اردو کے پروفیسر حکومت پاکستان تشکیل دیتے ہیں

ایک خواب کی روئیداد

لکھاری کا نام
منزہ احتشام گوندل

اردو کے پروفیسر حکومت پاکستان تشکیل دیتے ہیں

از، منزہ احتشام گوندل

فیس بک پر اپنی وال دیکھتے ہوئے اچانک ساتھ والی پٹی پر نظر پڑی۔ ارے باپ رے۔ گورنر پنجاب کا اکاؤنٹ سامنے تھا، اور نیچے سبز رنگ میں انگریزی میں لکھا ہوا تھا۔

”add friend” اب کیسے توقف ہوسکتا تھا۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر میں بیٹھے بٹھائے گورنر پنجاب کی دوست بن گئی۔ تو بہت بچپن میں منجھلے چچا کی شادی پر گایا مراثیوں کا ایک بیاہ کا گیت بے اختیار یاد آگیا۔

؂ بنے گورنر کُنجیاں رکھیں پنجاب دیاں

تو اس حساب سے میں پنجاب کی گورنر تو نہیں، مگر گورنر کی دوست ضرور بن گئی کہ مجھ سے بھی زیادہ جلدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گورنر صاحب نے میری درخواست دوستی کو قبول کیا۔ ہر انسان اپنے ہی شعبہ کے لوگوں کا قدر شناس ہوتا ہے۔

اس خیال کے ساتھ ہی اپنے ابتدائی شعور کا زمانہ اور ایک فوجی جنرل کادور یاد آگیا۔ جب پنجاب کا گورنر ایک بریگیڈیئر ہوا کرتا تھا۔ اور ملک کے باقی تمام بڑے عہدوں پر بھی فوج کے بڑے بڑے افسر تعینات تھے۔

اور پھر ایک درمیان کے دور کے، درمیانے طبقے کے لوگوں کی حکومت کا زمانہ بھی نگاہوں کے سامنے آگیا جن کے گورنر کو مار دیا گیا تھا۔ وہ مارا جانے والا گورنر بھی ایسا ہی تھا جیسے وہ بر سر اقتدار لوگ تھے۔

دراصل جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ ساری سیاسی اور دفتری مشینری کے اوپر اپنے ہم مسلک، ہم مشرب اور ہم پیالہ و ہم نوالہ لوگوں کو نگران مقرر کرتا ہے۔ یہ اقتدار کو مضبوطی عطا کرنے کے لیے ضروری بھی ہے اور ایک قدرتی طریقہ بھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوں اور ایک بھاری اکثریت کے ساتھ ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہوں۔ یہ سارے ووٹ مجھے سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے دیے ہیں۔ نئی کابینہ، نئی سینٹ اور نئی وزارتوں کی تشکیل کا مسئلہ درپیش ہے۔ ملک کی باگ ڈور اب کے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور کھلاڑیوں کے ہاتھوں سے نکل کر پروفیسروں اور لکھاریوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔

لہٰذا تمام سابقہ منظر نامے کا بدلنا بے حد ضروری ہوگیا ہے تاکہ ملک کے تمام شعبوں کی از سرِ نو تشکیل کی جاسکے۔

کابینہ کے اجلاس کی تیاری ہے۔

مگر پہلے کابینہ تو تشکیل دے لی جائے۔ تقریباً سارے ہی سینئر پروفیسر کابینہ میں شامل ہوگئے ہیں جو بچ گئے ہیں ان کو سینٹ کے لیے رکھ لیا گیا ہے۔

کابینہ کے اجلاس کی تیاری ہے۔ اور کچھ بڑے بڑے عہدوں کے لیے نامزدگیاں ہونا ہیں۔ کچھ پروفیسرز کو نیند آگئی ہے اور کچھ کو لیکچر آیا ہوا ہے۔ مگر میں ان کو دونوں نامعقول حرکتوں سے باز رکھنے کی کوشش کررہی ہوں۔

معزز ممبران اپنے موجودہ عہدوں کا لحاظ کیجیے۔ اب خود کو کالجوں کے پروفیسر مت سمجھیے اب آپ لوگوں کی بھی کچھ اوقات ہے۔ میں انہیں سخت سست کہتی ہوں۔

تم تو کہتی تھیں ہم لوگ تبدیلی لائیں گے۔ اور اب خود ہی ہمیں ان سابقہ حکمرانوں جیسے ’’ایٹی کیٹ‘‘ پر مجبور کر رہی ہو۔ ایک پروفیسر جماہی لیتے ہوئے بڑبڑائے ہیں۔

تبدیلی ہم عملی سطح پر لائیں گے۔ اور یہ تبدیلی تب ہی آئے گی جب ہم خود بھی پہلے تبدیل ہوں گے تھوڑے بہت۔ میں وضاحت پیش کرتی ہوں۔


مزید دیکھیے: لوٹے جیسے طعنوں سے وہ اتنا پریشان نہیں ہوتے


ماحول’’تبدیلی‘‘ کے لفظ کی وجہ سے ذرا عمران خانی قسم کا ہوتا جارہا ہے، ( ذرا اس لفظ سے پرہیز کیا جائے۔) ایک طرف سے آواز بلند ہوتی ہے۔

میں آواز کی طرف دیکھتی ہوں۔ ایک ما بعد جدید نقادچلے آ رہے ہیں۔ آئیے سر آپ کی بڑی ضرورت تھی۔
یہ آپ لفظ ضرورت کے پس منظر سے آگاہ کریں گی مجھے؟ آپ اس لفظ کو کن معنوں میں استعمال کر رہی ہیں۔ مابعد جدید نقاد کرسی پر بیٹھتے ہوئے مخاطب ہوتے ہیں۔

جی ضرورت کا مطلب تو ضرورت ہوتا ہے۔ ضرورت تو ضرورت ہوتی ہے اچھی یا بُری، چھوٹی یا بڑی۔

آپ ’’اسلم رئیسانی‘‘ بننے کی کوشش مت کریں۔ بس آپ ’’ضرورت‘‘ لفظ کی ردِ تشکیل کریں۔ اس کے متن کو توڑیں پھوڑیں۔ حتیٰ الامکان اس کے پس منظر کے مطالب تک اپروج کریں تاکہ آپ کا اصل مفہوم مجھ تک ابلاغ ہوسکے۔ یہ کہہ کر نقاد صاحب کرسی کے ساتھ ٹیک لگا لیتے ہیں۔

دیکھیے نقاد صاحب! آپ یہاں بھی اپنی ما بعد جدید مباحث کو لے کر آ گئے۔ آپ ضرورت کے لفظ کی معنویت کو ’’شیخ رشید‘‘ کے نظریہ ضرورت کی طرف لے کر مت جائیں ورنہ خون خرابہ بھی ہوسکتا ہے۔

مجھے فی الحال وہ والی ضرورت نہیں یہ والی ضرورت تھی کہ آپ کو بھی ملک کے بڑے عہدوں میں سے ایک عہدہ عطا کرنا ہے۔ لہٰذا یہ دریدہ، سوسیر، رولاں بارتھ اور فوکو کو اپنی پٹاری کے اندر رکھیے اور شانت ہوکر بیٹھے جائیے۔

اب کس کا انتظار ہے؟ بی بی صاحبہ اب اجلاس شروع کیجیے۔ سبھی ممبر پورے تو ہیں۔ سستے برانڈ کے سگریٹ کے کش لیتے ہوئے ’’ایک نیم پروفیسر‘‘ کی آواز اُبھرتی ہے۔

ابھی کورم پورا نہیں ہوا۔ ’’الماس منیر’‘ خدا جانے کہاں مر کھپ گیا ہے۔ کم بخت کو وزیر اعلیٰ بنانے کا سوچ رہی ہوں اور یہ ہے کہ وہی حرکتیں، کھڑا ہوگا کسی دہی بھلے کی ریڑھی کے پاس۔ میں منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی ہوں۔ اتنے میں ’’الماس منیر‘ ‘کی آمد ہوجاتی ہے۔

کابینہ کا اجلاس شروع ہے۔ ملک کی صدارت کے لیے نام زیر غور ہیں۔ میں ملک کے تمام تر اعلیٰ عہدوں کے لیے ’’میرٹ ‘‘پیش کرتی ہوں۔

(۱)۔ ملک کا صدر ، وزیر اعظم ، چاروں صوبوں کے گورنر، قومی اسمبلی کا سپیکر کم از کم یونیورسٹی کے پروفیسر ہوں۔ جن کی تعلیمی قابلیت کم سے کم پی ایچ ڈی ہو۔

(۲)۔ چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کالج کے پروفیسر ہوں اور تعلیمی قابلیت ایم فل رکھتے ہوں۔

(۳) اس سے قبل کہ میں بولوں۔ کوئی اور بول پڑتا ہے ۔شق نمبر ۲ کے حساب سے تو ’’الماس منیر‘‘وزارت اعلیٰ کیلئے کوالیفائی نہیں کرتا۔ کیونکہ اس نے ابھی تک ایم فل نہیں کیا۔

یہ کون بے وقت بولا ہے۔ یہاں کابینہ کا اجلاس ہو رہا ہے کوئی پرنسپل میٹنگ نہیں کہ تم لوگ اپنی بھانڈ بازی یہاں بھی لگائے رکھو۔ آخر کب سدھرو گے تم لوگ؟

’’الماس منیر‘‘ کا مسئلہ میں حل کرلوں گی۔ ایک دوست کی خاطر میرٹ کی دھجیاں اڑانا کوئی بری بات نہیں۔ یہ رسم زمانہِ قدیم سے چلی آرہی ہے۔

شق نمبر ۳۔ یہ کہ کوشش کی جائے کہ تمام کی تمام سیاسی اور دفتری مشینری شعبہ ’’اردو ‘‘ والوں کی ہو۔ ہاں لوگ اگر کم پڑ جائیں تو دوسرے شعبوں سے بھی لیے جاسکتے ہیں۔ مگر کوشش کی جائے کہ باقی شعبوں کے لوگ بھی ہوں ادب کے ہی، یا زیادہ سے زیادہ languages کے ہوں۔ مثلاً، انگریزی، پنجابی، عربی، فارسی و غیرہ کے۔ اس سٹرکچر سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔

سبھی شقوں کو بیک جنبش قلم تسلیم کرلیا جاتا ہے۔
اب تمام ممبران ملک کے صدر کے لیے اپنے اپنے پسندیدہ نام پیش کریں۔

برسر اقتدار پارٹی کی رہنما بی بی صاحبہ جس کو پسند کریں اس کو صدر بنا دیں۔ ایک صاحب بزعم خود کالر جھاڑتے ہوئے تجویز پیش کرتے ہیں گویا کہ بی بی صاحبہ کے منظورِ نظر وہی ہیں۔

میں ان صاحب کو غور سے گھور کر دیکھتی ہوں۔ یہ چوہدری شجاعت حسین کی نشست سنبھالنے کے لیے کافی موزوں دکھائی دے رہے ہیں۔ شاید کبھی ان کا کردار بھی ادا کرتے رہے ہوں۔ چلو مٹی پاؤ۔ صدر کے لیے نام پیش کیے جائیں۔

اجلاس میں جس نام کو مشترکہ طور پر منظور کر لیا جاتا ہے، وہ نام ’’صدر شعبہ اردو، جامعہ سرگودھا ‘‘ کا ہے۔

’’صدر شعبہ اردو جامعہ سرگودھا‘‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے تعلیمی صدر ہوں گے۔ مشترکہ تجویز پر دستخط کردیے جاتے ہیں۔

صدر شعبہ اردو، بی زیڈ یو پنجاب کے نئے گورنر ہوں گے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا قلمدان ’’الماس منیر‘‘ سنبھالیں گے کہ صوبے سے باہر جانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ویسے بھی گورنر اور وزیر اعلیٰ کی جوڑی میں اشتراک ضروری ہے۔

مابعد جدید نقاد کو خیبر پختونخواہ کے گورنر کا عہدہ دیا جاتا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں ابھی مزید توڑ پھوڑ کی ضرورت ہے، اور ’’نیم پروفیسر‘‘ وہاں کے وزیر اعلیٰ ہوں گے شکایت سے وہیں کے معلوم ہوتے ہیں۔

سندھ کی گورنر کی کرسی ’’ایک نئے ابھرتے ہوئے ادیب‘‘ سنبھالیں گے کہ وہاں کے حالات کے پیش نظر یہی مناسب ہے۔ اور وہاں کے وزیر اعلیٰ ہوں گے جناب ’’ایک معروف اردو کے محقق‘‘ دونوں کو کام نہیں کرنا پڑے گا۔

بلوچستان کے گورنر جناب ’’فرہنگ نویس‘‘ ہوں گے اور وزیر اعلیٰ جناب ’’ماہرِ قواعد و انشاء‘‘ زیادہ موزوں ومناسب معلوم ہوتے ہیں۔ ادب میں بھی جرگے بٹھائے رکھتے ہیں۔ ان اعلانات کے بعد اجلاس ختم ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک کے تمام نئے اور بڑے عہدیداروں تک ان کے عہدوں کی خبر اور تقرر نامے پہنچ گئے ہیں۔ سوائے محترم صدر صاحب کے۔

صدر صاحب تک اطلاع پہنچے تو کیسے۔ کہ فون تو وہ اٹھاتے نہیں۔ بار بار نمبر ملایا جارہا ہے مگر ”not answering” جا رہا ہے۔

کچھ دیر کے بعد دوبارہ نمبر ملایا جاتا ہے جس کو صدر محترم نے busy کردیا ہے۔ ناچار ایک لمبا چوڑا پیغام لکھ کر  send کیا جاتا ہے، مگر اس کا بھی کوئی جواب نہیں آتا۔ کچھ دیر توقف کیا جاتا ہے۔
کہیں سو نہ رہے ہوں؟ قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

laptop پہ بیٹھے ہوں گے۔

کہیں کسی ہوٹل یا ڈھابے کے سامنے بیٹھے گپ لگا رہے ہوں گے۔

ملک کے مجوزہ صدر تک یہ اطلاع کس طرح پہنچائی جائے۔ کابینہ ایک بار پھر اکٹھی ہوتی ہے۔ طے پاتا ہے کہ چند معزز ارکان بنفس نفیس جاکر یہ اطلاع بہم پہنچائیں اور گزارش کریں کہ ’’صدر محترم ‘‘اب عہدہ سنبھالیے۔ اور کم از کم حلف برداری کی تقریب تک تعاون فرمائیے۔ اس کے بعد بے شک ڈھابے پر یا  Laptop کے سامنے بیٹھے جائیے گا۔ باقی کے کام ہوتے رہیں گے۔

ممکنہ صدرِ محترم ایک ہوٹل کے چبوترے پر بیٹھے مل جاتے ہیں۔ اطلاع دی جاتی ہے۔ صاف انکاری ہو جاتے ہیں۔ مجھے کسی نے بتایا تک نہیں اور صدر بنا دیا۔ غصے میں آجاتے ہیں۔

حضور آپ کو پچیس لوگوں نے باجماعت دو سو پچاس مرتبہ فون ملایا مگر آپ نے اٹھایا ہی نہیں۔ وضاحت کی جاتی ہے۔

کس نے فون کیا؟ میری طرف ایک بھی  Bell نہیں آئی تم لوگوں کی۔

صدرِ محترم صاف مُکر جاتے ہیں۔

Message بھی کیا تھا۔ ارکان کے منہ رونے والے ہو چکے ہیں۔ میری طرف کوئی Message نہں آیا ( صاف انکار)

چلیں جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔ اب ازراہ کرم ہمارا ساتھ دیجیے۔ تاکہ حلف تک کے مراحل طے ہوسکیں۔ ہاں اس کے بعد قوم سے آپ کو ہلکا سا خطاب کرنا ہوگا۔ اس کے بعد چھٹی۔

صدرِ محترم بادل نخواستہ، چار و نا چار تیار ہوگئے ہیں۔ تقریبِ حلف برداری ہوگئی ہے اگرچہ حلف نامہ پڑھنے سے قبل صدرِ محترم نے بخار اور گلے میں درد کی شکایت مگر وہ چائے میں جوشاندہ ڈال کر رفع کردی گئی۔ اور اب قوم سے خطاب کا مرحلہ درپیش ہے۔

صدرِ محترم! لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف ہیں دیگر سرگرمیاں بھی ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ نمبر بار بار ملایا جارہا ہے جس کو اٹھانے کی طرف صدرِ محترم متوجہ نہیں ہو رہے۔ خوشا کہ نمبر اٹھا لیتے ہیں۔

جناب صدر ۔ قوم سے خطاب کا دن مقرر ہو چکا ہے۔ سب تیاری مکمل ہے۔ آپ تیار ہیں ناں؟ کنفرمیشن دے دیں۔ جی میں بالکل تیار ہوں۔ آپ بے فکر ہوجائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب تیاری مکمل ہے۔ میں بھی ٹی وی کے سٹوڈیو کے باہر موجود ہوں۔ پروڈیوسر اور انجینئرز سب تیار ہیں۔ کیمرہ مین کیمرے کو بس مخصوص زاویوں پہ Set کر کے On کرنے کے حکم کے منتظر ہیں۔ پروٹوکول اور سکیورٹی لگی ہوئی ہے۔ مگر صدرِ محترم ابھی تک نہیں پہنچے۔ کتنی ہی دیر گزر جاتی ہے۔ان کا نمبر ملایا جاتا ہے مگر وہی ڈھاک کے تین پات، فون کو اٹھایا ہی نہیں جاتا۔

جب سب کو معلوم ہے کہ وہ فون نہیں اٹھاتے تو پھر کیوں سارے کے سارے ان کو فون کر رہے ہو۔ میں خجالت کے انداز میں باقی تمام لوگوں پر چلاتی ہوں کہ اتنے میں سٹوڈیو کا دروازہ ایک دھماکے کے ساتھ کھلتا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب مسٹر الماس منیر افتاں وخیزاں اندر آجاتے ہیں۔

سب فون چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔
کیا ہوا وزیر اعلیٰ صاحب خیر تو ہے۔۔۔!

جی جی، بس خیر ہی سمجھیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب وضاحت کرکے مطمئن کرتے ہیں اور پھر آہستہ سے پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر کاغذوں کا ایک پلندہ نکالتے ہیں۔

یہ کیا ہے؟ میں حیران ہو کر پوچھتی ہوں۔

صدر محترم کی تقریر ہے میں ان کی جگہ خطاب کرنے آیا ہوں۔

کیا ؟ وہ خود کدھر ہیں۔

بس! وہ انہوں نے کہا جاؤ میری جگہ خطاب کر آؤ۔

مگر وہ خود کیوں نہیں آئے ؟

ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔

کیوں کیا ہوا؟

ان کو بخار ہے اور خاص طور پر ’’گلہ‘‘ خراب ہے ان کا

۔۔۔۔۔۔

(دروازہ زور سے بجا اور میری آنکھ کھل گئی۔)