پانامہ لیکس فیصلہ سے ڈان لیکس تک کے پس چلمن کیا کہانی ہے؟

Asad Ali Toor aik Rozan writer
اسد علی طور، صاحب مضمون

                                      پانامہ لیکس فیصلہ سے ڈان لیکس تک کے پس چلمن کیا کہانی ہے؟

(اسد علی طور)

سیاسی طور پر پچھلے دو ہفتے بڑے ہنگامہ خیز گزرے ہیں اور میڈیا توقع کے مطابق مشال شہید کی ماں کے آنسو بھلا بیٹھا ہے۔ پانامہ لیکس کے فیصلے کے بعد پے در پے ملکی اُفق پر ایسے واقعات ہوئے جن کو لے کر میڈیا نے یہ تاثر گہرا دیا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اس کے لیے اگر اخباری ہیڈ لائنز چھوڑ کر اور ٹی وی اسکرینوں کےسامنے سے اُٹھ کر تھوڑا “فُٹ ورک” کیا جائے اور بحران کے فریق حلقوں سے ملاقات کی جائے تو صورتحال سمجھنے میں آسانی رہتی ہے۔ ایک عام قاری تو یہ نہیں کرسکتا اور ہمارے اینکر حضرات تو بطورِ خاص اس زحمت سے گریز کرتے ہیں۔ بہرحال جو معلومات پچھلے دو ہفتوں میں اکٹھی کی ہیں اور ان کی بنیاد پر میرا جو تجزیہ ہے وہ پیشِ خدمت ہے۔

پانامہ لیکس فیصلہ سے ڈان لیکس تک

پانامہ لیکس کے فیصلہ کے مضمرات؟

سب سے پہلے پانامہ لیکس کے فیصلہ کی بات کرتے ہیں۔ اس میں میرے لئے سرپرائز کچھ نہیں کیونکہ جس جس جج نے جو لائن دورانِ سماعت لے رکھی تو ہو بہو وہی اپنے اختلافی اور اضافی نوٹ میں نقل کردی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنا وزن تو جےآئی ٹی کے پلڑے میں ڈالا لیکن اُن کا اضافی نوٹ دورانِ سماعت ان کی شریف خاندان پر سخت پوزیشن کی غمازی ہی کرتا ہے۔ جسٹس کھوسہ کو بطورِ قاضی “گاڈ فادر” جیسی مثال سے گریز کرنا چاہئے تھا کیونکہ ججز کے فیصلے بولنے چاہئیں نا کہ وہ “تصوراتی داستانوں” کا سہارا لیں۔

لیکن یہ حوالہ اب کلنک وہ ٹیکہ ہے جو ساری عمر شریف خاندان کی سیاست سے پر لگا رہے گا۔ سب کی نظریں اب جے آئی ٹی پر ہیں کہ کیا میاں صاحب بچ پائیں گے یا نہیں؟ فی الحال ملکی بساط میں بچھی شطرنج پر اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کی ذات کے گرد سرخ دائرہ لگا چکی ہے؛ اس کے لیے بڑی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب کا گھوڑا اب پاکستان میں میاں نوازشریف نہیں بلکہ ریاستی ادارے ہیں۔ کیونکہ میاں صاحب نے جنرل راحیل شریف کو “کرایہ” پر سعودی فوجی اتحاد کو دینے کی منظوری نہیں دی تھی۔ چینی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ نے فی الحال میاں صاحب کی سیاسی پیڑھی تو مریم نواز کی صورت میں بچا لی لیکن کیا وہ میاں صاحب کے لئے بھی اِس حد تک جائیں گے اس کا انحصار مستقبل میں بننے والے منظر نامے پر ہے۔ فی الحال بین الاقوامی برادری کی دلچسپی میاں صاحب میں برقرار ہے کیونکہ میاں صاحب کی صورت میں ان کو “سینٹر رائٹ” کا وہ لیڈر ملا ہے جو پاکستان میں انتہاپسندی کا جوابی بیانیہ نہ صرف دے رہا ہے بلکہ اُس پر عمل بھی کروا رہا ہے۔ جبکہ اس سے قبل “سینٹر لیفٹ” کی پیپلزپارٹی جیسی جماعت بھی یہ کام نہیں کرسکی۔

جے آئی ٹی سے کیا نکلے گا؟

یہ کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی تفتیش کے لئے نہیں بنی جو تشدد کرکے ایک سادہ کاغذ پر انگوٹھے لگوا کر درجنوں قتل متحدہ پر ڈال دیتی تھی۔ بلکہ اس کو سپریم کورٹ میں دستاویزی ثبوت ساتھ لگا کر میاں صاحب کو بری یا مجرم قرار دینا ہوگا۔ شریف خاندان یہ ثبوت شاید نہ دے پائے اس لئے اگر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت نہ کی تو سپریم کورٹ ہی میاں صاحب کا گھر بھیج دے گی اور اگر یہ مداخلت ہوگئی تو شاید کیس ٹرائل کے لیے احتساب عدالتوں کے سپرد کردیا جائے۔

کیا پی ٹی آئی احتجاج کرے گی؟

آرمی چیف اور چیئرمین پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والی ملاقات کا اصل ایجنڈا جنرل راحیل شریف کی سعودی نوکری نہیں تھی بلکہ اصل مقصد عمران خان کو آرمی چیف کا “سمجھانا” تھا کہ آپ براہ مہربانی پانامہ لیکس کا فیصلہ آنے کے بعد سیاست ضرور کریں، جلسے کریں، پریس کانفرنس کریں اور ٹی وی انٹرویوز دیں لیکن اسٹریٹ ایجی ٹیشن کی کوئی کال نہیں دیں گے کیونکہ چینی دوست پریشان ہیں کہ سی پیک کے پراجیکٹس اب پلاننگ فیز سے نکل کر عملی فیز میں آچکے ہیں اس لیے وہ سیاسی عدم استحکام نہیں چاہتے۔

مینیو میں جنرل راحیل شریف کی ملازمت صرف “سائیڈ سرونگ” تھی ورنہ پاکستانی اسکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا “طریقہ واردات” دیکھا جائے تو جنرل راحیل شریف کی سعودی ملازمت پر پی ٹی آئی کی مخالفت اُن کو “سوٹ” کرتی ہے۔ جیسا کہ وہ ماضی میں بھی امریکہ کو فوجی اڈے بھی دیتے تھے لیکن تمام فرقوں کے دُھتکارے مولویوں کو دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے متحرک کر دیتے تھے تاکہ دوستوں کو دکھایا جاسکے کہ کتنی مخالفت مول لے کر وہ اُن پر یہ احسان کررہے ہیں۔

ہتھیار دہشت گرد احسان اللہ احسان نے ڈالے یا جی ایچ کیو نے؟

ایک بڑا واقعہ پچھلے دنوں پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کی طرف سے یہ اعلان تھا کہ تحریک طالبان کے سابق اور جماعت الاحرار کے موجودہ ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو پاک فوج کے حوالے کردیا ہے۔ بڑی خبر تھی سب حیران بھی ہوئے لیکن حیران کُن اور پریشان کُن طور پر بعد ازاں فوج نے دہشت گردوں کی قومی میڈیا پر تشہیر نہ کرنے کی سیاسی و عسکری قیادت کی منظور شدہ پالیسی کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نہ صرف احسان اللہ احسان کے انٹرویو کی وڈیو “آفیشلی” ریلیز کر کے تمام ٹی وی چینلز پر چلوائی بلکہ ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر سے انتہائی خوشگوار ماحول میں ستر ہزار پاکستانی ماوں کی گود اجاڑنے والے قاتل کا انٹرویو بھی کروا ڈالا۔

اگر بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں کے پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا انکشاف ہی کروانا تھا تو جناب یہ بات تو قوم کو پچھلے کئی سال سے “رٹا” دی گئی ہے۔ بہتر ہوتا آپ تمام ممالک کے پاکستان میں تعینات سفارتکاروں کو بلواتے اور ان کے سامنے احسان اللہ احسان کو پیش کرکے یہ اعتراف اُن کو سنوا دیتے۔ قوم کے زخموں پر یہ نمک چھڑکنے کی ضرورت نہیں کہ آپ ہمارے قاتلوں کو نہلا دُھلا کر صاف سُتھرے کپڑے پہنا کر مسکراتے چہرے کے ساتھ ٹی وی پر پیش کرتے جیسے وہ ایک جیٹ بلیک دہشت گرد نہیں بلکہ گھر میں بیگم صاحبہ کے پرس سے پانچ ہزار روپے نکال کر بھاگا ہوا گھریلو ملازم ہو۔

معروف تحقیقاتی صحافی اعزاز سید کی خبر کے مطابق لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان نے فوج کی اس یقین دہانی پر ہتھیار ڈالے کہ اس کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں ہوگی۔ تو جناب ہم نے ان دہشتگردوں کو “آپ” ہی کے دباؤ پر ٹرائل کرنے کے لیے ملٹری کورٹس بنا کردی تھیں لیکن اگر آپ نے ان کو ڈرائی کلین کرنا ہے تو بتا دیجئے فوجی عدالتوں کی ترمیم واپس لے لیتے ہیں آپ دہشت گردوں کے ساتھ ٹی وی اسٹوڈیوز میں ماڈلنگ کرلیں۔

ڈان لیکس کی تحقیقاتی کمیٹی کے نتائج پر سول ملٹری تنازع کیا ہے؟

وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے ڈان لیکس کی تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کا ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس میں لکھا تھا کہ وزیراعظمپانامہ لیکس فیصلہ سے ڈان لیکس تک اپنے معاونِ خصوصی برائے امورِ خارجہ طارق فاطمی اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کو  عہدے سے ہٹانے کا حکم دیتے ہیں۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں فوج کے تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹ داغ دی جس میں اس نوٹیفیکیشن کو “مسترد” کرنے جیسے سخت الفاظ کا استعمال کیا گیا۔ اس ٹویٹ کا آنا تھا کہ تجزیہ کاروں اور اینکرز کے ایک مخصوص ٹولے نے ٹی وی اسکرینوں پر جھوم جھوم کر سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کی نوید دیتے ہوئے اپنی مالی وابستگیوں کے عین مطابق راولپنڈی کی قصیدہ گوئی شروع کردی۔

تاہم حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ تمام سینئر اور صحافتی بیک گراونڈ رکھنے والے اینکرز نے منتخب وزیراعظم کے احکامات کو ایک سرکاری ملازم کی طرف سے سوشل میڈیا پر آ کر مسترد کرنے کے اقدام کو ناپسند کیا۔ پیالی میں یہ طوفان ابھی کچھ دن برپا رہے گا لیکن خبر یہ ہے کہ فوج نے ردعمل اپنی چھ لاکھ اہلکاروں کو مطمئن کرنے کے لیے دیا تاکہ اُن کو یقین دلایا جاسکے بطورِ ادارہ فوج نے کسی قسم کی ڈیل نہیں کی ہے۔ اس ٹویٹ سے زیادہ نہ تو فوج کچھ کرے گی اور نہ ہی کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

کیا حکومت ڈان لیکس پر پیچھے ہٹے گی؟

فوج کے اس ردعمل پر چوہدری نثار نے ایک طرف تو ٹویٹس کو جمہوریت کے لئے زہرِ قاتل قرار دیتے ہوئے اداروں میں رابطوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر تنقید کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی بیان دیا کہ اصل نوٹیفیکیشن وزارتِ داخلہ کرے گی جو ابھی آنا ہے، لیکن فوج کے تحفظات کے باوجود ہفتہ کی رات راؤ تحسین اور طارق فاطمی کو ہٹائے جانے کا نوٹیفیکشن جاری ہونا ظاہر کرتا ہے کہ حتمی طور پر ہوگا وہی جو ملک کا چیف ایگزیکٹو چاہے گا۔ اب وزارتِ داخلہ ایک اضافی نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے کچھ مزید “ہومیو پیتھک” سفارشات پر عملدرآمد کا اضافہ کردے گی۔

میڈیا میں خبریں چل رہی ہیں کہ حکومت نے شہباز شریف اور چوہدری نثار کو فوج کے ساتھ کشیدگی میں “فائر فائٹر” کا رول دیا ہے لیکن مریم نواز کی ٹویٹ میں اس خبر کی تردید ظاہر کرتی ہے کہ وزیراعظم کسی بھی طور کمزوری کا تاثر دینے کے موڈ میں نہیں۔

About اسد علی طور 14 Articles
اسد علی طور، براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں، ان دنوں اے آر وائی چینل کے ایک پرائم ٹائم حالات حاضرہ کے پروگرام کے پروڈیوسر ہیں۔ لیکن آزاد منش فکر اور انسان دوستی ان کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔ سوال کی اجازت نا دینے والی طاقتوں کو بھی سوال زد کرنا اپنا فرض جانتے ہیں۔