مدارس کے بچوں کا نوحۂِ نا شنیدہ

ڈاکٹر عرفان شہزاد

مدارس کے بچوں کا نوحۂِ نا شنیدہ

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

مجھے کالج کی تعلیم کے دوران میں دینی تعلیم کے حصول کا شوق ہوا تھا، جس کے لیے میں نے ایک مدرسہ میں داخلہ لیا تھا۔ وہاں کے حالات میرے لیے غیر معمولی تھے اور ہم میں سے وہ لوگ جو ان کے اندرونی حالات سے واقف نہیں، ان کے لیے یہ اب بھی بہت اجنبی چیزیں ہیں۔

قرآنِ مجید کا وہ احترام جو ہماری تھذیبی روایت ہے، وہاں ایسا نہیں پاپا جاتا۔ قرآن مجید کا احترام یقیناً موجود ہے، لیکن اس درجہ کا نہیں جو ہمارے گھرانوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ جو ایک حافظ صاحب نے مجھے بتائی یہ تھی کہ حفاظ کے تحتُ الشُّعور میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ بچپن میں اس کتاب کو حفظ کرنے کے دوران میں جو تشدد انھیں سہنا پڑا، اپنی مرضی کے بر خلاف اپنے گھر والوں سے دوری جو ان پر بیتی، ان سب کی وجہ وہ قرآن مجید کو سمجھتے ہیں۔

اس بنا پر قرآن مجید کا وہ احترام اور محبت ان کے دل میں نہیں ہوتی جو ایک عام مسلمان کے دل میں پائی جاتی ہے۔ انسانی نفسیات سے واقف اس تجزیہ کا انکار نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے وہ قرآن مجید کو ہاتھ میں پکڑ کر ایک دوسرے سے لڑائی بھی کر لیتے تھے اور برا بھلا بھی کہہ دیتے تھے، بَل کہ تلاوت کے دوران وہ ایک دوسرے کو فحش اشارے تک کرتے تھے۔

دوسری چیز جو بہت حیران کن بل کہ پریشان کن تھی وہ یہ کہ مدرسے کے اکثر طلبہ کے والدین نہایت بے حس  بل کہ غیرت سے بھی عاری پائے گئے۔ اپنے بہت کم سن بچوں کو بھی وہ مدرسے میں ڈال کر چلے جاتے اور مہینوں بعد ان کی خبر لیتے۔ یہ بچے اپنی حفاظت کرنا بھی نہیں جانتے تھے۔ مدرسہ کے مہتمم صاحب ویسے تو ہر لحاظ سے عام مولویوں کی طرح ہی تھے مگر مدارس  میں پائی جانے والی عام بیماری یعنی اغلام بازی کے معاملے میں وہ نہایت سخت اقدام کرتے اور اسے برداشت نہ کرتے تھے۔

اس کے با وجود یہ معاملہ رکتا نہ تھا۔ ہر کچھ عرصہ بعد مدرسہ میں کوئی کیس ہو جاتا۔ طالب علم یا استاد جو بھی اس میں ملوث پایا جاتا اسے مار پیٹ کر مدرسہ سے نکال دیا جاتا تھا۔ لیکن زیادہ افسوس ناک بات یہ تھی کہ والدین کو جب اطلاع دی جاتی کہ ان کے بچے کے ساتھ یہ حادثہ ہو گیا ہے تو وہ اس بات کو بہت بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ افسوس کرنے کے بعد بچے کو پھر وہیں چھوڑ جاتے یا کسی دوسرے مدرسے میں ڈال دیتے۔ ان کا یہ رویہ میرے لیے شدید ترین حیرت اور کوفت کا باعث ہوا۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں اس برائی کی کچھ زیادہ شرح کے ساتھ پائے جانے کی وجہ سے شاید وہ حساسیت ان لوگوں میں نہیں پائی جاتی۔ بہ ہرحال، یہ ایک المیہ ہے جو مشاہدہ میں آیا۔

ان  والدین کا مقصد اپنےبچے کو ہر حال میں قرآن کا حافظ بنانا تھا۔ اس کے پیچھے ان کے متعدد محرکات تھے۔ ایک یہ کہ وہ بچے کے کاندھوں پر سوار ہو کر جنت میں داخلہ کے خواہش مند تھے ۔ مُروّجہ دینی تصور کے مطابق قرآن کا حافظ اپنے خاندان کے دس ایسے لوگوں کو جنت میں لے جانے کا سبب بنے گا جن پر جھنم واجب ہو چکی ہو۔ اس طرح وہ ایک تیر سے دو شکار کھیلتے، یعنی، “رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی “۔

دوسرے وہ تھے جو کثیر العیال تھے۔ اپنے “فالتو” بچوں کو وہ مدرسہ میں اس وقت تک رکھتے تھے جب تک وہ کمانے کے قابل نہ ہو جائیں۔ اس دوران میں اگر ان کا حفط مکمل ہو جاتا تو کوشش کر کے ان کو کسی مسجد یا مدرسہ میں لگوایا جاتا،اور اگر حفظ مکمل نہ ہو پاتا تو کسی کام پر لگا دیا جاتا۔ یوں وہ امت کے چندے پر اپنے پیدا کردہ بچوں کو پال کر اپنا کام چلاتے۔

مجھے ایسے طلبہ دیکھنے کا بھی الم ناک اتفاق ہوا جو ذہنی طور پر حفظ کی صلاحیت سے عاری تھے۔ ان کی یاد داشت اس درجہ کی نہ تھی کہ حفظ کر سکتے۔ ان کو بھی لیکن برسوں اس چَکّی میں پِیسا جاتا اور تشدد اور ذلت کا نشانہ بنایا جاتا۔ تعلیمی نفسیات سے عدم واقفیت کیا کیا مظالم کرواتی ہے۔

مدارس میں پائی جانے والی اس صورت حال کا ایک حل یہ ہے کہ رہائشی مدارس کے رجحان کا خاتمہ کیا جائے۔ رہائشی مدرسہ کے لیے اجازت نامہ کڑی شرائط کے بعد ہی جاری کیا جائے۔

مدارس میں کم سِن بچوں کے داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔ کسی بچے کا فطری رجحان معلوم کیے بغیر اسے دینی تعلیم کے لیے مخصوص اداروں میں ڈالنا، بچے کی حق تلفی ہے۔ ممکن ہے کہ بچہ اس فطری طور پر اس کام لیے موزوں ہی نہ ہو، وہ کوئی ریاضی دان،  یا سائنس دان بننے کے لیے بنایا گیا ہو۔ یا حفظ کرنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتا ہو۔ کم از کم بارہ سال کی وسیعُ البُنیاد تعلیم ہر بچے کا حق ہے۔ اس کے بعد یہ طے کرنا چاہیے کہ بچہ دینی تعلیم کا رجحان رکھتا ہے تو دینی تعلیم حاصل کرے، اور اگر کسی اور مضمون اور شعبے کا رجحان رکھتا ہے تو اس کی طرف جائے۔

والدین کو توجہ دلانے اور ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ اتنے ہی بچے پیدا کریں جتنے کی کفالت کا امکانات ان کے پاس ہیں۔ والدین سے بڑھ کر بچوں کا کوئی محافظ ہو سکتا ہے اور نہ خیر خواہ۔ ان کی حفاظت اور پرورش والدین کی ذمہ داری ہے۔ بچے کی مرضی جانے بغیر اسے زبر دستی حفظ کرانا، ظلم ہے۔