انسان سازی

انسان سازی

انسان سازی

از، نصیر احمد

دوش ديدم که ملائک در ميخانه زدند‬

‫گل آدم بسـرشتـنــد و به پيمانه زدند‬

‫حافظ

یہ تو ہے انسان سازی کام ہی ایسا ہے کہ پارسائی کا احساس فزوں ہو جاتا ہے اور کچھ نشہ بھی ہو جاتا ہے۔ کچھ انسان سازوں کا نشہ تو اترتا ہی نہیں چاہے نتائج کتنے ہی بد تر کیوں نہ ہوں۔ اس معاملے میں فرینکسٹائین کا خالق تو کچھ بہتر نظر آتا ہے جس کے نتائج کچھ اتنے بھی بد تر بھی نہ تھے کہ فرینکسٹائین بد صورت تو تھا مگر اس کا دل تو سیاہ نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی ناول کے خالق نے فرینکسٹائین کو جان سے مار دیا۔

فلسفی نیٹشا بھی انسان سازی کے زعم میں مبتلا تھا اور اس کے افکار بیسویں صدی میں انسان سازی کے پروجیکٹس پر بہت اثر انداز ہوئے۔ اسی بابت میں وہ اپنی شاندار سی شاعرانہ نثر میں لکھتا ہے:

میں تمھیں بالائے انسان تعلیم دیتا ہوں۔ (ویسے بالائے مرد لکھنا چاہیے کہ خواتین سے نیٹشا کو دشمنی ہی بہت تھی۔) انسان پہ فتح پانا ضروری ہے۔ انسان کو مفتوح کرنے کے لیے تم نے کیا کیا؟ جتنے بھی وجود ہیں انھوں نے اپنے سے بہتر وجود تخلیق کیے ہیں، تم کیوں انسان کو فتح کرنے کی بجائے درندے رہنے پر مُصِر ہو؟ یہ بندر سا انسان کیا ہے؟ جسے دیکھ کر ہنسی آتی ہے، یا درد بھری شرمندگی ہوتی ہے۔ سنو میں تمھیں بالائے انسان تعلیم دیتا ہوں۔ اور یہ بالائے انسان (فوق البشر بھی کہہ لیں) دنیا کا جوہر ہے۔ اپنے ارادے سے کہو کہ یہ بالائے انسان دنیا کا مقصد بن جائے۔ بھائیو، زمین سے وفا کرو، اور ان کی باتوں پر کان نہ دھرو جو دوسری دنیا کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ تو زہر گھولتے ہیں، پتا نہیں اس بات سے آگاہ ہیں کہ نہیں۔ وہ زہر میں گھلے، زندگی سے نفرت میں مبتلا گل سڑ رہے ہیں، اور دھرتی ان سے بے زار ہے، انھیں بھول جاؤ۔

کبھی خدا کے خلاف گناہ بہت بڑا گناہ گنا جاتا تھا۔ لیکن خدا تو م٭ گیا اور گناہ گار بھی اس کے ساتھ م٭ گئے۔ اب دنیا کے خلاف گناہ ہی سب سے بھیانک گناہ ہے۔ اور یہ دنیا کے خلاف گناہ ہے کہ جو سمجھ میں آ نہیں سکتا اس کے دُرُوں کے تخمینے لگائے جائیں اور دنیا کے مقاصد فراموش کر دیے جائیں۔

تم کیسا عظیم تجربہ کر سکتے ہو؟ یہ تحقیر کا لمحہ ہے۔ اسی لمحے تمھاری خوشی، تمھاری عقل، تمھاری پارسائی بھی تمھارا تعفن اجاگر کرتی ہے۔

اسی لمحے تم پوچھتے ہو کہ یہ خوشی کو کیا ہوا؟ یہ خوشی، غربت، گندگی اور گرا ہوا اطمینان ہے (ھاھا، اے آر وائی اور جیو وغیرہ دیکھ کر یہ احساس ویسے ہوتا ہے۔) یہ ایسی نہیں ہونی چاہیے۔ خوشی کو تو وجود کی دلیل بننا چاہیے۔

اسی لمحے تم پوچھتے ہو کہ یہ نیکی کو کیا ہوا؟ ابھی تو مجھے غصہ ہی نہیں آیا۔ اپنی بدی اور نیکی سے میں کتنا بے زار ہوں۔ یہ بھی  غربت کی ماری گندی اور گری ہوئی مسرت ہے۔

اسی لمحے تم پوچھتے ہو کہ یہ عقل کو کیا ہوا؟ کیا یہ علم کے لیے ایسے سر گرداں ہے جس طرح بھوکا شیر شکار کے لیے؟ یہ بھی عسرت زدہ، تعفن آلود، گری ہوئی خوشی ہے۔

انسان درندے اور بالائے انسان کے بیچ بندھی ہوئے رسی ہے، کھائی کے اوپر تنی ہوئی رسی۔ انسان کی عظمت پل ہے، منزل نہیں۔ انسان میں جس سے محبت کی جا سکتی ہے وہ بس ایک غمزہ ہے جس کی تابانی ماند پڑ رہی ہے۔

میں تمھیں کہتا ہوں کہ اپنے اندر اتنا اودھم مچا دو تا کہ تم ایک ناچتے ہوئے تارے کو جنم دے سکو۔

ہائے وہ وقت آ رہا ہے، جب انسان ناچتے ہوئے تارے کو جنم نہیں دے سکے گا۔ ہائے گھناؤنے انسان کی آمد کا وقت آ رہا ہے جسے اپنے آپ سے گِھن بھی نہیں آئے گی۔ مجھے دیکھو، میں تمھیں آخری انسان دکھا رہا ہوں۔


مزید و متعلقہ: میگڈا گوبلز، نظریاتی جنون سے بنیادی انسانیت کی کشمکش  از، نصیر احمد

فرمودات نیٹشا: کِن کے ہاتھ آن لگے  انتخاب و ترجمہ  نصیر احمد

مغرب میں فلسفی ہوتے ہیں، ہمارے ہاں رشی منی  از، ںصیر احمد

بلوائی ہیں ہر سُو یہاں  از، نصیر احمد


محبت کیا ہے؟ تخلیق کیا ہے؟ تڑپ کیا ہے؟ ستارہ کیا ہے؟ یہ کہہ کر آخری انسان پلکیں جھپکتا ہے (انسان اگر اس طرح کا آخری انسان بن جائے، انا تو بام سے اترے ہی نہیں۔)

اس چھوٹی سی دنیا میں آخری انسان لنگڑاتا ہے اور جس شے سے بھی ٹکراتا ہے، چھوٹی ہو جاتی ہے، کتا مکھیوں کی طرح۔ یہ ناقابل یقین ہے کہ اس کی تو نسل ہی نہیں ختم ہوتی۔ یہ تو سب سے زیادہ جیے گا۔

ہم نے خوشی ایجاد کی، آخری انسان کہتا ہے اور وہ پلکیں جھپکتے ہیں۔ جہاں زندگی مشکل تھی، وہ سب علاقے وہ چھوڑ آئے ہیں کیوں کہ گرمی چاہیے۔ پڑوسی کے چولہے سے وہ اب بھی آگ لیتے ہیں کیوں کہ گرمی چاہیے۔

وہ اب بھی کام کرتے ہیں کہ کام تفریح مگر ڈرے ہوئے بھی ہیں کہ تفریح دہشت نہ بن جائے۔ اب نہ کوئی امیر ہے، نہ کوئی غریب، کہ دونوں میں تکلیف ہے۔ حکومت کی آرزو بھی ہے؟ مگر اطاعت کون کرے؟ کہ اس میں بھی تکلیف ہے۔

گلہ تو ہے مگر چرواہا نہیں۔ سب ایک جیسے ہیں اور انھیں ایک سی ہی چیزیں چاہییں اور جو مختلف ہے، اس کی منزل پاگل خانہ ہے۔

پہلے سارا جگ پگلا تھا، سب سے سلجھا کہتا ہے اور وہ پلکیں جھپکتے ہیں۔ تھوڑی سی خوشی دن کو، تھوڑی سی رات کو لیکن پتر ماندے نہ ہونا۔ آخری انسان کہتا ہے اور وہ پلکیں جھپکتے ہیں۔

اور اودھم بھی مچا لیکن ناچتے ہوئے ستاروں کا جنم نہیں ہوا بَل کہ ناٹزیوں اور فاشسٹوں کی شکل میں جوشیلے سے غنڈوں کا عروج ہوا جن کی وجہ سے انسانیت نے بہت سی تکلیفیں اٹھائیں اور اب بھی اٹھا رہی ہے۔ نیٹشا کو ناٹزیوں نے اپنے پیغمبر کا درجہ دے دیا  اور ایڈولف ہٹلر اور دوسرے ناٹزی نظریاتیوں نے نیٹشا کی عظمت کے بہت سے گُن گائے۔

نیٹشا کی حمایت بھی بہت ہے اور ناٹزیوں کا نیٹشا کو اپنانا اجتہادی غلطی سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کے حق میں بہت مقالے بھی لکھے جاتے ہیں اور اس میں اچھے دلائل بھی دیے جاتے ہیں کہ نیٹشا کی تفہیم ممکن نہیں ہے اور چُوں کہ اس کی نثر شاعرانہ ہے، اس لیے تفسیروں کی گنجائش بھی بہت ہے۔

ہمارے دورمیں کار و بار نے انسان سازی کی کوشش کی اور ایک نیا سوپر مین تخلیق کرنے کوشش کی۔ اس لیے نیٹشا کی بحالی پر رقومات بھی بہت خرچ ہوئیں۔ لیکن اس کی انسان سازی کا خطر ناک پہلو تو ناٹزیوں اور فاشسٹوں اور بعد کار و باریوں نے اپنایا بھی اور اس کے دہشت ناک اثرات بھی نمو دار بھی ہوئے۔ اب بھی جو سفید فاموں کی بر تری کی گفتگو ہو رہی ہے، اس میں نیٹشا کا ذکر والہانہ عقیدت سے ہوتا ہے۔

یہ اثرات بطور حقیقت موجود ہیں۔ لیکن انسان سے بہتر ناچتے ہوئے ستاروں کا تو جنم ابھی بھی نہیں ہوا۔

ہمارے ہاں بھی نیٹشا کی فکر اثر انداز ہوئی مگر وہ انسانیت سے بہتر نر، نیل کنٹھ، نارائین رُو نما نہیں ہوا اور جو سامنے آیا وہ چیختا دھاڑتا، سب سے زیادہ غریبوں کے گھر جلاتا، برچھیوں سے انھیں کاٹتا، غارت گری کے لیے اکساتا ایک گرا ہوا غنڈہ ہی دیکھا جس کو اس شقاوت کے سلسلے میں بڑے بڑے عہدے بھی ملے۔

پاکستان میں تو کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا لیکن ابریشم کی طرح نرم وہ شخصیت کہاں ہے؟ ایسا کچھو نہیں ہے رے۔

مسئلہ یہ ہے کہ انسان جیسے ہوتے ہیں، ان کی تعلیم، صحت، روز گار اور ترقی کے بہتر مواقع ان کی صورت حال میں بہتری لانے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ان کی تعلیم میں فکر کی آزادی، قوانین کا احترام، شہریت اور جمہوری اخلاقیات جیسے  معمولی سے پروجیکٹس شعر زدہ رومانوی نا ممکنات سے بہتر نتائج لا سکتے ہیں۔ یعنی عظمت و پارسائی کے نشے میں گل آدم سے زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیے۔