افغانستان میں امریکی ’’وار مشین‘‘ کی ناکامی

aik Rozan writer
حسین جاوید افروز ، صاحب مضمون

افغانستان میں امریکی ’’وار مشین‘‘ کی ناکامی

حسین جاوید افروز

بریڈ پٹ کی حالیہ فلم ’’وار مشین‘‘ امریکہ کی افغانستان سے متعلق پالیسی پر ایک نہایت تیکھا طنز ہے۔ اس فلم کا بنیادی خیال مائیکل ہیسٹگنز کی کتاب The Operators سے لیا گیا ہے۔ بریڈ پٹ نے فلم میں امریکی جنرل میک کرسٹل کا کردار، جنرل گلین میک مون کے فرضی کردار میں بخوبی نبھایا۔ اس شاندار ملٹری کیریئر کے حامل جنرل کو امریکی فوج میں راک سٹار کی عرفیت حاصل ہوتی ہے اور دہشتگردوں کو تہہ و بالا کرنے کے ماہر ہونے پر اسے اوباما انتظامیہ کی جانب سے افغانستان بھیجا جاتا ہے تاکہ وہاں امریکی فوج کے لیے ایک سود مند ماحول تخلیق کیا جائے اور افغانستان میں جاری طالبان شورش کو لگام دی جاسکے۔

جنرل میک مون کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کے ٹیڑھے مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اسے امریکی میڈیا کی جانب سے صیحح موقع کے لیے صحیح شخص قرار دیا گیا۔ لیکن اسے افغانستان میں دوران قیام محسوس ہوا کہ وہ مسئلے کو توحل کرسکتا ہے لیکن امریکن بیوروکریسی اس کے راستے کی رکاوٹ ہے۔

اگرچہ اس نے سنجیدگی سے افغانستان میں زمینی حالات کا خورد بینی جائزہ لیا اور کام شروع کیے۔ لیکن اپنی منہ پھٹ طبیعت کے سبب وہ بدقسمتی سے اپنے فخر کی نذر ہوگیا۔ اصل مسئلہ تب شروع ہوا جب صحافی ہیسٹگنز کو جنرل کے ساتھ اپریل 2010 میں کچھ دن رہنے کا موقع ملا۔ تاکہ وہ افغانستان میں امریکی فوج کی حالت اور افغانستان کے حالات کا باریک بینی سے مشاہدہ کرسکے۔

ہیسٹگنز نے رولنگ سٹون اخبار میں اپنے آرٹیکل The Runaway General میں میک کرسٹل کے ساتھ افغانستان میں کی گئی بات چیت اور اس کی اوباما انتظامیہ پر کی گئی سخت تنقید کو بے نقاب کیا۔ میک کرسٹل اپنی ملٹری ٹیم کو ٹیم امریکا کہا کرتا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ میک کرسٹل اور اس کی ٹیم، ہیسٹگنز کے ٹیپ ریکارڈ کو پکڑ ہی نہیں سکے۔

ان سخت باتوں کے سبب میک کرسٹل کو صدر اومابا نے وائٹ ہاؤس میں طلب کر کے اسے اس کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا۔ بلاشبہ ہیسٹگنز نے امریکی فوج کو افغان جنگ میں بے نقاب کر کے رکھ دیا۔ اس نے ثابت کیا کہ امریکہ کے لیے یہ جنگ ایک مکمل مس ایڈونچر رہا ہے۔ افغانستان جس کو عالمی سیاست کا برمودا ٹرائینگل بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اب برطانیہ اور سویت یونین کی طرح امریکہ کے لیے بھی سوہان روح ثابت ہورہا ہے۔

اس لاحاصل جنگ کی بدولت امریکہ خود کو دہشتگردوں سے مکمل طور پر محفوظ کرنے میں بھی ناکام رہا۔ اب تک افغانستان میں چودہ سالوں میں دو ہزار سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہیسٹگنز کے بقول ہم افغانستان میں کچھ کامیابی حاصل کرنے آئے تھے۔لیکن یہاں حالت یہ ہے کہ ہمارے تربیت یافتہ فوجی ان نیم قبائلی، ناخواندہ افغانیوں کی مزاحمت کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دہشتگردوں کی سرکوبی کا ماہر میک کرسٹل بھی کبھی ایک بے داغ کردارنہیں رہا ہے۔ اس کوبھی عراق میں زیرحراست قیدیوں سے دوران تفتیش تشدد اور دوران آپریشن ایک امریکی رینجر پیٹ ٹلمین کو دوستانہ فرینڈلی فائرنگ میں ہلاک کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

میکرسٹل نے ہیسٹگنز کو واضح طور پر بتایا کہ افغانستان کو کنٹرول کرنا ہرگز کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہاں کا ماحول ہمارے لیے بالکل بھی مواقف نہیں رہا ہے۔ فلم میں یہ بھی دکھایا گیا کہ کس طرح ہلمند کے مشکل ترین علاقے میں امریکی فوجیوں کو آپریشنز میں مشکلات پیش آتی رہیں؟ اور کیسے وہ عام افغان کو بھی طالبان کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ اور عام افغان بھی ان امریکیوں سے جمہوریت کے درس لینے کے بجائے ان کو افغانستان سے جاتا ہوا دیکھنا زیادہ پسند کرتا ہے۔

یوں امریکی فوجی، افغانستان میں روزانہ ایک شکست کے احساس کے ساتھ دن کاٹ رہے ہیں۔ فلم کا وہ سین بہت ہی دلچسپ ہے جب یورپ کے دورے پر بریڈ پٹ اس بات پر خفگی کا اظہار کرتا ہے کہ’’ میرے ساتھ ٹیبل پر سارے امریکی فوجی عہدیدار براجمان ہیں۔ حالانکہ ہم افغانوں کو پرامن افغانستان دینے کے خواہاں ہیں۔ فوراً ہمارے افغان فوج کے ترجمان کو میرے ساتھ بٹھایا جائے اور ہر کسی کے لیے اس افغان فوجی افسر کی تعظیم ضروری ہوگی۔

ہیسٹگنز مزید لکھتا ہے کہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہمیں safe haven جیسے ماورائی خیالات سے چھٹکارہ حاصل کر لینا چاہیے۔ دہشتگرد حملے 2001 سے افغانستان سے نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور کچھ افریقی ممالک سے کیے جاتے ہیں۔ محض دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا نعرہ مستانہ لگا کر ہم ایک مہنگی اور خونی مہم کیوں پھیلاتے چلے جارہے ہیں؟

ہمارے مقاصد میں گہرا ابہام پایا جاتاہے۔ فلم’’وار مشین ‘‘میں ان شائقین کے لیے لطف اندوزی کا خاصا سامان ہوگا جو افغان جنگ کو بے فائدہ اور بے سمت سمجھتے ہیں۔ لیکن جو افغان جنگ کو ناگزیر سمجھتے ہیں ان کو خاصی مایوسی بھی ہوگی۔ یہاں ہم انہی حالات سے مطابقت رکھنے والی نہایت اہم کتاب Obama’s Wars کا بھی ضرور ذکر کریں گے۔ جس میں باب وڈورڈزکے مطابق 2008 میں برسر اقتدار میں آنے کے بعد اوباما کو افغانستان کی جنگ سابق صدر بش جونیئر سے ورثے میں ملی۔ یا د رہے کہ بش نے افغانستان کو unfinished business قرار دیا تھا۔

افغانستان میں بش دور میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافہ بھی کیا گیا۔ افغان فورسز کو کیل کانٹے سے لیس فوج بنانے کے بلند و بالا دعوے کیے گئے۔ اس کے برعکس باراک اومابا نے اقتدار میں آ کر افپاک پالیسی پر زور دیا۔ اوباما نے القاعدہ اور طالبان کے انہدام کو اپنا مشن بنانے کا عزم کیا۔

اپنی انتخابی مہم میں بھی اوباما نے افغانستان میں اور دو اضافی بریگیڈ اور سالانہ ایک بلین ڈالر کی سویلین امداد دینے کے دعوے کیے۔ لیکن عملا اس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اوباما سے کئی اغلاط بھی ہوئے۔ جیسے باب وڈورڈز اپنی کتاب Obama’s Wars میں لکھتا ہے کہ اوباما نے امریکی جنرلوں کے زور دینے پر جنرل میک کرسٹل کو تیس ہزار امریکی فوجی فراہم کیے۔ پنٹاگون ، امریکی محکمہ خارجہ اور اومابا کے درمیان وائٹ ہاؤس کے سچو یشن رومز میں پاور پوائنٹس کی مدد سے بحث و مباحثہ کے طویل دور چلے۔ لیکن میک کرسٹل کے حکومت مخالف بیانات پر رخصتی نے اس پالیسی کو کمزور کیا۔

یہی وجہ تھی کہ اپنی صدارت کے دوسرے دور میں اوباما افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا ٹائم ٹیبل طے کرتے دکھائی دیے۔ اس سے مشن افغانستان بری طرح متاثر ہوا ۔ طالبان افغان سیکورٹی منظر نامے میں مکمل طور پر حاوی ہونے لگے ۔ جبکہ افغان فوج ،طالبان مزاحمت کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ اس موقع پر بجا طور پر ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اومابا کا انتہائی مہنگا طویل مشن افغانستان ثمر آور ثابت نہ ہوسکا۔ جبکہ شام اور یوکرائن کے بحرانوں کی بدولت بھی اومابا کی توجہ افغانستان سے ہٹ گئی ۔ درحقیقت اومابا انتظامیہ افغانستان میں افواج بھجوانے ، دہشتگردی کے تدارک پر مبنی پالیسی پر عمل کرنے اور افغان حکومت کومعاشی طور مستحکم بنانے کے عمل کو جاری رکھنے میں ناکام رہی۔ کیونکہ یہ تمام امور اپنی تکمیل کے لیے وقت کے متقاضی تھے ۔ جس میں اوباما انتظامیہ سست روی کا شکار دکھا ئی دی۔ جبکہ اس جنگ کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ اور وزارت دفاع میں اختلافات بھی حکمت عملی کی ناکامی کا باعث بنے۔

اس کے ساتھ افغان حکومت بھی عوام کو معیاری گورننس اور اپنی رٹ منوانے میں بری طرح نا اہل ثابت ہوئی۔ اور یوں وقت کے ساتھ افغان حکومت کی مالی اعانت میں بھی کمی واقع ہونا شروع ہوئی ۔ جس کے منفی اثرات رونماء ہوئے ۔ آپریشن Enduring Freedom سن 2001 سے 2014 تک جاری رہا ۔ اس آپریشن کے دوران ایساف فورسز کی چار ہزار ، افغان آرمی کی پندرہ ہزار جبکہ تیس ہزار سے زائد سویلین ہلاکتیں ہوئیں۔ یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ آپریشن Enduring Freedom جب نائن الیون کے بعد شروع ہوا تو اس کی عوام میں حمایت 88 فیصد تھی جو 2014 میں اس آپریشن کے اختتام تک 50 فیصد تک رہ گئی۔

ایک اور اہم فیکٹر جو کہ عرب بہار کی کوکھ سے نکلا ۔جی ہاں یہ داعش کا خراسان ونگ ہے جو اب افغانستان میں کنٹر ، ننگر ہارمیں منظم ہورہا ہے ۔ یہ عفریت اب ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے نیا درد سر بن چکا ہے ۔ ان دنوں ٹرمپ افغانستان کے سنگلاخ مسئلے سے نمٹنے کے لیے نئی پالیسی تشکیل دینے پر غور وغوض کر رہے ہیں۔ اور اب یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ ٹرمپ افغانستان میں مزید افواج اتارنا چاہ رہے ہیں ، گویا ایک بار پھر طاقت سے مزاحمت کو دبانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ لیکن اس بار ان کو طالبان کے ساتھ داعش کی شورش سے بھی نمٹنا ہوگا ۔ حالانکہ افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کہہ چکے ہیں کہ ہم افغانستان میں داعش کے ایک تہائی جنگجو ؤں کو کیفر کردار تک پہنچا چکے ہیں۔ لیکن ہمیں افغانستان میں داعش کی سرکوبی کیلئے مزید فورسز درکار ہوں گی ۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ داعش کی افغانستان میں تعداد کے بارے میں امریکی اور افغان حکام میں گہرا ابہام موجود ہے۔ امریکیوں کے نزدیک داعش کی تعداد 700 جبکہ افغان حکام کے مطابق یہ تعداد 1500 ہوسکتی ہے جن کو 8 ہزار سہولت کاروں کی مدد بھی میسر آتی ہے ۔فلم ’’وار مشین‘‘ میں افغان صدارتی محل میں فلمایا گیا وہ منظر بھی امریکی فوجی حکمت عملی پر ایک کڑو ے طنز کو ظاہر کرتا ہے ، جب حامد کرزئی اور جنرل گلین میک مون کی پہلی ملاقات ہوتی ہے جس میں بریڈ پٹ، کرزئی کے کردار نبھانے والے جہاندیدہ اداکار بین کنگسلے کو کہتا ہے کہ’’ جناب صدرہمارے پاس افغانستان کے امن کے حوالے سے ایک جامع حکمت عملی موجود ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ میرے ساتھ افغانستان کا ایک دورہ کریں تاکہ افغان عوام کو تاثر ملے کہ ہم ایک صفحے پر ہیں ۔ اس پر بین کنگسلے نے بریڈ پٹ کو گھور کر برجستگی سے کہا کہ ’’آپ سے پہلے تعینات جرنیل نے بھی یہی کہا تھا کہ اس کے پاس ایک نیا پلان ہے، لیکن کچھ نہیں بدلا۔ میں اس دورے پر جانے سے معذرت خواہ ہوں‘‘۔ میرے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ کو افغانستان کے حوالے سے ایک کانٹے دار پالیسی بنانے سے کچھ وقت ملے تو براہ مہربانی ایک بار فلم ’’ وار مشین‘‘ ضرور دیکھ لیں۔

About حسین جاوید افروز 84 Articles
حسین جاوید افروز جیو نیوز سے وابستہ صحافی ہیں۔