ستائیس رمضان اور تاریخی افسانے

Raza Ali aik Rozan
رضا علی، صاحب تحریر

ستائیس رمضان اور تاریخی افسانے

رضا علی

آپ نے یہ جملہ تو سنا ہو گا کہ لوگ ‘خواہش کو خبر’ بناتے ہیں۔ چلیں خبر تو روز بدلتی ہے اگر کوئی بنا بھی دے تو بعد میں غلط ثابت ہو جاتی ہے۔ لیکن زیادہ بڑی برائی یہ ہے کے خواہش کو تاریخ بنا دیا جائے۔ چودہ اگست آنے والا ہے اور پھر ٹی وی بیٹھے تاریخ دان ہمیں پاکستان کی آزادی کے بارے میں قصّے کہانیاں سنائیں گے جس کا تعلّق تاریخ سے کم اور ان کے نظریات سے زیادہ ہو گا۔ ایسی نظریاتی تاریخ دانوں کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ انہیں ریسرچ سے پہلے پتا ہوتا ہے کہ نتیجہ کیا نکلنا ہے۔ پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ تاریخ کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ہمارے ایک ایسے ہی نظریاتی تاریخ دان نے ‘سایہ خدائے ذوالجلال’ کے نام سے جنگ میں ایک آرٹیکل لکھا۔ میں انہیں صرف ڈاکٹر صاحب کہوں گا۔ انہیں یہ بات ثابت کرنے کا بہت شوق ہے کہ پاکستان ایک خدائی پلان کے تحت بنا تھا اور پاکستان کا ستائیس کو بننا ہمارے لیے ایک نشانی ہے۔ میں اس بات کو چیلنج نہیں کروں گا کہ 15 اگست 1947 کو ستائیس رمضان اور جمعہ تھا۔ لیکن مجھے ان کے نکالے ہوے نتائج پر اعتراض ہے۔

چلیں اگر یہ مان بھی لیں کہ پاکستان اتنے بابرکت دن بنا تھا تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انڈیا، جسے ہم اپنا دشمن کہتے ہیں اور شرک کا عالمی مرکز سمجھتے ہیں، وہ بھی اسی دن بنا تھا! اب الله نے ایک ہی دن اس پاک سر زمین جس پر اسلام نافذ ہونا تھا اسے بھی آزاد کیا اور جس ملک میں شرک کا بول بالا ہونا تھا اسے بھی؟ اب انسان کے ہاتھ میں تو اتنی طاقت نہیں لیکن الله تو کم از کم انڈیا کو رمضان کے بعد آزادی دے کے ہمیں یہ پکا ثبوت دے دیتا کہ یہ اس کا پلان ہے؟

چلیں چھوڑیں۔ ویسے نہ ہم 15 اگست کو یوم آزادی مناتے ہیں نہ ستائیس رمضان کو۔ ہم تو چودہ اگست کو اس ملک خداداد کا جشن منائیں گے اور وہ اگر 1947 کی یاد بھی اگر تازہ کرتی ہے تو وہ چھبیس رمضان بنتی ہے، جسے ہم عام طور پر شب قدر نہیں سمجھتے کیوں یہ یہ طاق نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب شب قدر کی برکت پر ایک لمبی اور غیر ضروری تقریر کرتے ہوے یہی شکایت کرتے ہیں کہ ہم کیوں عیسوی کیلنڈر پر چلتے ہیں؟

ہمیں اسلامی کیلنڈر پر چلنا چاہیے تا کہ آزادی ستائیس کو منائی جا سکے۔ جو ‘منشاء الہی’ کے مفروضے پر میں مسلہ اٹھا چکا اس کے آگے یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ اسلامی تاریخیں چاند نظر آنے پر منحصر ہوتی ہیں اور ایک ہی دن پاکستان میں دو عیدیں اور دو مختلف ستائیس بھی ہوتی ہیں۔ تو پھر ایسی تاریخ جس پر پاکستانی خود متفق نہیں ہو سکتے اور باقی دنیا کے مسلمان بھی شامل نہیں ہو سکتے تو اس کے ساتھ ‘منشاء الہی’ جیسی آفاقی اہمیت جوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟

آگے بڑھتے ہیں۔ وہ اپنے حق میں یہ حقیقت بھی پیش کرتے ہیں کہ ماؤنٹ بیٹن نے 15 اگست کی تاریخ کا اچانک سے اعلان کیا جبکہ آزادی 1948 میں ہونی تھی۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ تاریخ اس لیے رکھی تھی کیونکہ اس دن جاپان نے ہار مانی تھی اور جنگ دوم ختم ہوئی تھی جبکہ سرکاری طور پر یہ دو ستمبر کو ختم ہوئی تھی۔ اس بات کے لیے وہ کتاب Freedom at Midnight کا حوالہ دیتے ہیں۔ برطانیہ اسے 15 اگست کو مناتا ہے جبکہ امریکا 2 ستمبر کو۔ تو ماؤنٹ بیٹن نے ایسی تاریخ رکھی جس کی اہمیت برطانیہ کے لیے تھی۔  کیوں کہ یہ ان کے مطابق ‘منشاء الہی’ کا ثبوت ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ الله نے جنگ عظیم دوم 15 اگست کو ختم اس لیے کروائی تھی کہ جب ماؤنٹ بیٹن یہ سوچنے بیٹھے گا کہ میں بر صغیر کی آزادی کی تاریخ کیا رکھوں تو اس کے ذہن میں وہی تاریخ آے!

بات لمبی ہوتی چلی جا رہی ہے اور پھر ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ جاپان نے اس دن ہار کیوں مانی؟ کیونکہ 6 اور 9 اگست کو پھر الله نے امریکا سے جاپان پر ایٹمی بم اس لیے گروائے کہ یہ جنگ 15 کو ختم ہو سکے! اس میں سوا لاکھ سے زیادہ جاپانیوں کو جان دینا پڑی۔ جاپانیوں نے ہمارے لیے بڑی قربانی دی۔

چلیں اس تاریخ کو اسی کتاب Freedom at Midnight کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے دو جون کو ماؤنٹ بیٹن کا پلان مانا اور تین جون کو اپنی تقریر میں ‘پاکستان زندہ باد’ کا نعرہ لگا دیا۔ کتاب کے مطابق قائد اعظم یہ پلان نہیں مان رہے تھے اور انھوں نے ایک ہفتہ کا ٹائم مانگا تاکہ وہ اسے مسلم لیگ کے سامنے رکھ سکیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے انھیں مجبور کیا اور کہا “You have got your Pakistan، which at one point no one in the world thought you would get. I know you call it moth eaten, but its Pakistan”  تو دوستو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قائد اعظم بھی ‘منشاء الہی’ کے مخالف اس تاریخ کو قبول نہیں کر رہے تھے اور ماؤنٹ بیٹن نے زبردستی ان کو ہاں کہنے پر مجبور کیا۔

یہاں تک کہا کہ کل میٹنگ میں تم نے چپ رہنا ہے اور جب میں تم سے پوچھوں تو صرف سر ہلا دینا ہے، ورنہ بھاڑھ میں جاؤ۔ یہ میرے نہیں ماؤنٹ بیٹن کا الفاظ ہیں کتاب کے مطابق، حوالہ صفحہ 159۔162 ایڈیشن 1975۔ کتاب Indian Summer کی مصنف کے مطابق، جنھیں میں نے حال ہی میں سنا، ماؤنٹ بیٹن کام جلدی لیکن برے طریقہ سے کرنے کے عادی تھے۔ جس پاکستان  کو قائد اعظم کیڑوں کا کھایا ہوا پاکستان کہتے تھے اس کے لیے ہی انھیں تین جون کو ‘پاکستان زندہ باد’ کہنا پڑا۔

اس سے مجھے پرویز مشرّف کا ‘پاکستان کا خدا حافظ’ یاد آ گیا نہ جانے کیوں۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب خود کہتے ہیں کہ قائد نے اسلامی ریاست تو بنا دی لیکن ‘وعدہ ایفا کرانے کا موقع نہ ملا’۔ تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ بھی ‘منشاء الہی’ تھی؟ ہو سکتا ہے کہ قائد راستے کی رکاوٹ ہوں اور انھیں ہٹانا زیادہ بہتر ہو تاکہ دوسرے یہ کام کر سکیں؟

چلیں جاتے جاتے آخری بات۔ اسی کتاب کے مطابق جب اس تاریخ کا اعلان ہوا تو اس وقت قائدین تو آنے والے واقعات سے غافل تھے لیکن جوتشیوں کو پتا چل گیا تھا۔ یہ خبر سنتے ہی انھوں نے اپنے زائچے بناۓ اور یہ دیکھا کہ اتوار اور جمہ دونوں بد شگون ہیں۔ بنارس کے جوتشیوں نے کہا کہ ایک دن اور ٹھہر جاؤ، یعنی ہفتہ کے دن آزاد کر دو ورنہ کہیں ہمیشہ کا عذاب نہ آ جائے۔ کلکتہ کے سوامی مدن آنند نے اپنے علم نجوم کو استعمال کرتے ہوے یہ بتایا کہ ستارہ اس دن کے سخت خلاف ہیں۔ وہ اس دن برے اثرات دیکھ کہ چیخ پڑا ‘یہ تم لوگوں نے کیا کر دیا!’ اس نے فورا ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھ مارا کہ ‘خدا کے لیے، انڈیا کو 15 اگست کو آزاد مت کرو! اگر سیلاب، خشکسالی، قحط، یا قتل غارت ہوی تو وہ اس لیے ہو گی کہ انڈیا ایک ایسے دن پیدا ہوا جس پر ستاروں کا قہر ہے!’ حوالہ صفحہ 167۔166۔

لیکن پھر تاریخ نے ہی تاریخ کے بد ترین نسلی فسادات دیکھے جس میں دس لاکھ لوگ قتل ہوے اور بیس لاکھ بے گھر، جو مسلمان بھی تھے ہندو بھی اور سکھ بھی۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ستاروں سے کچھ نہیں ہوتا، یہ جوتشی ایسے ہی باتیں گھڑ رہے ہیں۔ لیکن پھر ہم یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب بھی ایسی ہی خیالات گھڑ رہے ہیں؟

جاتے جاتے وہ یہ بات کہہ گئے کہ پاکستان الله کی نعمت ہے اور جو قوم الله کی نعمت کا تقاضا، یعنی اسلامی نظام، پورا نہیں کرتی تو اس کا انجام ‘سبق آموز’ ہوا۔ تاریخ ہی بتاتی ہے کہ آزادی کے بعد زیادہ تر قتل غارت پہلے چھے مہینے میں ہو گئی تھی تو یہ کس بات کا عذاب تھا؟ کیا ہمیں کوئی سبق دیا جا رہا تھا موقع ملنے سے پہلے؟ یہ بات کہنا ہی بےمقصد ہے کہ کوئی چیز ‘منشاء الہی’ ہے، کیوں کہ ہر چیز ہی منشاء الہی ہوتی ہے۔ جب کوئی چیز اس سے باہر ہی نہیں تو ایسے دعوے کا کیا مطلب؟ اور اگر ہم ایسے دعوے کو مان لیں تو پھر اس کے ساتھ آنے والی بہت سے پیچیدگیوں کو بھی ماننا پڑے گا اور بلا وجہ الله کی رحمانیت پر حرف اٹھے گا۔ ہر چیز الله کی مرضی سے ہوتی ہے، اگر پاکستان دو ستمبر کو بنتا تو بھی ‘منشاء الہی’ ہوتی بس کچھ خدا کا نام استعمال کرنے والوں کا کام مشکل ہو جاتا۔