روحزن  نے زبان کی سرحدیں مٹا دیں

روحزن  نے زبان کی سرحدیں مٹا دیں
رحمٰن عباس، روحزن کے ناول نگار

روحزن  نے زبان کی سرحدیں مٹا دیں: ہندوستانی، ایشیائی اور یورپی قلم کار خوش

از، روزن رپورٹس

روحزن اردو کی ان خوش نصیب کتابوں میں سے ایک ہے جس پر اشاعت کے مراحل سے آج تک گفتگو جاری ہے۔ روحزن کی رسم اجرا  جشن ریختہ ۲۰۱۶ میں بہ دست نام ور شاعر محمد علوی، پاکستانی ادیب آصف فرخی اور محمد حمید شاہد، شمیم عباس اور فرحت احساس کے ہاتھوں ہوئی تھی۔

ناول بھارت اور پاکستان میں یکساں مقبول ہوا۔ سنجیدہ ادبی حلقوں نے ناول کی تعبیر و تفہیم میں حصہ لیا۔ عہدِ حاضر کے قد آور نقاد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے جہاں روحزن کو اردو ناول نگاری میں ایک اہم موڑ کہا ہے، وہیں پاکستانی ناول نگار مستنصر حسین تارڑ نے روحزن کو ایک بے باک تخلیقی بیانیہ قرار دیا ہے۔

ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ نقاد نظام صدیقی، ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ افسانہ نگار سید محمد اشرف، بیگ احساس اور عبدالصمد نے ناول کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔

معروف ناقد شافع قدوائی نے انگریزی اخبار The Hindu کے کالم میں لکھا ہے:

With his uncanny ability to subvert what people believe, Rahman Abbas raises the art of story-telling to a new level.

**

۵ دسمبر کی دوپہر ساہتیہ اکادمی، نئی دلی، نے ایک پریس کانفرنس میں سالانہ انعامات کا اعلان کیا ہے اور اردو میں۰۱۸ٍ۲ کے ایوارڈ کے لیے ’روحزن‘ کا انتخاب کیا ہے۔ اس خبر نے فکشن پڑھنے اور فکشن سے وابستہ افراد کو خوش کر دیا۔ اردو حلقوں کی خوشی فطری ہے کہ ایک عرصے بعد کسی ناول کو اس گراں قدر انعام کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ انعام یافتہ ناول نگار عبدالصمد نے اس خبر پر رد عمل پیش کرتے ہوئے کہا کہ رحمن عباس نئی نسل کے پہلے ناول نگار ہیں جنھیں ساہتیہ کادامی ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے۔ ان کا ناول کافی معیاری ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی ناول کی افادیت و اہمیت مسلم ہے۔


مزید دیکھیے:  رحمٰن عباس کے ناول روحزن کی عالمی سطح پر پذیرائی اور قبولیت

ممبئی کا خواب آلود البم  تبصرہ نگار:  شیخ نوید


معروف نقاد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے رحمٰن عباس کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ناولوں میں ممبئی اور کوکنی تہذیب و معاشرت کی ترجمانی کی گئی ہے۔ موضوع اور زبان کی بے باکی نے قارئین کو خوب متاثر کیا ہے۔

سینئر افسانہ نگار مشتاق احمد نوری نے کہا کہ رحمٰن عباس ایک ایسا فن کار ہے جو کسی مروت کے بغیر سماج کو جس روپ میں دیکھتا ہے اسی روپ میں اپنے ناولوں میں پیش کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر اس ناول کو ۲۱ ویں صدی کا بہترین ناول کہا جا سکتا ہے۔ رحمٰن عباس کا ان کی ریاضت کا پھل ملنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

دوسری طرف پاکستانی نقاد صلاح الدین نے روحزن کو ایک اہم ادب پارہ قرار دیا ہے۔ کراچی میں مقیم جواں سال افسانہ نگارمایا مریم نے روحزن کو اپنا پسندیدہ ناول کہا ہے اور انعام ملنے پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔

**

دوسری طرف روحزن کو انعام کے لیے منتخب کرنے پر ہندوستانی ادیبوں کے ساتھ ساتھ ایشائی اور یوریی ادیبوں نے بھی رحمٰن عباس کو سوشیل میڈیا کے ذریعے مبارک باد پیش کی ہے۔ بشمول منگیش دبرال (ہندی شاعر)، جیتا سین گپتا (انگریزی نقاد)، اودے پرکاش (ہندی ادیب)، انیس سلیم (انگریزی ناول نگار)، تنوی ہلدار (بنگالی فکشن نگار)، ادیتی مہیشوری گویل (مالک وانی پرکاشن)، امریجیت سنگھ (پنجابی ادیب)، آسیہ ظہور (انگریزی شاعرہ)، سمویدنا روات (ہندی شاعرہ)، مونالیز جینا (انگریزی شاعرہ)، سونیٹ منڈل (انگریزی شاعر)، سوچترا دتتا (انگریزی فکشن نگار)، سکیٹ موجمدار (انگریزی ادیب)، بجت گوریا (آسامی شاعر)، نندیپا لشیکر (انگریزی نقاد)، ودیا ساگر نورم (ناگا شاعر)، شبنم تلگامی (کشمیری شاعر)، صبا بشیر (انگریزی ادیبہ)، ہیمنت ڈویٹے (مراٹھی، شاعر) ورمیلا پوار (مراٹھی، ادیبہ) نریندر موہن (ہندی ادیب و شاعر)، رخشندہ جلیل (انگریزی ادیبہ)، نبینا داس (انگریری ادیبہ، شاعرہ اور صحافی) انجلی پروہت (انگریزی شاعرہ)، مہش دتتانی (انگریزی ڈرامہ نگار)، اندرا چندر شیکھر (انگریزی فکشن نگار)، بینا سرکار الیاس (انگریزی شاعرہ، مدیر)، بھارتی سردانگنی (سندھی شاعرہ)، سدیپ سین (انگریزی شاعرہ)، ویرانا مالیدار (کنٹر ادیب)، سنگمیش میناسیناکئی (کنٹر فکشن نگار)، وجے کمار (ہندی نقاد)، شیام دریہارے (میتھلی ادیب)، نیلم کمار (آسامی شاعر)، میلی اشوریا (پینگوئن انڈیا)، فاروق گلسرا (سنگا پور،ادیب)، عیسیٰ کامارمی (سنگارپور، ناول نگار) سریتا تیواری (ادیبہ، نیپال)، پروفیسر مالاچی ایدون (سنگارپور، ادیب)، ہینز وارنروسلر (جرمن نقاد)، رینھولڈ سکھین (جرمن ادیب)، کارلا بالا (جرمن پروفیسر، بان یونی ورسٹی)، مہش جھا (جرمنی، صحافی) سکلا بینرجی (جرمنی، ادیبہ)، سمعیہ شیخ، (ناروے، ادیبہ )، ہیلن موکوری ادرسی (افریقہ، سیاست داں)، بلند اقبال (کینیڈا، فکشن رائٹر) مریم زیم (ایران، شاعرہ) ابو اشرف (مصر، مدیر اور مترجم) مشرف حسین خان (امریکہ، مدیر) پروفیسر شاہ زمان (فرانس،مترجم و ادیب) ہیلدا برکھلباخ (جرمنی ، مصور) اور دیگر۔

رحمٰن عباس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں ادیب ہوں۔ مجھے خود کو دُہرانا پسند نہیں۔ وہیں ملک میں فسطائی طاقتوں سے لڑنے کی اب بھی بہت ضرورت ہے۔ ہم قلم کار احتجاج کے نئے طریقے ایجاد کرتے رہیں گے۔ خود کو دُہرانا بے وقوفوں کی پہچان ہے۔ میرا کام لکھنا ہے، میں لکھتا رہوں گا۔ میرا کام ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہے، میں کرتا رہوں گا۔