بلوائی ہیں ہر سُو یہاں

Naseer Ahmed
نصیر احمد

بلوائی ہیں ہر سُو یہاں

از، نصیر احمد

ایک دن وہ کہنے لگے کہ ان افریقیوں کو تھوڑی سی آزادی بھی مل جائے تو ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگتے ہیں۔

اب یہ سن کر ہم کہاں چپ رہتے۔ یہ تو اپنے ہی ہیں جو کبھی کبھار ہمیں چپ کرا لیتے ہیں۔ لاکھ کہا کہ پاکی حرامی کہنا ایک غلط بات ہے لیکن جتنی ہم سرزنش کرتے، اپنے اتنے ہی زورو شور سے خار مغیلاں بچھاتے رہتے۔ اپنا آدمی تو زیادہ تر ایسا ہی ہے کہ جس بات سے کسی کو تکلیف پہنچے، وہ نہ کہے تو اپنا کیسے کہلائے۔

جن کی ابھی بات کر رہے ہیں وہ بھی کوئی غیر نہ تھے، ہمارے اچھے دوست تھے لیکن تعصب کی ایک گٹھڑی انھوں نے بھی اٹھائی ہوئی تھی اور کبھی کبھی ان سے یہ گٹھڑی نہیں سنبھلتی تھی۔

خیر انھوں نے کہا اور ہم غلامی سے شروع ہوئے، کافی دیر تک انیسویں صدی میں نو آبادیوں کی تلاش میں افریقہ میں جو الٹ پلٹ ہوئی تھی، اس کی وجوہات اور نتائج پر تقریر کرتے رہے۔ پھر جنوبی افریقہ میں جو نسلی علیحدگی کا استبداد قائم کیا گیا تھا اس کے بارے میں گفتگو کی۔ آخر میں مدیبا بابا (نیلسن مینڈیلا) کی روشن خیالی اور مفاہمتی پالیسی کو سراہا۔

کافی دیر تک کی مغز ماری کے بعد اس بات پر کچھ اتفاق رائے ہو گیا کہ افریقی جناور نہیں ہیں یہ وقت اور حالات ہی ہوتے ہیں جو کسی کو دلہن اور کسی کو جناور بنا دیتے ہیں۔ اور جناور تو بیلجئیم کا بادشاہ لیوپولڈ بھی تھا جسن نے کانگو اور نواحی علاقوں میں بڑے پیمانے پر نسل کشی کی تھی۔وہ کچھ معذرت خواہ ہوئے، اپنی جہالت پر کچھ دیر اپنے آپ کو کوستے رہے کہ ان میں یہ خوبی تھی کہ اگر ان کا مقدمہ کمزور ہو جائے تو بات مان لیا کرتے تھے۔

لیکن ان کی بات ہمارے من میں اٹکی رہی۔ اور اس پر ہم سوچتے رہے۔ اور ہم نے وقت اور حالات کے ساتھ خیالات کی اہمیت پر توجہ دینا شروع کر دیا۔ اب یہ پیچیدہ سا معاملہ کہ خیالات حالات پر اثر انداز ہوتے ہیں یا حالات خیالات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں یہ کچھ گفتگو کی طرح ہوتا ہے، دونوں ہی ایک دوسرے پر اس طرح اثر انداز ہوتے رہتے ہیں کہ ذمہ داری کا تعین کافی مشکل ہو جاتا ہے۔

آج کل ہمارے ہاں دھرنے اور بلوے کا عروج ہے۔ کبھی اسمبلیوں پر حملے ہوتے ہیں، کبھی سرکاری افسروں کو سیاستدان گالیاں دیتے ہیں اور کبھی وکیل عدالت پر حملہ آور ہو جاتے ہیں، کبھی سڑک پر کوئی لاشے دھر کر چھاتی پیٹتا ہے اور کبھی کوئی سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کرتا ہے۔

سوال یہ بنتا ہے کہ کون سے عوامل ہوتے ہیں جو بلوے کی نفسیات کی پرورش کرتے ہیں؟

کہیں پڑھا تھا کہ فرائڈ کہتے تھے کہ یہ انسان کی عقل اور سماجی کنٹرول کے خلاف ایک جبلی بغاوت کا نتیجہ ہوتا ہے کہ بلوے میں تہذیب کمزور ہو جاتی ہے اور افراد گمنامی، ہجوم اور ہاؤ ہو کی آڑ میں وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جن کی ایک تمنا وہ سالہاسال دل میں پالے رکھتے ہیں۔

فرائڈ کی بات بڑھاتے ہوئے یہ بات کچھ یوں بنتی ہے کہ ایک طرح سے تہذیب جبلتوں کے خلاف سازش ہے جسے زندگی کے تحفظ کے لیے با اکراہ قائم کرنا پڑتا ہے لیکن جبلتوں کی طرف مراجعت کی ایک آرزو موجود رہتی ہے جو جبلتوں کی تسکین کے لیے تہذیب کو کمزور کرتی رہتی ہے اور جب یہ آرزو معاشرتی کننٹرول کے ذرائع یعنی ریاست، قانون، اخلاقیات سے توانا ہو جاتی ہے بلوے کے ذریعے اس آرزو کا اظہار کیا جاتا ہے۔اورہجوم کی بے چہرگی بلوائی کو احتساب سے تحفظ عطا کرتی ہے۔

اور کش مکشی نکتہ ںظر والے بلوے کو ریاستی جبر کے خلاف احتجاج کی ایک شکل کہتے ہوں گے۔ اور توازن پسند بلوے کو توازن کے بگاڑ کے آئینے سے دیکھتے ہوں گے۔معیشت دان بلوے کو معاشی فلاح یا بربادی کے حوالے سے بلوے کو ماپتے ہوں گے۔

ہمارے اندازے کے مطابق جو ہم جا بجا شہری کی بجائے بلوائی دیکھتے ہیں اس کی وجہ جہالت کی مختلف اقسام جو ہم نے اپنے ریاستی ماڈل اور تعلیمی ماڈل کا سالہا سال سے حصہ بنا دی ہیں یہ بلوائی اس کا نتیجہ ہیں۔

مثال کے طور پر ناٹزی اور فاشسٹ ریاست یا کاملیت پرستی کی کسی بھی شکل کی پیروی کے نتیجے میں شہری نہیں بنتے بلکہ غنڈے پروان چڑھتے ہیں اور غنڈے اگر بلوہ نہیں کریں گے تو مال کہاں سے کمائیں گے اور جب بلوے کے نتیجے میں کروڑوں روپے مل رہے ہوں ، تو بلوے کو تو فروغ ملے گا۔ ناٹزی اصولوں پر ربط ملت کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جب بھی ملت مل بیٹھتی ہے، بلوہ ہو جاتا ہے۔

ناٹزی اور فاشسٹ ریاستیں ہم جیسی ریاستوں کی نسبت بہت زیادہ منظم تھیں جس کے نتیجے میں اپنے زیر نگیں معاشروں پر ان کا کنٹرول زیادہ تھا ۔ اس کنٹرول کی وجہ سے یہ ریاستیں عالم گیر بلوے میں ملوث ہو گئیں۔ لیکن ان کا بلوہ بالآخر جمہوریت کے ذریعے کنٹرول کر لیا گیا۔

دوسری وجہ ہمارے ذہن میں انسانیت سے نفرت پر مبنی نصاب اور قومی سطح پر نفرت انگیز گفتگو ہے۔ ناٹزیوں نے ایک فلم بنائی تھی جس کا نام ابدی یہودی تھا۔ڈاکٹر گوبلز کی وزارت کا شاہکار۔

اس فلم میں یہودیوں کو مسلسل بد وضع ، بد شکل، گھناؤنا اور ڈراؤنا، چالاک، موش صفت، بد کرداراور سرطان نما دکھایا گیا تھا جو جرمن نسل کی رعنائیوں کو مسلنے اور کچلنے کے منصوبوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ یہودیوں کی نسل کشی کو ضمیر انسان پر آسان بنانے کی ایک کوشش تھی۔

تو دوستو، ہم نے پاکستانی زندگی میں ابدی یہودی کی طرح کی بے شمار فلمیں دیکھی ہیں اور سنی ہیں۔ اگر آپ کو انگار وادی اور آخری چٹان جیسے ڈرامے یاد ہوں تو آپ ہماری بات کی تائید کر سکتے ہیں۔ ورنہ ٹی وی دیکھ لیں، مطالعہ پاکستان کی کتابیں پڑھ لیں، علمائے کرام کی تقریریں سن لیں آپ کو انسانیت کی اکثریت ہمارے ہاں ناٹزیوں کے ابدی یہودی میں لپٹی ملے گی۔

اور نفرت کی شدت کی انتہا پھر بلوہ ہی ہوتا ہے اور بلوے کو منظم بھی کر لیں تب بھی بلوائی کے اعمال متشدد ہی ہوتے ہیں۔

پھر ریاست کو مذہب کے نام پر ملاؤں کی تحویل میں دے دیا گیا جو قانون کی خلاف ورزی کی ایسی ایسی تاویلیں ڈھونڈ لائے کہ کبھی نسل کشی کارِ ثواب بنی، اور کبھی آمریت ایک بہترین طرز حکومت ٹھہری۔ اور حکومتی سہولیات تک رسائی کے لیے بلوے کی مختلف شکلیں رواج بن گئیں۔ یہ انگریز کا قانون ہے، وہ بدعنوانوں کا قانون ہے، بلوائی طرح طرح کے بہانے گھڑتے ہوئے ریاستی قوانین پر عمل پیرا ہونے سے انکاری ہو گئے۔

اچھے قوانین کا یہ حال ہوا اور خواتین، اقلیتوں ، انسانی آزادیوں اور انسانی حقوق کے خلاف بنائے ہوائے ناٹزی ریاست جیسے قوانین کا تحفظ مذہبی فریضہ قرار پایا اور ان قوانین کی جعلی فضیلتوں پر کوئی ہلکی سی سرد آہ بھی بھر لے وہ قوم و ملت کا غدار قرار پاتا ہے۔ معاشرے میں اثر و رسوخ کے بغیر ہے تو غائب ہو جاتا ہے اور اگر اس کا معاشرے میں کوئی مقام ہے تو اس کے خلاف بلوے برپا ہو جاتے ہیں اور وہ بے چارہ یا بیچاری چھپتے دبکتے پھرتے ہیں۔

اور پھر ثقافتی اعتبار سے بھی بلوہ زندگی کے پر پہلو میں سرایت کر گیا ہے۔ اس کی ایک شکل تو قربت حقیقی کے نام پر اس حال میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جو افراد اپنے آپ پر طاری کر لیتے ہیں کہ جیسے ہی عشق آباد ہوتا ہے تو کبھی ادھر پٹخنیاں کھاتے ہیں اور ادھر لڑھکنیاں۔ ایسا لگتا ہے کہ فرد نے اپنے اعضا کے خلاف ہی بلوہ کر دیا ہو۔ سو وجد کنوں لکھ حال کنوں۔

اب تو ٹیلی کی خبریں بھی مست ملنگ سی ناچتی کودتی آتی ہیں۔ اور اخباری کالم تو اچھا خاصا فکری بلوہ ہوتا ہے، بے سر اور بے تال دھڑدھڑاتا اور بھڑبھڑاتا رہتا ہے کہ نالے کی کوئی لے نہیں ہوتی اور فریاد پابند نے نہیں ہوتی۔

اور محبت کا مثالیہ بھی اسی بلوہ سازی کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے۔ویرو ٹینکی پر چڑھ کے مجمع اکٹھا کر لیتا ہے اور موسٰی کو اچھا خاصا بلیک میل کرنے کے بعد ہی بسنتی میں راحت پاتا ہے۔

لیکن اس سب کے پیچھے ناٹزی قسم کے خیالات موجود ہیں اور یہ خیالات حالات پر ایسے اثر انداز ہوتے ہیں کہ خیالات اور حالات ایک زندان بن جاتے ہیں جن سے مفر کی کوئی صورت بنتی نظر نہیں آتی۔

وہ نیٹشا نے کہا تھا کہ فلسفی بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوتا ہے۔ اس پگلے کو تو ہم ویسے ہی اتنا پسند نہیں کرتے۔ ہمارا خیال ہے کہ فلسفی کو بارود سے ڈھیر سے اٹھا کر گلگشت میں یہ کانفرنس ہال میں کے آئیں اور معاشرتی زندگی پر کاملیت پرستی کے اثرات کم کرنے کی کوئی قومی کوشش کریں۔ تاکہ آنے بلوائی کی بجائے شہری بن سکیں کہ ہمارے ہاں آئین و قوانین کی بھی ایک شاندار وراثت موجود ہے۔ اور جس کسی نے اسے تھوڑا بہت بھی دیکھا ہے، وہ قانون کی عملداری کی تعریف بھی بہت کرتا ہے کہ تھانیدار جرم کا سراغ پا لیتا تھا، جج انصاف پر مبنی فیصلے دیتا تھا، افسر غیر جانبدار ہوتا تھا، سیاستدان پڑھا لکھا ہوتا تھا اور اس کے کچھ اصول بھی ہوتے تھے، مویشیوں کی فلاح کے لیے قائم کیے گئے ادارے اپنے فرائض سے غفلت نہ برتتے تھے، سائیکل پر اگر بتی نصب نہ ہوتی تو چالان ہو جایا کرتا تھا اور ریاست اور حکومت کے نمائندے کی لوگوں میں بڑی عزت بھی ہوتی تھی۔

ایسی حکومت بھی تقسیم کے موقع پر جب کمزور ہوئی تو اس کانتیجہ بھی بلوے کی شکل میں ہی نمودار ہوا تھا جس میں لاکھوں جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔اب تو بلوہ ریت رواج بن گیا ہے اور ریاست پر کروڑوں افرادکی ذمہ داری ہے۔ فیصلہ تو ہم سب نے کرنا ہے کہ بلوائی چاہیے یا شہری؟ اور جب تک بلوائی موجود رہیں گے اس فیصلے کا بوجھ بھی کندھوں پر ٹکا رہے گا۔

باقی رہی ان کی بات، ہم یہی کہیں گے تعمیر میں خرابی دور کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک جگہ کی جا سکتی ہے تو ہر جگہ کی جا سکتی ہے۔