پھٹیچر، ریلو کٹہ اور نیرو

aik Rozan writer
معصوم رضوی، صاحبِ مضمون

(معصوم رضوی)

 
ذرا بتائیے کہ 2012 اور 2016 کا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیتنے والا کپتان اگر پھٹیچر، ریلو کٹہ ہو سکتا ہے تو 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے والا کپتان کیا کہلائے گا۔ بہرحال قوم کو عمران خان کا مشکور ہونا چاہیئے کہ انہوں نے لفظ پھٹیچر کو نئی زندگی عطا کر دی اور ریلو کٹہ بھی متعارف کروا دیا۔ بہت سے الفاظ وقت کے ساتھ متروک ہوتے جا رہے ہیں یا انکا استعمال کم ہو چکا ہے۔ پھٹیچر بھی ایسا ہی ایک لفظ ہے مگر اب ملک بھر میں گونج رہا ہے۔ کیا کہا جائے کہ ہمارے قابل عزت سیاسی رہنما کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہتے ہیں کہ عوام حیران رہ جائیں، سیاسی قائدین کا غیر مہذب رویہ معاشرتی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ کچھ سیاستدان اس فن میں ایسے طاق ہیں کہ انکا ہمسر کوئی نہیں، گھٹیا اور لچر زبان کا استعمال، ذومعنی اور بیہودہ جملے اور بعض اوقات نوبت گالم گلوچ تک جا پہنچنا معاشرتی زوال کا بیانیہ بن چکا ہے۔
عمران خان دبنگ انسان ہیں بے دھڑک بڑے فیصلے لمحے میں کر لیتے ہیں، بلاجھجھک جس کو جو چاہے کہہ ڈالتے ہیں۔ لاہور میں سپر لیگ کی مخالفت ایک غیر مقبول رویہ ضرور تھا مگر امن و امان کی صورتحال کی پیش نظر انکو اپنی رائے رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔مخالفت درست ثابت کرنے کیلئے عالمی شہرت یافتہ غیر ملکی کھلاڑیوں کیلئے پھٹیچر لفظ کا استعمال اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے۔ پھٹیچر کی تو خیر ہے، پنجابی زبان سمجھ تو لیتا ہوں مگر ریلو کٹہ سمجھ میں ہی نہ آیا، تو فون کیا اسلام آباد میں عزیزی عثمان عادل بٹ کو اور ان سے لفظ کے لغوی اور معنوی اہمیت سے واقفیت حاصل کی، ریلو کٹہ کا مطلب ایسا چھوٹا بچھڑا ہوتا ہے جو کبھی اس جانب تو کبھی اس جانب، بے حیثیت اور بے وقعت، عمران خان آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہیں، ماشاللہ اشرافیہ سے تعلق بھی رکھتے ہیں، اسکے باوجود یہ رویہ ناقابل فہم ہے، اب تک کوئی معذرت بھی سامنے نہیں آئی۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کیلئے بیہودہ اصطلاحات کے دفاع سے انکے جانثار بھی مجبور نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین اس موقعے کو بھلا کیسے جانے دیتے، مگر حیرت تو اس بات پر ہے کہ مذمت کرنے والوں میں عابد شیر علی، رانا ثنا اللہ اور خواجہ آصف جیسے افراد بھی شامل ہیں۔ بہرحال یہ معاملہ پھٹیچر اور ریلو کٹہ سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ پشاور زلمی کی ٹیم نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے دی گئی اعزازی تقریب ٹھکرا دی۔ مراد سعید اور جاوید لطیف کے درمیان قومی اسمبلی کی لابی میں جو کچھ ہوا اسے صرف افسوسناک قرار دیکر نہیں بھولا جا سکتا۔ کسی کے خاندان سے متعلق بیہودہ گوئی کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ جاوید لطیف کی عظمت ملاحظہ فرمائیے کہ دو غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مراد سعید کو معافی بھی عنایت کردی۔
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
کرتے ہیں قتل ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
سیاستدان ایک دوسرے پر چوٹیں کرتے رہتے ہیں، اس میں یقینی طور پر اعتراض کی کوئی بات بھی نہیں، مگر وضعداری، احترام اور معاشرتی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں۔ سیاسی قائدین تو ویسے بھی معاشرے میں ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں، چھوٹا یا بڑا سماجی گروہ انکے ساتھ جڑا ہوتا ہے، اگرعوامی نمائندگی کرنیوالے یہ افراد معاشرتی اقدار کیساتھ کھیلنے لگیں تو پھر اللہ ہی حآفظ ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی تعریف نہ کرنا ناانصافی ہو گی کہ سندھ کے وزیر امداد پتافی کو خاتون رکن نصرت سحر عباسی سے ذومعنی جملہ کہنے کی معافی سر عام مانگنی پڑی، اسی حوالے سے متنازعہ ماضی رکھنے والے عرفان اللہ مروت، سابق صدر آصف زرداری سے ملاقات کے باوجود پیپلز پارٹی میں داخلے سے محروم رہے۔ کیا عوام یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے کہ جمہوریت کا درس دینے اور پھل کھانے والی جماعتوں میں کتنی جمہوریت ہے۔ گالی دینے والے رکن کو سزا دینے کے بجائے جماعتیں ان کے پیچھے کیوں کھڑی ہو جاتی ہیں؟ جو اعلیٰ قیادت کارکنان کی زبان پر قابو نہیں رکھ سکتی وہ عوام کا خیال کس طرح رکھ سکتی ہے، کیا اس سیاسی رویے کو پھٹیچر نہیں کہنا چاہیئے۔
 
شاید عمران خان ہی درست ہیں پورا معاشرہ پھٹیچر ہو چکا ہے اور سبب کوئی اور نہیں یہ ریلو کٹہ سیاسی قائدین ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے خواجہ آصف نے شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ کر پکارا، پارٹی قیادت کی جانب سے کوئی کارروائی کی گئی ہوتی تو شاید آج سعد رفیق، جاوید لطیف کیساتھ کھڑے نہ ہوتے۔ شاید امداد پتافی بھی کبھی معافی نہ مانگتے اور عرفان اللہ مروت پیپلز پارٹی میں ہوتے اگر بختاور اور آصفہ زرداری دوٹوک موقف نہ اختیار کرتیں۔ لگتا ہے سیاستداں پاکستان تمام اندرونی اور بیرونی مسائل حل کرنے کے بعد چہلیں فرما رہے ہیں۔ آخر یہ جمہوریت کا کونسا حسن کے کہ عوام کی آنکھیں چکاچوند ہو گئی ہیں۔ عوام کی نمائندگی کرنیوالے طبقہ اشرافیہ نمائندے جب چاہیں شرمناک حرکت کر جائیں اور کوئی پکڑ نہ ہو تو اس زبانی دہشتگردی کی ذمہ دار اعلیٰ قیادت کو ہی ٹہرایا جائیگا۔
معاف فرمائیے گا جب جب ملک میں سیاسی حکومت ہوتی ہے سیاستدان ہر محاذ پر اس قدر مادر پدر آزادی کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ عوام متنفر ہو جائیں اور غیر جمہوری قوتیں ایسے مواقع کی منتظر ہوتی ہیں۔ آج پاکستان دہشتگردی کے خلاف اکیلا جنگ لڑ رہا ہے، نہ مشرقی سرحد محفوظ ہے نہ مغربی، لڑکھڑاتی معشیت سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اندرونی محاذ پر کرپشن، پاناما لیکس اور دیگر سیاسی اسکینڈلز میں گھرا ہوا ہے۔ پانی، تعلیم، صحت، لوڈ شیڈنگ سہتے عوام دہشتگردوں کا لقمہ بن رہے ہیں اور سیاستدان جگتیں لگانے میں مصروف ہیں۔ کیا ستر سال میں ہمارے سیاستدان یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ عوام کے مسائل اور انکا حل کیا جائے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ سیاسی رہنما اتنی قابلیت اور صلاحیت نہیں رکھتے کہ منصب کا حق ادا کر سکیں؟ آج بنگلہ دیش اور سری لنکا ہم سے کہیں آگے ہیں، خدشہ ہے کل افغانستان، نیپال اور بھوٹان بھی پیچھے نہ چھوڑ جائیں۔ معاملہ صرف سیاسی قائدین تک محدود نہیں، آمرانہ حکومتوں نے عوام کو کونسا سکھ دیدیا، ضیا اور مشرف کو عوام آجتک بھگت رہے ہیں۔ معاملہ صرف قائدین تک بھی محدود نہیں، یہ عوام ہی ہیں جو کرپٹ، بیہودہ اور بے حس سیاستدانوں کو منتخب کرتے ہیں۔ بس یہ حقیقت سمجھنا ہو گی کہ کامیابی کی چابی رہنمائوں کے پاس نہیں بلکہ عام انسان کے ہاتھ میں ہے۔
19 جولائی 64 عیسوی کو روم میں ایسی آگ لگی کہ پورا شہر خاکستر ہو گیا، سیکڑوں افراد جل مرے، ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے، کہتے ہیں ایسے میں روم کا شہنشاہ نیرو پہاڑی پر بیٹھا شعلوں کے منظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بانسری بجا رہا تھا۔ مانیں یا نہ مانیں حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے قائدین نے پوری قوم کو پھٹیچر اور ملک کو ریلو کٹہ بنا دیا ہے۔ ایک بار ذرا غور سے جائزہ لیں، پاکستان میں بھی بہت سارے نیرو موجود ہیں بس پہچاننے کی ضرورت ہے