پی ٹی آئی ، مابدولت کی بی ٹیم سے کب سیاسی پارٹی بنے گی؟

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ

پی ٹی آئی ، مابدولت کی بی ٹیم سے کب سیاسی پارٹی بنے گی؟

یاسر چٹھہ

ظاہر ہے کیا کیجیے، ملکی سیاست کی زمین ہی ایسی ہے۔ یہاں اس سیاسی گلستان میں جتنے نہال نیچے سے اوپر بڑھے ہیں، وہ “مابدولت” کے براہ راست دور اور عرصہ سے برآمد ہوئے ہیں۔

بتائیے اور کہاں سے برآمد ہوتے؟ جب پورے شہر میں دکان ہی ایک ہو تو صاحب طلب کیا کرے، اور کہاں جائے؟

جب طاقت پر، طاقت کی تقسیم پر، طاقت کے توازن پر اجارہ داری ہی سرکاری بابووں (بھلے وہ شروع میں نیکٹائی شرٹ والے تھے، یا کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد وسیع تر ملکی مفاد کی وجہ سے “مابدولت” خود بن گئے) کے ہاتھ میں رہی ہے، اور کیا ہو؟

عنان حکومت بھی براہ راست انہی “مابدولت” کے ہاتھ رہی ہے، تو ایسے میں وقت و تاریخ وطن کی کون سی زمین تھی جب کوئی خود رو پودا اگتا؟

بھٹو صاحب ایوب خان کے زمانہ انقلاب سے منظر نامے پر آئے، لیکن بعد میں اپنا ایک آزاد اور وقت کی قید سے کافی آگے کا تشخص تعمیر کرنے میں کامیاب رہے۔ لیکن اس تشخص کی تعمیر میں کوئی خفیف قیمت نہیں چکائی: اپنی جان، اپنی اولاد کی جان وقت کی طاقتوں کے نیزے کو پیش کی۔ وقت کا نیزہ خون میں بجھا تو اپنا تشخص ملا۔

میاں نواز شریف جنرل جیلانی کے گملے میں اگے پودے تھے۔ پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن کو تو ان کے اندر سے آج بھی وہی بو باس آتی ہے کہ یہ کہاں سے آئے تھے۔

لیکن مانیے یا نا مانیے نواز شریف نے بھی بھلے جس انداز سے مرتب کیا ہے، لیکن انہوں نے اپنا ایک توانا سیاسی تشخص مرتب کرلیا ہوا ہے۔ وہ ایک ووٹ بینک کے حامل ہیں۔ ان نے کئی بار کی وارد شدہ خواریاں کاٹ لی ہوئی ہیں۔ اب وہ دل مابدولت میں ایک سوالیہ کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ ایسا کھٹکنا مفت میں نہیں ملتا۔ ان کے حامی گلی اور سڑک پر اس انداز سے نہیں نظر آتے جس انداز سے آج کل تحریک انصاف کے سیاست کے تازہ کار اہل ایمان خشوع و خضوع سے نظر آتے ہیں۔

لیکن وہ ووٹ ڈالنے والے دن آتے ہیں۔ جس دن تحریک انصاف کا کارکن یا تو سوتا رہتا ہے یا پھر اپنے سمارٹ فون پر گیمیں کھیلتا رہتا ہے، یس ٹویٹر اور فیس بک پر اپنا انتخابی مقدمہ، تبصرہ اور ٹرینڈز کی جنگ لڑتا ہے۔

بھٹو صاحب اور نواز شریف صاحب جیسے حالات کے سیاق و سباق میں تحریک انصاف نے بھی آنکھ کھولی ہے۔ اسے بھی گھٹی انہی حلقوں سے ملی ہے جن سے پاکستانی سیاست کے باقی کرداروں کو ملتی آئی ہے۔ ابھی بہر حال پی ٹی آئی صرف حقیقی طاقت کے سرچشموں سے آنکھ مٹکے اور شادی سے پہلے منگنی والی کیفیت اور مراحل سے گزر رہی ہے۔

خیبر پختونخواہ میں ملنے والی حکومت کو خود تحریک انصاف کے دو دھائیوں سے، پرانے سیاستدانوں کی طرح شخصی مرکزیت کی پارٹی کے سربراہ نے دل سے حکومت نہیں مانا (ہر چند کہ یہ خیبر پختونخواہ کے رائے دہندگان کی عزت نہیں کہ ان کے فیصلے عمران خان صاحب کی ہاں میں نا آئیں، ذوق و حرص کی تشفی نہیں کر پائیں۔)

پی ٹی آئی کی نظر مسلسل پنجاب پر رہی ہے، جسے وہ تسکین طبع و طمع کے لیے تخت پنجاب سے موسوم کر کے جی کچھ ہلکا کرتی رہتی ہے۔

جیسا کہ اوپر کہا کہ پی ٹی آئی ابھی آغاز محبت کے ایام میں ہے۔ ابھی اسے گھٹی پلانے والوں کی جانب سے بہت سارے خون معاف ہیں۔ اس وقت ان کی سرشاری بھی کسی عقل و تعقل کی گرفت سے باہر ہے۔ ابھی ان کی جانب سے کئی ساری پیش قدمیوں کے نقشے اونچی فصیلوں والے قلعوں سے فراہم ہو رہے ہیں۔

بھلے وہ طالبان کے لیے دفاعی لائن لیے رکھنا تھی، یا نیٹو کنٹینروں کے آگے سد راہ بن کے کسی کے دام بڑھانے کا ارداہ و عمل تھا۔ بھلے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر گلے پھاڑ کر اونچے سروں میں قومی ترانے گانے تھے۔ بھلے وہ چار حلقوں اور پینتیس پنکچروں کے صبح کاذب کے وقت کے خوابوں کی فلم تھی۔ اور موجودہ وقت کی بنیادیں رکھنے کے وقت کی جانے والی بہ سند و روایت ARY کے پروگرام کسی سفید دفتر والے سیاہ و سفید کے نئے آنے والے کسی مالک کی کوئی “request” تھی۔

صادق و امین اور بلیک لاء لغت کی مل ملا کر بنائی ہوئی چھڑی سے وقتی خوشی اور تشکر تو ادا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن پنجاب و مرکز کی کرسیاں انتخابات جیت کر ہی مل سکتی ہیں۔ اور سیاسی گھٹی جہاں سے ملی ہے، اس کا اثر خان صاحب آپ کے مزاج کو دیکھتے ہم کہیں گے، کہ وہ بہت زیادہ تقاضے کرتا ہے۔ آپ سے نا ہو پائے گا۔ کیونکہ مابدولت کی جانب سے گھٹنوں کو چھوتےرہنے سے بھی آگے کی توقعات بندھی ہوئی ہیں۔ کتنی روح فروش آئینی ترمیمیں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے پیش کی ہیں، لیکن ابھی بھی مابدولت کے جی خوش ہونے کا نصاب پورا نہیں ہوا۔

آپ وعدے کرتے جائیں گے، لیکن نہیں ہو پائے گا۔ آپ کو جب دو ایک بار بغیر سمجھ و شعور میں اچانک آوٹ قرار دیا جائے گا، یہی چینل اور صحافی جو آپ کو آج مجتہد و مجاہد قرار دے رہے ہیں وہی کوئی نیا محب وطن بت تراش لیں گے۔ اور آپ کی یہ ٹویٹر اور فیس بک ٹیم کسے اور کے ترانے گاتے نظر آئیں گے۔

ہم اس وقت آپ کو بی ٹیم سے ترقی دے کر ایک سیاسی جماعت مانیں گے۔ ہم آپ کے خلاف کی گئی سازشوں پر آواز بلند کریں گے۔ ہر چند کہ اس وقت کے محب وطن ہمیں وہی کہیں گے کہ پتا نہیں ہماری عقل کہاں گئی؛ کہ عمران خان جیسے بد اخلاق اور بدعنوان کا دفاع کر رہے ہیں؛ کہ ہماری تعلیم، فکر، سوچ سٹیٹس کو کے سامنے ڈھال ہے؛ ہم بیرونی وظیفہ خوار ہیں۔ جی ہم اس وقت بھی شاید ایسے ہی ہونگے کہ جب حالات وہی ہیں تو دل سے برا جاننے کی روش اور مزاحمت کیوں ختم ہوجائے؟ سٹیٹس کو پر جو سوال اٹھائے گا، ہم ساتھ، سٹیٹس کو کے کسی سراب کو کوئی سیلاب ماننے کو کہے تو ہماری معذرت۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آپ اس چیلنج سے کیسے بنرد آزما ہوتے ہیں، اور اپنا آزاد تشخص تعمیر کر پاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے، جان جاتی ہے، خون معاف نہیں ہوتے بلکہ پیش کرنے پڑتے ہیں، ایسی 62 اور 63 لگتی ہیں کہ 62 اور 63 کی شقیں خود بلیک لاء ڈکشنریوں کے سامنے ہانپ رہی ہوتی ہیں۔ ایسے ایسے سکینڈل بھی سامنے آتے ہیں کہ جن کا شاید صرف خدا کو ہی پہلے پتا ہوتا ہو۔

آپ فائٹر کھلاڑی ہیں۔ آپ نے انگلستان میں پہلی سیریز میں اچھی کارکردگی نا ہونے کے باوجود اپنے لیے پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنائی۔ اس وقت کہتے ہیں کہ آپ کی زبان کی مہارت آپ کے ٹیم میں انتخاب کا موجب بنی؛ انگریزی اچھی آتی تھی۔ آج بھی آپ کو مابدولت کی سلیکشن کمیٹی آپ کی زبان کی مہارت کو بڑے شوق آزماتی ہے؛ جس پر من چاہے! لیکن۔۔۔۔ کیا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آپ کسی گھٹی والی مابدولت کی بی ٹیم سے ترقی پا کر ایک آزاد فکر سیاستدان بننے کا چیلنج قبول کریں گے؟ اپنے آپ سے جد و جہد، کچھ آس پاس میں جد و جہد مطلوب ہوگی۔

 

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔