرف اُنھیں مائل کرتے۔ اس تعمیری اور اجتہادی عزم کو دیکھ کر سرسید نے اُنھیں ۱۸۸۷ء میں ، لکھنؤ میں منعقد ہونے والی ایجوکیشنل کانفرنس میں توسیعی خطبہ کے لیے راغب کیا۔ شبلی نے کانفرنس کے لیے ’’مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم‘‘ کے عنوان سے ایک پُرمغز لکچر تیار کیا جو۲۷؍دسمبر کے دوسرے اجلاس میں پیش کیا گیا اور جس نے پورے ادبی اور تعلیمی حلقہ میں دھوم مچادی۔ بعد میں اس تاریخی خطبہ نے رسالہ کی صورت اختیار کرلی۔ عبدالحلیم شرر نے اس کے تعلق سے لکھا ہے:

’’۔۔۔سید صاحب کی توجہ دلانے سے وہ تاریخ ۔۔۔ کی طرف متوجہ ہوئے جس کا پہلا نمونہ ’’مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم‘‘ پر اُن کا لکچر تھا جسے انھوں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے دوسرے یا تیسرے اجلاس میں پیش کیا تھا۔ لکچر مسلمانوں کی نظر میں بالکل نئی اور دلچسپ چیز تھا، چنانچہ جب اس پُردلگداز‘ میں ریویوہوا ہے تو کوئی نہ تھا کہ اس کے دیکھنے کا مشتاق نہ ہوگیا ہو۔۔۔‘‘۵؂

شبلیؔ اکثر سوچتے کہ کیا قدیم وجدید، مشرقی اور مغربی تعلیم کی راہیں الگ الگ ہیں؟ ہیں تو کیوں؟ کس طرح دونوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یکسوئی اور دلجمعی سے غوروفکر ، مطالعہ ومشاہدہ کرکے رفقاء سے تبادلہ خیال، بحث ومباحثہ کرتے ۔رفتہ رفتہ اُن کے ذہن میں قدیم وجدید تعلیم کا معیار ومقصد واضح ہوتا گیا۔ اسی لیے انھوں نے دونوں نظامِ تعلیم میں اصلاح وترمیم کی تجاویز پیش کیں جن پراتفاق بھی ہوا اور اختلاف بھی۔ اُن کے دور دراز کے سفر کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ صحیح صورتِ حال معلوم کرسکیں۔ عالمی سطح پر اُن کے سامنے تین طرح کے ادارے تھے۔

۱۔    قدیم طرز کے مدارس۔

۲۔    جدید طرز کے جامعات۔

۳۔    قدیم وجدید طرز کو اپناکر چلنے والے ادارے۔

لہٰذا انھوں نے تینوں طرز کے تعلیمی اداروں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا۔ غوروفکر کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مغربی تعلیم کے ساتھ مشرقی علوم کے حصول کی وکالت کی۔ مقالاتِ شبلی کے حصہ سوم میں وہ لکھتے ہیں:

’’جو لوگ قدیم عربی مدارس کو بے کار بتاتے ہیں، وہ بھی تسلیم کرلیں گے کہ دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں ہے، صرف ہم کو ان کا استعمال صحیح طور سے کرنا چاہیے‘‘۔۶؂

شبلیؔ انگریزی کو ہی نہیں یورپ کی دیگر زبانوں کو بھی پسند کرتے تھے اور جدید تعلیم کو حاصل کرنا ضروری سمجھتے تھے مگر اس تاکید کے ساتھ کہ ہم اپنی قدیم تعلیم کے مثبت اثرات سے کسی طور چشم پوشی اختیار نہ کریں:

’’میرا ہمیشہ سے یہ خیال ہے اور میں نہایت مضبوطی سے اس پر قائم ہوں کہ مسلمان مغربی علوم میں گوترقی سے کسی مرتبہ تک پہنچ جائیں لیکن جب تک ان میں مشرقی تعلیم کا اثر نہ ہو، ان کی ترقی مسلمانوں کی ترقی نہیں کہی جاسکتی۔ بے شبہ مشرقی تعلیم کی جو موجودہ اسکیم ہے وہ نہایت ابتر وغیر ضروری ہے لیکن اسی تعلیم میں ایسی چیزیں بھی ہیں جو مسلمانوں کی قومیت کی روح ہیں اور جس تعلیم میں اس روحانیت کا مطلق اثر نہ ہو وہ مسلمانوں کے مذہب، قومیت، تاریخ کسی چیز کو بھی زندہ نہیں رکھ سکتی‘‘۔۷؂

شبلی کی طرح حالی بھی علی گڑھ تحریک کے رُکنِ اساسی ہیں وہ پانی پت ضلع کرنال کے ایک صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ حالیؔ تخلص اور شمس العلماء ان کاخطاب تھا۔ دہلی میں ذوقؔ ، شیفتہؔ اور غالبؔ کی صحبت میں رہے۔ اور ان بزرگوں کی وفات کے بعد وہ لاہور چلے گئے جہاں انھوں نے کرنل ہالرائڈ اور محمدحسین آزاد سے فیض اُٹھایا۔ دہلی کے اینگلوعربک کالج میں عربی کے مدرس کی حیثیت سے تقرر ہوا، تو سرسید کے قریب آئے جن کے کارناموں سے وہ غائبانہ طور پر واقف تھے۔ ذہنی ہم آہنگی اور بے لوث خدمت کے جذبے نے اُن کو سید والا گوہر کے اور بھی قریب کردیا۔

سرسید نے جس سال (۱۸۶۴ء میں) غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور انگریزی مدرسہ قائم کیا، حالیؔ نے اُسی سال ’’مولود شریف‘‘ لکھی۔ در اصل یہ مشرق کو مغرب سے اور مغرب کو مشرق سے ملانے کی غیر شعوری کوشش تھی جس نے دسمبر ۱۸۷۰ء میں ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی صورت میں عملی شکل اختیار کی۔ ۱۸۷۵ء میں سرسید مدرسۃالعلوم کے ذریعے حصولِ علم کی تحریک چلاتے ہیں تو اُس سے ایک سال قبل حالیؔ ’’مجالس النساء‘‘ کے توسط سے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کا خاکہ تیار کرتے ہیں، اور ڈپٹی نذیر احمد کی طرح مُحسنِ نسواں بن کر سامنے آتے ہیں۔ راشد الخیری اور شیخ عبداللہ اُن سے متاثر ہوتے ہیں ’’پاپامیاں‘‘ اپنے رسالہ ’’خاتون‘‘ میں اُن کی نظم ’’چُپ کی داد‘‘ کو بڑے اہتمام سے شائع کرتے ہیں۔ سید ممتاز علی ’’تہذیبِ نسواں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’حالیؔ نے سب سے پہلے عورت کی مظلومیت پر آواز اُٹھائی ہے‘‘۔

بلاشبہ حالیؔ تعلیم وتربیت کے زبردست حامی تھے اور سرسید پر فدا ہونے کا سبب بھی یہی تھا کہ سید والاگوہر نے علم کے فروغ کے لیے تن، من، دھن کی بازی لگادی تھی۔ ’’حیاتِ جاوید‘‘ میں حالیؔ نے اس کا بار بار اعتراف کیا ہے کہ ’’سرسید نے تمام خرابیوں کی اصلاح اور مشکلات کا حل اس بات میں دیکھا کہ قوم میں تعلیم کی اشاعت کی جائے‘‘۔ اُن کی بے پناہ عقیدت کا اظہار ’’حیاتِ جاوید‘‘ کے اِس اقتباس سے عیاں ہے:

’’کسی بزرگ کا قول ہے کہ ’’اچھے دوست کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گنجان میوہ دار درخت کہ جب تک سرسبز ہے، اس کے سایہ میں راحت ملتی ہے اور اس کے پھل سے لذت حاصل ہوتی ہے اور جب خشک ہوگیا تو اپنی لکڑی سے طرح طرح کے فائدے پہنچاتا ہے‘‘۔ یہی مثال ہمارے ہیرو سرسید کی تھی، وہ بھی مسلمانوں کا ایک ہی دوست تھا، جب تک زندہ رہا، اپنے ہاتھ ، پاؤں، زبان، قلم ، جان اور مال سے اُن کی مدد کرتا رہا اور جب مرگیا تو اپنی محبت اور اپنے کام کی عظمت کا نقش لوگوں کے دلوں میں یادگار چھوڑ گیا تاکہ ان کی بھلائی کا کام، جو اس نے ادھورا چھوڑا ہے اس کو سب مل کر پورا کریں‘‘۔۸؂

علی گڑھ تحریک کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اس سے وابستہ افراد میں زبردست ذہنی ہم آہنگی اور جذبۂ معاونت و موافقت بدرجۂ اتم موجود تھا۔ رنگ ،نسل، ذات یا عمر کے اعتبار سے کوئی تخصیص وتمیز نہ تھی۔ جونیئر اور سینئر کے پاس ولحاظ نے جس نے بعد میں طنز و ہتک کی شکل اختیار کرلی اُس سے یہ تحریک اپنے ابتدائی دور میں بالکل مبرا تھی۔ سامنے کی بات ہے کہ شبلی، حالیؔ سے بیس سال اور سرسید سے چالیس سال چھوٹے تھے لیکن صلاح ومشورہ ، کام کاج اوربرابری کا مرتبہ ومقام حاصل تھا۔ رویہ میں کوئی بھی فرق نہیں تھا۔ تبھی تو مذکورہ تحریک نے کامیابی کے قدم چومے، ذہنوں پر کبھی نہ مٹنے والے نقش ثبت کیے۔

حالیؔ نے سرسید تحریک سے وابستہ ہوکر زبان وادب اور تہذیب وثقافت میں نئی توانائی پیدا کی۔ شاعری کی ابتداء غزل سے کی۔ اُن کے کلیات ودیوان میں سبھی اصناف شعر شامل ہیں۔ شاعری پر مدلل بحث کرتے ہوئے اُس کے اصول متعین کیے، قصیدہ اور غزل کی مذمت، مرثیہ اور مثنوی کی حمایت کی۔ نظم جدید کے تو وہ موجد قرار پائے۔

حالیؔ نے شاعری کو ’’علم اخلاص کا نائب مناب اور قائم مقام قرار دیا‘‘۔ دُور ازکار مضامین کو شاعری کے لیے بوجھ تصور کیا ۔ حقیقی جذبات واحساسات، سادگی، اصلیت اور واقعیت پر زور دیا۔ دراصل وہ شاعری کو لفظی اور معنوی خصوصیات میں فطرت کے قریب دیکھنا چاہتے تھے اور مبالغہ آرائی سے ممکن حد تک گریز کرنے کی تاکید کرتے تھے۔اپنی نظموں کے مجموعہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

’’اعتراف کرتا ہوں کہ طرزِ جدید کا حق ادا کرنا میری طاقت سے باہر تھا۔ البتہ میں نے اردو زبان میں نئی طرز کی ایک ادھوری اور ناپائیدار بنیاد ڈالی ہے۔ اس پر عمارت چُننی اوراس کو ایک قصرِ رفیع الشان بنانا ہماری آئندہ ہونہار اور مبارک نسلوں کاکام ہے‘‘۔

’’پیروئ مغربی‘‘ کی شعوری کوشش کے توسط سے موضوعی نظموں کو قدیم وجدید رنگ سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کو ’’روحِ عصر‘‘ سے متصل کیا۔روایتی عاشقانہ مضامین، قافیہ پیمائی اور آرائشی اسلوب کو ترک کرنے کی ترغیب دی۔ اس عملی کاوش سے انھوں نے پُرتکلف اسلوب کو جلد ہی سادہ بیانی میں بدل دیا، اُن کا کہنا تھا ؂

تمہیں اپنی مشکل کو آساں کروگے

تمہیں درد کا اپنے درماں کروگے

تمہیں اپنی منزل کا ساماں کروگے

کروگے تمہیں کچھ اگربیاں کروگے

کچھ نیا کر گزرنے کے عمل سے ہیئتی حصار ٹوٹا، اکائیت وجود میں آئی۔ انفرادی تجربات اور شخصی واردات کو آزادانہ کینوس ملا۔ ذخیرۂ الفاظ میں وسعت پیدا ہوئی اور نئے نئے موضوعات کی تلاش شروع ہوئی۔ اخلاقی نصب العین اور فکرواستدلال کے رجحان نے حقیقت پسندی کا راستہ ہموار کیا نیزمادی قدروں کو اہمیت دی۔ حیاتِ سعدی، یادگارِ غالب، حیات جاوید اور مقالاتِ حالیؔ نے نثر کے دامن کو وسعت بخشی۔ مذہبی، ارضیاتی، اصلاحی، سوانحی، تنقیدی اور تحقیقی رحجان کوفروغ حاصل ہوا۔ حالیؔ کایہ بھی بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے خواتین کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دی۔ مولودِ شریف، تریاق مسموم، مجالس النساء، چُپ کی داد، مناجات بیوہ کے ذریعے احساس وشعور کی راہیں وا کیں اور براہ راست عوام کو پیغام دیا:

ذرہ ذرہ ہے مظہر خورشید

جاگ اے آنکھ دن ہے رات نہیں

حالیؔ کی جرأت رندانہ نے طرزِ فکر اور طرزِ ادا میں تبدیلی پیدا کی۔ اُن کا اصل محرک عوام کو بیدار کرنا اور ادب کوقوم کی فلاح وبہبود کا وسیلہ بنانا تھا۔وہ باغی نہیں مصلح قوم تھے۔ اُن کی روشن خیالی اور اصلاحی تجاویز زبان وادب کی ترویج میں بے حد معاون ثابت ہوئیں۔ سبھی نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ حالیؔ نے :

(۱)    جدت، نُدرت اور حقیقت سے کام لیا

(۲)    مثبت اثر ڈالنے والی رسوم کی پساداریپر زور دیا

(۳)    روایات کی جکڑ بندی کے خلاف آواز بلند کی

(۴)    توہمات سے گریز اور عقلیت پسندی کا احساس دلایا

(۵)    عقائد کو شعور کی آنکھ سے دیکھنے اور دکھانے کی سعی کی

(۶)    مغربی علوم سے استفادہ پر اصرار کیا

(۷)    نئے حقائق کو تسلیم کرنے پر عوام وخواص کو رضا مند کیا

(۸)    جدید اصناف کو قبول کرنے کے لیے راہ ہموار کی

حالیؔ کی طرح شبلیؔ کے یہاں بھی فکری استدلال نظر آتاہے وہ لکھتے ہیں:

’’سرسید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ ریفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن جوچیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں۔ ان میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے۔ سرسید کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق وعاشقی کے دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی، ہر قسم کے مضامین اس زور اور اثر وسعت وجامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کرسکتی ہے کہ خود اُس کے استاد یعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں۔ ملک میں آج بڑے بڑے انشاء پرداز موجود ہیں جو اپنے اپنے مخصوص دائرہ مضمون کے حکمراں ہیں لیکن ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جو سرسید کے بارِ احسان سے گردن اٹھاسکتا ہو۔ بعض بالکل ان کے دامنِ تربیت میں پلے ہیں۔ بعضوں نے دور سے فیض اٹھایا ہے۔ بعض نے مدعیانہ اپنا راستہ نکالا تاہم سرسید کی فیض پذیری سے بالکل آزاد کیوں کر رہ سکتے تھے‘‘۔۹؂

جب مقصد عظیم اور نصب العین ایک ہو تو دشواریاں ہی نہیں جزوی اختلافات بھی بے معنی ہوجاتے ہیں۔ حالیؔ ،شبلیؔ اور سرسید کا بنیادی مطمح نگاہ قوم کو پستی سے نکال کر ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا تھا اور اس کے لیے وہ اپنے اپنے نقطۂ نظر سے سوچ رہے تھے۔ سرسید احمد خاں کا زور مغربی تعلیم پر تھا ، شبلیؔ مشرقی علوم کو فوقیت دے رہے تھے اورحالیؔ اپنے اسلاف کی تاریخ میں بھی اس کا حل تلاش کررہے تھے۔ اس طرح تینوں ہی اپنی قوم کو علم کی دولت سے مالا مال کرنا چاہتے تھے۔ یہاں اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بھلے ہی مسلم قوم زوال پذیر ہوئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی وہ عروج کی بلندیوں پر فائز تھی اور علوم وفنون کے میدان میں بھی دُنیا کی رہنمائی کررہی تھی۔ ایسے میں ہمیں یکسوئی سے وہ اسباب بھی تلاش کرنے چاہیے کہ عروج پر پہنچی ہوئی قوم زوال کی طرف کیوں کر مائل ہوئی۔ مختلف زاویوں سے وجوہ کا مطالعہ کرتے ہوئے سرسید،شبلیؔ اور حالیؔ نے ماضی کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا اورروشن مستقبل کا منصوبہ بنایا۔ اس پس منظر میں سوچیں تو علی گڑھ کے یہ بنیادی ستون اپنے اپنے طور پر، نظریاتی اعتبار سے نہ صرف دُرست ہیں بلکہ تینوں کامقصد قوم کی ترقی اور اس کا عروج رہا ہے۔ بڑے مقصد کے حصول کے لیے جزوی اختلافات بے معنی ہوجاتے ہیں۔

یہ خیال کلی طور ہمارا ذہن قبول نہیں کرتا کہ شبلی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے علی گڑھ چھوڑکر چلے گئے تھے اور اپنے نظریے کے فروغ کے لیے ندوۃ العلماء کو تقویت بخشی اور پھر دارالمصنّفین کی بنیاد رکھی۔ ان عظیم الشان اداروں کاخاکہ ان کے ذہن میں بہت پہلے سے تھا۔ سبب یہ نہیں بلکہ حقیقت یہ محسوس ہوتی ہے کہ سرسید کے رحلت فرمانے کے بعد شبلی اس قدر غم زدہ اور بد دل ہوگئے کہ ان کو سرسید کی غیر موجودگی ہر لمحہ کھٹکنے لگی تھی۔ شہر علی گڑھ سے دورہونے کے بعد بھی وہ ذہنی طور پر سرسید تحریک سے سے وابستہ رہے۔البتہ حالی نے حیاتِ جاوید، باغِ سرسید کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر لکھی۔ اپنے پیرومرشد کی رحلت کے بعد، شبلیؔ بے حد غمزدہ حالت میں شہرِ علی گڑھ سے دُور چلے گئے تو حالیؔ نے موافقت اور معاونت پر اور بھی زور دیا تاکہ علی گڑھ کے تعلیمی اور تہذیبی ماحول پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔

بنیادی امر یہ ہے کہ ذاتی اختلاف ہونا یا افراد سے اختلاف ہونا ممکنات میں تو شامل ہے لیکن وسیع النظری کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بڑے مقصد یا مشن سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے جس سے آج کل ہم لوگ نبرد آزما ہیں۔آج کے حساس ماحول میں اس جانب اور بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ ۱۸۵۷ء کے بعد کس حد تک تبدیلی آئی تھی؟ انتہائی مشقت سے آئی مثبت تبدیلی کے اثرات کیوں زائل ہوتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ کل سرسید، شبلی اورحالیؔ نے قوم کوڈھارس بندھائی تھی،قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے جذبہ کوفروغ دیا تھا۔ آج کا ادب یہ فریضہ انجام دینے سے کیوں قاصر ہے؟ مسدس میں حالی نے جو قوم کی زبوں حالی کا مرثیہ پڑھا تھا۔ کیاعالمِ اسلام کے تناظرمیں اُس کی پھر سے محاسبہ کی ضرورت ہے؟ قومی اور عالمی سطح کی موجودہ صورتِ حال پر اگر ہم سب مل کر ایک نیا تعلیمی لائحہ عمل تیار کریں تو یہ سرسید،شبلیؔ اور حالی کو نہ صرف سچا خراج عقیدت ہوگا بلکہ اس سے ملک وملت کاوقار بھی بلند ہوگا۔

حوالے و حواشی

۱؂    حیات سرسید، نور الرحمن، ص:۱۵

۲؂    لیکچرس سرسید احمدخاں، ص:۴۱

۳؂    لیکچرس سرسید احمدخاں، ص:۴۱

۴؂    حیاتِ شبلی، ۱۳۵

۵؂    حیاتِ شبلی ، ص:۱۶۰

۶؂    مقالات شبلی،حصہ سوم، ص:۱۴۳

۷؂    شبلی: سفرنامہ روم ومصر وشام، مطبع معارف، اعظم گڑھ، ۱۹۴۰ء، ص:۱۸۶

۸؂    بحوالہ سرسید مشاہیر کی نظر میں، تہذیب الاخلاق،ج:۵، اکتوبر ۱۹۸۶ء، شمارہ:۱۹۔۲۰، ص:۷۵

۹؂    مقالات شبلی، جلد دوم،ص:۵۷