ڈیئر شیکسپیئر! ایاگو ما بعد سچائی، پوسٹ ٹروتھ ، کے دور کا ہیرو ہے

بھارت میں سماج وادی اور غیر برابری پر مبنی سیاست، پوسٹ ٹروتھ
پروفیسر منوج کمار جھا

ڈیئر شیکسپیئر! ایاگو ما بعد سچائی، پوسٹ ٹروتھ ، کے دور کا ہیرو ہے

تحریر: پروفیسر منوج کمار جھا ، شعبہ سوشل ورک ، دہلی یونیورسٹی، نئی دہلی، بھارت  

مترجم: ابو اسامہ ، شعبہ سوشل ورک ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد، بھارت

دائیں بازو اور بائیں بازو کے درمیان ماضی میں ایک زبردست بحث ہوچکی ہے جس میں دائیں بازو نے اپنے حریف کو حاشیے پر ڈالنے کے پورے سامان اکٹھا کر لیے ہیں۔ جیسا کہ اس مشہور تاریخی واقعے سے  ہمیں پتہ بھی چلتا ہے جس میں 1789 کے بعد فرانسیسی اسمبلی میں بادشاہ کے حامی دائیں طرف اور انقلابی لوگ بائیں طرف بیٹھے تھے۔  تاہم اس وقت سے لے کر اب تک کافی کچھ بدل چکا ہے۔

عالمی تاریخ نے بائیں بازو، دائیں بازو اور مرکزی حلقوں کے تمام ہیجان خیز سیاستدانوں کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ لیا ہے۔ اور دایاں بازو مابعد سچائی (پوسٹ ٹرتھ ) کا ساتھی اور ہم سفر بن کر رونما ہوا ہے جو حقائق کو مسخ کرنے اور ایک خاص قسم کی آراء بنانے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

2004 میں رالف کییز نے اپنی کتاب ‘دی پوسٹ ٹرتھ ایرا’ میں یہ بحث کی تھی کہ عوامی اور سیاسی زندگی بے ایمانی اور فریب سے جانی جاتی ہے مگر ہمیں یہ سب دیکھ کر ذرا بھی تکلیف نہیں ہوتی ہے اورہم ایسی صورت حال سے خوش بھی رہتے ہیں جبکہ  یہ ہماری اس بے ایمانی پر کوئی مناسب دلیل فراہم نہیں کرتی ہے۔

نتیجتا ہم بے ایمانی اور فریب کو پسند کرنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ بعض دفعہ ہمارے درمیان  بہت سارے لوگ یقین و اعتماد  کے اس خراب پروڈکشن کے علمبردار بھی بن جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں ایسی مثالیں ہمارے مشاہدے میں آتی ہیں جہاں عوامی زندگی میں لوگ صداقت اور دیانت داری سے کھلواڑ کرتے ہیں مگر الیکشن جیت کر عظیم لیڈر بنے رہتے ہیں۔

ما بعد سچائی کی سیاست کا عروج نہ صرف پروپیگنڈہ سیاست سے مناسبت رکھتا ہے بلکہ غیر معمولی سماجی ٹوپوگرافی اور دبائی گئی سماجی حقیقت پر رواں دواں ہے۔ ما بعد سچائی کے اس دور میں دائیں بازو کی بیشتر چیزیں باہمی طور پر یکسانیت رکھتی ہیں جن میں سب سے بڑا موضوع یہ ہے کہ کھلی ہوئی اور واضح سماجی اور معاشی صورت حال سے بے اطمینانی کو زبردستی لوگوں سے منوایا جا رہا ہے۔

کچھ محققین کے برعکس، جو ما بعد سچائی کو نیو لبرل معیشت کا اینٹی تھیسس اور رد عمل سمجھتے ہیں، ثبوت اس بات کے ہیں یہ اسی  پولیٹکل اکانومی کی ایک  بڑھی ہوئی شکل ہے۔  اس خاص  نکتہ کو سمجھنے کے لیے جدیدیت کے پس منظر میں نسل کشی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پرائم ٹائم ٹی وی مباحثوں میں ما بعد سچائی کے مکالموں اور بحثوں نے اس سماج میں جذباتی بے چینی پیدا کی ہے جو کہ مسلسل ہسٹریائی علامتوں کے ذریعہ پیدا کی گئی ہے۔

ما بعد سچائی کے اس منظر نامے نے ہی ایک مضبوط کرشمائی لیڈر کے لیے راستے ہموار کیے ہیں جو ما بعد حقیقی مکالموں کا ماہر ہے اور ایسی چیزوں کو فراہم کرنے کے دعوے کرتا ہے جو کبھی بھی مہیا نہیں کرائی جا سکتی ہیں۔ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہماری بد نصیبی بھی ہے کہ لوگ ایسے لیڈران کی باتوں کی چھان بین کرنے کے بجائے ان کی  باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔

وہ ایسے مضبوط لیڈروں پر اپنا تمام تر عقیدت نچھاور کر دینے کے لیے اتاؤلے ہورہے ہیں اور ان کی تابعداری کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ مزید برآں لوگ  اپنے لیڈر کی ہر بات پر  یقین کرلیتے ہیں حتی کہ اگر وہ کہتا ہے کہ، “اگر میں الیکشن نہیں جیت پایا تو سمجھ لینا کہ اس میں بے ایمانی ہوئی ہے۔”

تو یہ دعوٰی بھی ان کو بخوشی قبول ہے۔ یا ہمارے وطن کے ایک’ سپوت’ نے یوپی کے انفراسٹرکچرکے سلسلے میں کہا کہ، “یہاں بجلی فرقوں کی بنیاد پر سپلائی کی گئی ہے۔” اس موقع پر  یہ بھی یاد کرنا اہم ہوگا کہ اس جملہ  پر جب ایک بڑے ٹی وی اینکر نے بی جے پی کے اسٹار کیمپینر اور یوپی کے موجودہ وزیر اعلٰی کو بجلی کی تقسیم کے سلسلے میں حقائق بتائے تو انہوں نے ایک بڑا آسان سا  جواب دیا کہ، “حقائق میں کیا رکھا ہے؟ آخر عوامی رائے بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔”

یہ مابعد سچائی ڈسکورس کے اصلی مباحث کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے ساتھ دایاں بازو بہت ہی خوش طبعی سے مزے لے رہا ہے۔ مگر  اس سلسلے میں کاش ان سے یہ سوال پوچھا جاتا کہ عوامی زندگی میں عوامی جذبات کیسے حقائق پر سبقت لے جا سکتے ہیں؟ مگر یہ وقت  تو “دو بلین روزگارفراہمی کی گارنٹی ہے” کا ہے۔  واقعی یہ ایسا دور نہیں ہے جس میں عقلیت اور دلیل کی بنا پر بات کی جائے۔

تیزی سے بڑھتا ہوئے زینو فوبیا کا احساس اور “ہمارے بنام تمہارے ” کی بات بہت تیزی سے پھیل رہی ہے  جس نے ہمیشہ  دائیں بازو کو اچھے مواقع فراہم کیے ہیں اور جس سے  انہوں نے صورت حال پر ایسے وقت میں قابو پا لیا جب کہ سیاسی حالات مکمل طور پر ان کے خلاف تھے۔ اس دور میں کسی خاص کمیونٹی یا قوم کو راندہ درگاہ کرنا ایک خوبصورت فن ہے جسے دایاں بازو بڑی بے دردی سے استعمال کر رہا ہے۔

اس طرح مہاجروں کی ایک قوم دوسرے ‘مہاجروں’ کو وطنیت اور تاریخ کا سبق پڑھا رہی ہے اور ہم ہندوستان کے ہر علاقے میں کچھ خاص گروپ کو سماجی تعامل سے خارج ہوتا ہوا  دیکھ رہے ہیں جو ہمارے لیےنسبتا  نیا مگر  ایک قابل قبول بیانیہ ہے۔

ہندتوا سیاست کی تیز رفتار تبدیلی جو ایک چھوٹی سیاست سے ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی میں تبدیل ہوگئی ہے وہ دراصل سماجی انصاف کے ڈسکورس کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اکثریت – اقلیت قوموں کے درمیان دوری پیدا کرنے کی مسلسل جد وجہد کے سبب ہی ممکن ہو پایا  ہے۔ موجودہ سیاسی ڈھانچہ اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ لبرل ڈیموکریٹک آوازوں کو بنا  فیئر ویل گانا گائے ہی رخصت کر دیا گیا ہے۔

دوسری طرف  ہم بطور فرد، طلبا ، اساتذہ، مزدور، شیکسپئر کے ڈاکٹر، انجینئر اور سیاسی پارٹیوں سمیت  سیاسی پروسیس کی حرکیات اور اس میں غیر برابری کو متوازی کرنے کی چھپی ہوئی صلاحیت اور فرسودگی  کو پوری طرح سے سمجھنے اور سراہنے میں ناکام  ہیں۔  ہم تو کام کرنے والی ایک سنجیدہ جمہوریت کی مثال بنانے میں بھی بر ی طرح فیل ہوگئے ہیں۔

اس ما بعد سچائی کی فتح کے دور میں آزادی اور ول آف رائٹ اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ گورنمنٹ پر ایک ہلکی پھلکی تنقید کو بڑی آسانی سے ‘اینٹی نیشنل’ کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ شور شرابے کے اس ماحول میں شاید ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ایک محب وطن کو اپنے ملک کی خاطر حکومت پر تنقید کرنی پڑتی ہے۔ جہاں کہیں بھی دائیں بازو نے برتری حاصل کی ہے وہاں حکومت خود کو ‘نیشن’ کے مترداف سمجھ کر عوام سے رو بہ رو ہوتی ہے۔

چند میڈیا گھرانوں کی بے لوث حمایت سے سرشار حکومت اپنے ہی شہریوں کے خلاف سخت اقدامات لینے سے گریز نہیں کرتی ہے جو بذات خود قانونی سبقت اور برتری کا ایک کھلا مذاق ہے۔ لیکن یہ ایک عظیم لیڈر کی کرشمائی شخصیت کے شور شرابے میں کھو گیا ہے جو اس ملک کو ایک بار پھر سے ‘عظیم’ بنانے کے فراق میں ہے۔

مابعد سچائی کے دور میں دائیں بازو کی حکومت ظالم اور مظلوم کے درمیان فرق کرنے کے لیے غیر جانبداری کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتی ہے۔ پسماندہ دلتوں اور اقلیتوں کے ساتھ اونچی ذات اور دوسرے ظالم گروپ کے درمیان بھی تفریق نہ کرنا ایک منظم سیاسی ضرورت ہے۔

اس دور میں یہ نیا دایاں بازو قومیت کے خوبصورت خیالات کو صرف اپنے بے رونق نکتہ نظر کے چشمے سے دیکھتا ہے جبکہ اسے  ایسی  آوازوں پر ہمدردی سے کان دھرنا چاہیے جو بنیادی طور پر ان سے متفق نہیں ہیں اور  جواپنے ملک و قوم سے ان کی بہ نسبت سے زیادہ ہی پیار کرتے ہوں گے۔ اس طرح کے آدھے ادھورے سچ، نادانی پر مبنی ثبوت اور عمومی یقین و مقبولیت کو کسی بھی خیمے سے چیلنج نہیں کیا جا رہا ہے اگر بہ حسن اتفاق انہیں کبھی چیلنج کیا بھی جاتا ہے  تو ان آوازوں کو اس عظیم لیڈر کی کرشمائی قوتوں اور انہونی کو ہونی کر دینے والے شخص کے ہنگامے میں دبا دیا جاتا ہے۔ مزید زندگی اور ذریعہ معاش کے بنیادی سوالوں پر   پردہ ڈال  کر انہیں عوامی زندگی سے اوجھل کرنےکے  حربے استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ یہ سوالات  موجودہ تعصبات اور دقیانوسیت پر ایک ڈسکورس کھڑا کرسکتے ہیں۔

حصہ داری اور نمائندگی کی جمہوریت نے تقریبا اپنی چمک کھودی اور اس کی جگہ پرانی جمہوریت نے لے لی ہے۔ ہندوستانی قانون اور موجودہ ہندوستان کے معمار بی آر امبیڈکر کو اس موقع پر یاد کرنا ضروری ہے جنہوں نے 1950کی دہائی میں عوام کو آگاہ کیا تھا کہ ہندوستان میں جمہوریت ایک ہندوستانی کا اوپری کپڑا ہے جو بنیادی طورپر غیر جمہوری ہے۔

اب تو یہ اوپری کپڑا بھی اس موجودہ دائیں بازو کے دورمیں غیر مقبول ہوگیا ہے۔ مزید انہوں نے ہمیں اس بات سے بھی آگاہ کیا تھا کہ ہیرو پرستی جمہوریت کے عناصر کو پوری طرح تباہ کردے گی۔  بابا صاحب امبیڈکر کے اس نکتہ نظر کو بھول کر ہماری ایک اچھی خاصی تعداد دوسرے راستے پر چل پڑی ہے جہاں ان کا’ ہیرو ‘کہتا ہے کہ ‘میرے دور حکومت سے پہلے کے ستر سال میں کچھ تعمیری کام نہیں ہوا ‘ تو ہم اس کو آسمانی حقیقت سمجھ کر اپنے سینے سے لگا لیتے ہیں۔

مابعد سچائی دور کے کچھ عظیم دائیں بازو کے لیڈران  کی سیاسی زندگی کو دیکھ کر شیکسپئر کے شہرہ آفاق ڈرامے اوتھیلو کا کردار ایاگو یاد آجاتا ہے۔  جس میں شیکسپئرنے  ایاگو کو ایک معمہ کے طور پر پیش کیا ہے جس کی زبان سے نکلا ہوا ایک  بھی لفظ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ اس ڈرامے میں شیکسپئر نے ایاگو کو ایک بہت ہی ایماندار اور سچے کردار کی شکل میں  پیش کیا ہے لیکن وہ انتہائی  خوبصورتی سے جھوٹوں کا اختراع کرتا ہےتا  کہ لوگوں اور صورت حال کا استحصال کر کے  اپنی خواہشات کی تکمیل   کرسکے۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ شیکسپئر نےایاگو کردار کا آئیڈیا  اس وقت کے مذہبی ڈراموں سے مستعار لیا  تھا۔  ایاگواس ڈرامہ میں ہمیشہ کہتا ہے’ میں وہ نہیں ہوں جو میں ہوں ‘ جس کا آسان مفہوم یہ ہے کہ’میں وہ نہیں جو میں دکھائی دیتا ہوں’۔ وہ ایک بڑا قصہ گو ہے جو ایسے وعدے کرتا ہے جو کبھی بھی پورے نہیں ہوتے ہیں۔ ایاگو ہمیشہ لوگوں کی مجبوریوں اور ان کے حالات کا فائدہ اٹھاتا ہے۔

چنانچہ اس قسم کی سیاست کو آغوش تصور میں لانا ذرا بھی مشکل کام نہیں ہے۔ عوامی زندگی میں ہر جگہ ایاگو جیسے کردار موجود ہیں جو قصہ گوئی کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں مضبوط لیڈر کےذریعہ پیدا کیے گئے اس  بھرم پر حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ وقت میں ان کے حامیوں کی تعداد تو انسانی تاریخ کی ایک مثال ہے۔