احسان اللہ احسان کے احسانات

احسان اللہ احسان کے احسانات

احسان اللہ احسان کے احسانات

(رضا علی)

لاکھوں پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی ٹی وی پر لیاقت علی عرف “احسان اللہ احسان” کو نادم چہرے کے ساتھ اپنا اعتراف جرم کرتے دیکھا- یہ ایک عجیب منظر تھا، اس لئے نہیں کے یہ کوئی پہلی بار ہوا ہے بلکہ یہ منظر دیکھ کے میرا دل اور دماغ آپس میں بری طرح اختلاف کا شکار ہو گئے- عقل کہتی تھی کے ایک معصوم انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل ہے- ناحق خون سے بڑھ کے کوئی ظلم نہیں اور ایسے ظالموں پر الله کی لعنت ہے- جس پر الله کی لعنت ہو ان کے چہروں پر پھٹکار برسنی چاہیے- لیکن یہ کیسی عجیب بات کے، ہر دھماکے کے بعد احسان الله احسان نہایت چمکتے دمکتے، بلکہ نورانی اور مطمئن چہرے کے ساتھ ذمہ داری قبول کرتا تھا۔
دل جب ان پر نور چہروں کو دیکھتا تو یہ قبول نہیں کرتا کہ ان لوگوں پر الله کی لعنت ہو سکتی ہے- ضرور کوئی گڑبڑ ہے- ہو سکتا ہے کہ مرنے والے شاید اتنے معصوم نہ ہوں؟ عقل کہتی تھی کہ ان میں توبچے بھی شامل تھے، وہ تو لازما معصوم ہوں گے- دل کہتا تھا کہ ہو سکتا ہے کوئی اور بات ہو؟ شاید ان بچوں کے والدین گنہگار ہوں اور الله اس طرح ان کو سزا دے رہا ہو؟ عقل کہتی تھی کہ باپ کے گناہ کا بوجھ بیٹا نہیں اٹھاے گا، یہ ناانصافی ہے- دل کہتا تھا کہ ہو سکتا ہے اسی میں انصاف ہو لیکن ہمیں نظر نہ آتا ہو؟ عقل کہتی تھی کہ گناہوں کا اثر جسم پر ہونا چاہیے- دل کہتا تھا کے جو اتنا سوم اور صلوہ کا پابند ہو، جس نے اپنی زندگی الله کے راہ میں لگا دی ہو، جسے الله کی زمین پر صرف الله کی حکمرانی دیکھنے کی خواہش ہو، وہی چہرہ اتنا پر نور، پر سکوں اور ہشاش بشاش ہو سکتا ہے۔
عقل کہتی تھی کہ جب انسان اپنے گناہوں پر نادم ہوتا ہے تو الله کی طرف سے کرب میں مبتلا روح کو سکوں عطا کر دیا جاتا ہے- دل یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ آج اپنے گناہوں پر نادم ہونے کے باوجود وہ نظریں چرا رہا تھا، اس کے چہرے کا نور چلا گیا تھا، اس کی روح اب کرب میں تھی- ایسا کیوں ہو رہا ہے، دل مان نہیں رہا تھا- عقل کہتی تھی کہ ہو سکتا ہے کے دل کی ظلمت چہرے تک پہنچنے میں دیر لگی ہو- دل چاہ رہا تھا کے تصویر حقائق کا آئینہ ہو اور اگر نہیں ہے تو شاید حقائق میں کوئی مسئلہ ہے یا تصویر میں- عقل اور دل پر یہ اس کا پہلا احسان ہے۔
اس نے اعتراف کیا کہ TTP نے “اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کر کے بھرتی کیا، خصوصاً نوجوان طبقہ- معصوم مسلمانوں سے بھتے لیتے ہیں، ان کا قتل عام کرتے ہیں، پبلک مقامات پر دھماکے کرتے ہیں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر حملے کرتے ہیں، تو اسلام تو ہمیں اس چیز کر درس نہیں دیتا-” میں اس کا احسان مند ہوں کہ اس نے یہ بات ہمیں بتا دی- یہ تو ہماری عقل بھی کہتی تھی- لیکن جب تک یہ بات کسی ایسے شخص کے زبان سے نہ آئے جسے الله نے ایسا نورانی چہرہ عطا کیا ہو، تب تک دل راضی نہیں ہوتا- یہ اس کا دوسرا احسان ہے۔
اس نے بتایا کہ “ہر کوئی چاہتا تھا کہ حکیم اللہ کے بعد اگلا امیر بنے- عمر خراسانی، خان سید سجنا، مولوی فضل الله شامل تھے- ایسی تنظیم سے کیا امید رکھ سکتے ہیں جس کے امیرقرعہ اندازی سے منتخب ہو- اور منتخب بھی ایسے شخص کو کیا جس کا کردار یہ ہے کے زبردستی اپنے استاد کی بیٹی سے شادی کی- ایسے لوگ نہ اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں نہ کر رہے ہیں”- عقل کہ رہی تھی کے کبھی کبھار جب برابر کے لوگ امیدوار ہوں جائیں تو tie breaker کے طور پر قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے- لیکن دل اس سے خوش نہیں- دل کہتا ہے کے امیر 62/63 پر پورا اترنا چاہیے اور سب سے متقی ہونا چاہیے، تب ہی مزہ ہے- عقل پوچھ رہی تھی کے شادی کا اسلام کی خدمت سے کیا تعلّق؟ دل کہہ رہا تھا کے فرق پڑتا ہے، جو شادی صحیح طریقے سے نہ کرے وہ باقی کام کیا کرے گا؟ دل کو بات سمجھ میں آتی ہے چاہے عقل ابھی حیران ہی کیوں نہ ہو- یہ تیسرا احسان ہے۔
اس نے بتایا کہ “NDS اور RAW کے ساتھ تعلقات بڑھے اور انہوں نے ان کو سپورٹ کیا اور مالی معاونت فراہم کی، ان کو اہداف بھی دیئے اور ان سے ہر کارروائی کی قیمت بھی وصول کی- میں نے ان سے کہا کہ RAW یعنی کفّار سے پیسے لے کر پاکستانیوں پر حملہ کرنا تو ان کی خدمت ہے، جس پر امر خراسانی نے کہا کہ میں تو اسرائیل سے بھی مدد لے سکتا ہوں”- عقل آج تک پریشان تھی کہ پاکستان میں کتنے مختلف طرح کے جھگڑے ہیں- کہیں نسل، زبان، وسائل اور تو کہیں مذہب- اس نے ثابت کر دیا کہ ان سب کے پیچھے ایک ہی کرشمہ ساز ہے- دل کو یہ دل موہ لینے والی سادہ بات پسند آئی- عقل نے پوچھا کے جو ناجائز ہے وہ ناجائز ہے، اس کا اس بات سے کیا تعلّق کہ پیسا کہاں سے آیا؟ دل نے کہا اس سے فرق پڑتا ہے، اگر اپنوں کا پیسا ہو توخون حلال ہو جاتا ہے بڑے اہداف کی جدوجہد میں لیکن پیسا اگر انڈیا اور اسرائیل کا ہو تو جائز بھی ناجائز ہو جاتا ہے- یہ اس کا چوتھا احسان ہے۔
عقل یہ کہہ رہی تھی کہ ان کو افغانستان میں پناہ ملنے سے کیا فرق پڑتا ہے، آخر پاکستان بھی تو افغان طالبان کی سپورٹ کرتا ہے، انہیں پناہ دیتا ہے اور سال 2016 میں افغانستان میں 7000 تک لوگ مارے جا چکے ہیں- پھر وہ پاکستان کے خلاف کام کرنے والوں کو پناہ کیوں نہ دیں؟ دل اس لاجک کو نہیں مانتا- دل کہتا ہے کے جو بھی ہمیں مارے وہ برا ہے اور اس کا عمل غلط ہے- لیکن کیوں کہ یہ اسلام کے نام پر لڑ رہے تھے اس لئے لازما اس کے پیچھے اسلام دشمنوں، جیسے امریکا اور انڈیا کا ہاتھ ہوگا- اس کا احسان کے اس نے ہم پر یہ راز بھی فاش کیا۔
اس نے کہا کہ “مرکز تباہ ہونے کے بعد کمانڈروں اور جنگجوؤں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے- میں انھیں کہتا ہوں کے بس کرو اور اب امن کی زندگی میں واپس آ جاؤ” – دل اس سے خوش ہوا- دل چاہتا ہے کے وہ مایوس نہ ہوں کیوں کے مایوسی کفر ہے، سارے اسلام پسند آپس میں شیر و شکر ہو جائیں، امن کی زندگی گزاریں اورغیروں کے خلاف متحد ہو جائیں- عقل کہتی ہے کے ان کو سزا ملنی چاہیے، انہیں چوک پر پھانسی لٹکانی چاہیے- دل کہتا ہے کے اپنوں کو معاف کرنے میں عظمت ہے- جو نادم ہے اس سے کیا بدلہ لینا؟ دیکھو اس کی کیا حالت ہو گئی ہے- مرنے والے تو مر گئے- یہ بھی اس کا احسان ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے اسلام پسندوں کو واپس لا رہا ہے اور دل انھیں دوبارہ شاد باد دیکھ کر خوش ہو گا۔
اس کے مطابق “انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے معصوم نوجوانوں سے کنٹیکٹ کرنے کی کوشش کی، ان کو ورغلایا اسلام کے نام پر، اسلام کی غلط تشریح کر کے پروپیگنڈہ کیا- نوجوانوں سے التماس ہے کہ ان کے پروپگنڈے میں نہ آیں” میں اس کا احسان میں ہوں کہ اس نے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا- کیونکہ دل پہلے ہی یہ مانتا تھا کے یہاں لازما اسلام کی غلط تشریح ہو رہی ہے ورنہ ایک مسلمان تو دوسرے مسلمان ہو قتل کر ہی نہیں سکتا- عقل یہاں بے مقصد سوال اٹھاتی ہے جس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلنا تو بہتر ہے کے وہ چپ ہی رہے۔
اس کا آخری احسان یہ ہے کہ اس نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو پاک فوج کے حوالے کر دیا- ویسے کل تک یہ خود اس فوج کو ناپاک “سیکولر، لبرل” فوج تصوّر کرتا تھا- دل خوش ہوا کے اس نے اپنوں اور غیروں کو پہچان لیا۔