خوشحالی اور شہریت

خوشحالی اور شہریت

خوشحالی اور شہریت

از، نصیر احمد

شہر میں بہت زیادہ اچھی کاریں ہیں، اچھی بات ہے اور ہر اچھی کار بہت زیادہ اثر و رسوخ کی گواہ بھی ہے لیکن یہ اثر و رسوخ شہریت اور شہریوں کی بہتری کے لیے استعمال نہیں ہو رہا۔ شہری ذمہ داریوں سے غافل ایک اچھی زندگی کی موجودی باعث تعجب ہی ہے لیکن کیا کریں کرامتوں کی زمین ہے، سب کچھ ہو سکتا ہے۔

 پرانے شہری کہتے ہیں کہ شہر بگڑ گیا ہے، نئے کہتے بن رہا ہے، ایک معاشرتی تحرک تو ہے لیکن شہری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھی کمی آگئی ہے۔ ایک سادہ سی بات دنیا  بھر کے امیر آدمی سمجھ نہیں پا رہے کہ دولت کا تحفظ شہریت ہی کر سکتی ہے اور اس کے لیے شہریوں کو دولت سے تحفظ دینا ضروری ہے۔

یہ خیال کہ دولت کے حصول کے لیے سب کچھ کرنا ضروری ہے ورنہ مصنوعات  تک رسائی نہ ہو گی اور زندگی رائیگاں ہو جائے گی۔ لیکن جب آپ شہری نہ رہیں تو زندگی تو ویسے بھی رائیگاں ہو جاتی ہے۔  یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ کوئی اس لیے مارا جائے کہ وہ آپ سے مختلف سوچتا ہے اور آپ کچھ بھی نہ کرسکیں۔

 یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ کوئی اس لیے تکلیف سہے کہ آپ نے گاڑی ٹھیک طرح سے نہیں چلائی۔ جس کاروبار سے پیسے کماتے ہیں، وہ دوسروں کے لیے اذیت کا باعث ہے، جس کام کی تنخواہ پاتے ہیں، وہ کام نہ جانتے ہیں، نہ جاننا چاہتے ہیں بس کسی نہ کسی دھوکا دہی میں مصروف ہیں جس کے خطرناک نتائج دوسرے بھگتتے ہیں۔

 یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ آپ نفرت پھیلانے کا کاروبار کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں لوگوں کے جان ومال ضائع ہو جاتے ہیں۔

 یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ آپ ملک کے اعلی ترین عہدوں پر فائز ہیں، دولت بھی ہے، طاقت بھی ہے، شہرت بھی ہے اور اودھے بھائی کی طرح شہر میں رتبہ بھی ہے لیکن آپ شہر کے لوگوں کو انصاف نہیں دلا سکتے۔

 یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ نہ آپ اپنی مرضی کی، نہ اچھی، نہ سچی اور نہ ہی برابری کی بات کر سکتے ہیں حالانکہ آپ کے القابات اور اختیارات فرعون سے بھی زیادہ ہیں۔ اس حساب سے تو فرعونیت غلامی کی بدترین شکل ہے اور یہ روپ دھارنے کے لیے کتنے کشٹ کرتے ہیں لیکن آپ تو شاید بہت تہی دست ہیں۔

 یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ آئین کی، حکومت کی، عدالت کی، اسمبلی کی، پولیس کی، فوج کی موجودگی میں شہر میں بھیانک سے بھیانک گروہ، سنگین سے سنگین تر جرم کر ڈالے تو یہ ادارے نہ جرم روک سکتے ہیں اور نہ انصاف پر مبنی سزا دلوا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اچھے فرد کو کوئی تحفظ دے سکتے ہیں۔ لیکن عوام سے نہ صرف اپنی مقررہ تنخواہیں لیتے ہیں بلکہ اوپر کی تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ وہ بھی کم پڑجاتی ہیں، تو اپنے عہدے کے بلادکار کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈ لیتے ہیں کہ کاندھوں پر بیٹھے فرشتے بھی سوچتے ہوں گے کہ نامہ اعمال میں دولت کدھر سے آئی۔ وہ بھی کہتے ہوں گے ہم تو ہمہ وقت جاگتے اور لکھتے رہتے ہیں، یہ اس نے کب کیا اور کیسے کیا، کچھ سمجھ نہیں آئی۔

 یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ مسلسل دینداری کے نام پر شہریت کو مسلسل برباد کیے جارہے ہیں اور خزانے بھرے جا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں انسانیت سے بے صفت ہوتے جا رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فردوس میں جائیں گے۔

اب دوسروں کی زندگی جہنم بنا کر فردوس میں آشیانہ؟ بنیادی طور پر اپنے مذہب پر بھی کوئی اتنا یقین نہیں ہے، مذہب کو بھی اک بات ہی سمجھتے ہیں جو ہتھیار کی طرح استعمال کی جا سکتی ہے۔ اور بے گناہوں کو توہین مذہب کے الزام میں قتل ہونے دیتے ہیں۔ اس سے تو لاکھ درجے زیادہ ہم جیسے لوگ جنھیں پتا نہیں یہ کیا کیا کہتے رہتے ہیں مذہب کا احترام کرتے ہیں۔

 اگر انسانیت کی خدمت دنیا کے مذاہب کے مقاصد ہیں، تو یہ ایک جمہوری نظام کے تحت ریاستی معاملات میں مذہبی امتیازات کی عدم موجودی سے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں، ایک جمہوری ریاست میں یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر نا انصافی کو قانونی تحفظ دیا جائے۔

امتیاز، نا انصافی، تفریق، زیادتی، جبر، تشدد، قتل وغارت اور قبضہ گیری میں کون سی انسانیت کی خدمت ہے؟ اس سب ظلم و ستم کو اگر انسانیت کی خدمت کسی اچھے معاشرے میں بتائیں، تو پہلے تو وہ آپ کو نفسیاتی علاج کے مشورے دیں گے، پھر پولیس کو اطلاع دیں گے، پھر اس موضوع پر تحقیق ہو گی کہ لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں، تجاویز آئیں گی، بحث مباحثہ ہو گا اور اس طرح کی سوچ کے خاتمے کے لیے بہت ساری کوششیں ہوں گی۔

 یہ بھی کوئی زندگی ہے ایک احمقانہ درندگی کو آپ نے نصب العین بنا لیا ہے۔ اس طرح کی باتیں جلاؤگھیراؤ، لوٹ مار، نسل کشی، دہشت گردی اور بھیانک جرائم کو جنم دیتی ہیں، پرورش کر تی ہیں، اور ایک دن ایسی باتیں کرنے والے اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل جاتے ہیں۔

پرانے شہری بھی ٹھیک کہتے ہیں کہ شہر بگڑ گیا ہے اور نئے شہری بھی شاید  ٹھیک کہتے ہیں کہ شہر بن رہا ہے۔ لیکن شہر، شہری حقوق اور شہری ذمہ داریوں کی عدم موجودی میں نہیں بنتے بلکہ بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔

 کاروں کی موجودی ہزار حوصلہ افزا سہی لیکن کاریں چلانے، اور کاروں میں بیٹھنے والے اگر شہری نہیں ہوں گے، تو پھر حادثے ہی رہ جاتے ہیں۔ اس لیے اپنے اس بے پناہ اثرو رسوخ کو شہری حقوق اور شہری ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ترویج کے لیے بھی کبھی کبھی استعمال کریں ورنہ جیسے ہوتا ہے، اجڑے ہوئے شہروں میں جلی ہوئی کاریں فکر کی خامیوں اور عمل کی خرابیوں اور انسانیت کی عدم موجودی کا ثبوت بن جاتی ہیں۔