طوطے

Amar Jaleel aik Rozan
امر جلیل، صاحبِ مضمون

طوطے

امرجلیل

آج میں کچھ کچھ ٹھیک ہوں اور آپ کو کتھا سنانے بیٹھ گیا ہوں۔ آپ بھی کبھی کبھی ٹھیک نہیں رہتے ہوں گے۔ ہم سب کبھی کبھی ٹھیک نہیں رہتے۔ ہم سب ایک جیسے ہیں۔ کبھی ٹھیک اور کبھی ٹھیک نہیں رہتے۔ ہم سب تھوڑے تھوڑے سیانے۔ تھوڑے تھوڑے احمق اور تھوڑے تھوڑے کھسکے ہوئے ہوتے ہیں۔ کبھی پٹری سے اتر جاتے ہیں۔ نارمل آدمی اسی طرح کے ہوتے ہیں۔کچھ کچھ سیانے۔ کچھ کچھ بیوقوف، اور کچھ کچھ پگلے۔ کسی آدمی کا صرف سیانا ہونا امکان سے باہر ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص آپ کو مل جائے جو صرف سیانا ہو یعنی صرف عقلمند ہو، تو پھر وہ شخص نارمل نہیں  ہوگا۔ کوئی ایسا شخص جو صرف کھسکا ہوا ہو، یعنی پاگل ہو، تو ایسے شخص کو عرف عام میں ایب نارمل کہتے ہیں۔ نارمل ہونے کے لیےلازمی ہے کہ انسان تھوڑا تھوڑا عقلمند، تھوڑا تھوڑا بیوقوف اور تھوڑا تھوڑا سا پگلا ہو۔ اسی طرح ایک نارمل آدمی کی دوسری کئی نشانیاں ہیں جو ہم تفصیل سے پھر کبھی آپس میں بانٹیں گے۔ مثلاً ایک نارمل آدمی صرف محبت نہیں کرتا۔ وہ نفرت بھی کرتا ہے۔ ایک نارمل آدمی صرف درگزر نہیں کرتا۔ وہ انتقام بھی لیتا ہے۔ ایک نارمل آدمی صرف سچ نہیں بولتا۔ وہ جھوٹ بھی بولتا ہے۔ایک نارمل آدمی صرف فرشتہ صفت نہیں ہوتا۔ وہ شیطان صفت بھی ہوتا ہے۔ یہ نارمل آدمی کی تصدیق شدہ نشانیاں ہیں۔ ایک نارمل آدمی پٹری سے تب اترتا ہے یعنی باؤلا تب ہوتا ہے جب اسکی شعوری صلاحیتوں کو مخمصوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔ جب اس کی شعوری صلاحیتوں کو چکر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسے میں کسی بھی نارمل آدمی کا متھا گھوم جانا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ اگر اس کا متھا نہیں گھومتا، تو پھر یہ تشویش کی بات ہے۔ ایسے شخص کے نارمل ہونے پر آپ بجا طور پر شک کرسکتے ہیں۔ پچاسیوں ٹیلی وژن چینلوں سے لگا تار ایک جیسے پروگرام دیکھتے دیکھتے پچھلے دنوں میرا متھا گھوم گیاتھا۔میں چکرا کر کئی مرتبہ گر پڑا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تمام ٹیلی وژن چینلوں سے خبریں پڑھنے والے اور پڑھنے والیاں چیختے چلاتے کبھی سر بھیرویں اور کبھی سر مالکوس میں خبریں کیوں سناتے ہیں؟ وہ بغیر سر کے عام لہجے میں خبریں کیوں نہیں سناتے ؟ ایک ہی وقت میں ایک شخص کے لیے سننا، دیکھنا اور پڑھنا امکان سے باہر۔ ہم ایک ہی وقت میں خبریں پڑھنے والے اور خبریں پڑھنے والیوں کو دیکھتے ہیں۔ ان کے اداکارانہ انداز میں سنائی جانے والی خبریں سنتے ہیں۔ اور آدمی اسکرین پر لکھی ہوئی اور تیزی سے بدلتی ہوئی تحریریں پڑھتے ہیں۔ ایسے میں بھیجے تک پہنچتے پہنچتے خبروں کا کچومر بن جاتا ہے۔ اس کچومر میں سنی ہوئی، دیکھی ہوئی اور پڑھی ہوئی خبر کا ملیدہ ہوتا ہے۔ایسی صورت حال میں میرے جیسے کسی بھی نارمل آدمی کا چکراکر گر پڑنا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ بتانے سے گریز کریں، آپ بھی سریلی خبریں پڑھتے، دیکھتے اور سنتے ہوئے گھبرا کر گر پڑتے ہونگے۔

اگر بات خبروں تک محدود ہوتی تو امکان تھا کہ ہم باؤلے بن جانے سے بچ جاتے۔ مگر بات بہت آگے نکل گئی ہے۔ تمام ٹیلی وژن چینلز نے طے کرلیا ہے کہ وہ مجھے اور ٓآپ کو باؤلا بنانے کے لیے ایک ہی نوعیت کا پروگرام بار بار دکھائیں گے۔ ایک خاتون یا مرد اینکر پرسن اور ان کے سامنے چار پانچ سیاسی پارٹیوں سے چیدہ چیدہ سیانے سیاستدان بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے کو بولنے نہیں دیتے۔ ایک دوسرے پر چیختے چلاتے رہتے ہیں۔ چار پانچ سیانے سیاستدان ایک ساتھ بولنے لگتے ہیں۔ اس شور شرابے میں سب سے اونچی آواز اینکر پرسن کی ہوتی ہے۔ وہ سب بڑھ چڑھ کر مینا، بینا اور شینا کے بارے میں چیختے چلاتے ہوئے باتیں کرتے ہیں۔ مجھے آج تک پتہ نہیں چل سکا ہے کہ مینا، بینا اور شینا کون ہیں؟ کون کس کی حاضر اور سابقہ بیوی ہے؟ کون ان کو چھیڑتا ہے؟ کون ان کو Love Letters لکھتا ہے؟ مگر میرا مینا، بینا اور شینا سے کیا لینا دیناہے؟میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں جب ٹیلی و ژن پر مینا بینا اور شینا کے بارے میں مار دھاڑ سے لبریز پروگرام نہیں آتے تھے تب بھی میں اپنے بچوں کے بارے میں پریشان رہتا تھا۔ اب جب کہ پچاسیوں ٹیلی ویژن چینلز والے صرف مینا، بینا، اور شینا کے بارے میں مارا ماری سے بھرپور پروگرام دکھاتے ہیں تب بھی میں اپنے بچوں کے لیے پریشان رہتا ہوں۔ اس پریشانی میں، میں نے ستر برس گزار دیے ہیں۔

ستر برس سے میں باولا ہورہا ہوں کہ یہ میڈیا والے میرے بچوں کے بارے مار دھاڑ سے لبریز پروگرام کیوں قوم کو نہیں دکھاتے! سیاسی پارٹیوںکے سیانے میرے بچوں کے بارے میں چیختے چلاتے کیون نہیں ہیں ! ستر برس گزر گئے ہیں۔ میرے بچے ابھی تک بچے ہی ہیں۔ وہ بڑے نہیں ہوسکے ہیں۔ ان کو ناقص تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کو غلط تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ محبت کی جائے ان کے دل ودماغ میں نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ ان میں سوال پوچھنے کی جرات دبا دی جاتی ہے۔ ان میں سوچنے کی صلاحیت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ان کے تخلیقی جوہر کو کچل دیا جاتا ہے۔ میرے بچے رٹے لگانے والے طوطے ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں ہے۔ آپ سوچیں تو سہی ! میرے بچے جن کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، فلسفی، تاریخدان، پروفیسر، آرٹسٹ، کھلاڑی، لکھاری اور شاعر بننا تھا، وہ سب طوطے بن گئے ہیں WE are the last کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ ہم عظیم ترین ہیں۔ کوئی ہمارا ثانی نہیں ہے۔ یہی طوطے انتخابات میں ووٹ ڈالنے جاتے ہیں۔ ووٹ دیکر طوطوں کو کامیاب کرتے ہیں۔ طوطوں کی اسیمبلیاں لگتی ہیں۔ طوطے قانون سازی کرتے ہیں۔ طوطے ملک چلاتے ہیں۔