ایدھی، روتھ فاؤ اور سیاستدان ؟

Zaheer Akhter Bedari aik Rozan
ظہیر اختر بیدری، صاحبِ مضمون

ایدھی، روتھ فاؤ اور سیاستدان ؟

ظہیر اختر بیدری

9 ستمبر 1929 کو لیپزگ میں جنم لینے والی ڈاکٹر روتھ فاؤ 10 اگست 2017 کو صبح چھ بجے کراچی میں انتقال کرگئیں۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ اور ستار ایدھی پاکستان کی دو ایسی شخصیات ہیں، جو پاکستان ہی میں نہیں ساری دنیا میں اپنی بے لوث عوامی خدمات کی وجہ سے پہچانی بھی جاتی ہیں اور قابل احترام بھی ہیں۔ ستار ایدھی کی خدمات وارث اور لاوارث لاشیں اٹھانا، انھیں نہلانے دھلانے، انھی کفنانے اور ان کی تدفین کے علاوہ لاوارث بچوں، بوڑھوں کی رہائش، ان کو تعلیم اور خوراک کے علاوہ انھیں ضروریات زندگی فراہم کرنے تک وسیع تھیں، لیکن ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اپنی خدمات ایسے لوگوں کے لیے وقف کردیں جن سے عوام کو گھن آتی ہے۔

جذام ایک ایسا مرض ہے جس میں انسان کے اعضا گل سڑ کر جسم سے الگ ہونے لگ جاتے ہیں اور مریض کا جسم خوفناک حد تک بدصورت اور ڈراؤنا ہوجاتا ہے اور ایسے مریض اپنے گھر میں بھی تنہا اور نفرت کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں، ایسے خوفزدہ کرنے والے مریضوں کی دیکھ بھال، ان کا علاج اور ان کے ساتھ 24 گھنٹے گزارنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے بڑے دل گردے، حوصلے اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ میں انسانوں کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، انھوں نے اپنے اس جذبے کی تسکین کے لیے ہندوستان جیسے غریب ملک کا انتخاب کیا۔ وہ ہندوستان جانے کے لیے اپنے وطن سے نکلیں اور کراچی پہنچیں۔ 1960 میں انھوں نے کراچی کے ایک علاقے میکلوڈ روڈ کی عقبی گندی اور تاریک گلیوں میں قائم کوڑھیوں کی بستی کے رہائشیوں کی حالت زار دیکھی تو فیصلہ کرلیا کہ وہ ہندوستان نہیں جائیں گی، پاکستان میں ہی رہیں گی۔ یوں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اس مشن کا آغاز کیا جو کراچی کے میکلوڈ روڈ سے شروع ہوکر پورے پاکستان تک پھیلتا چلا گیا۔ 1963 میں ایک لپروسی کلینک سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اب 8 منزلہ عمارت میں بدل گیا ہے۔ اس میری ایڈیلیڈ سینٹر میں دنیا کے دھتکارے ہوئے لوگوں کا علاج ہوتا ہے۔

جذام ایک ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا مریض کے اعضا گل سڑ کر جسم سے علیحدہ ہونے لگتے ہیں اور اس بیماری کے مریض کا جسم اس قدر بدہیئت اور ڈراؤنا ہوجاتا ہے کہ لوگ خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے گلے سڑے جسم سے اتنی شدید بدبو آتی ہے کہ کوئی شخص ایسے مریضوں کے ساتھ چند منٹ گزارنا پسند نہیں کرتا۔ ایسے مریضوں کے ساتھ رہنا، ان کی تیمار داری کرنا، انھیں کھلانا پلانا کیا آسان کام ہے؟ لیکن یہ مشکل کام ڈاکٹر روتھ فاؤ نصف صدی تک کرتی رہیں۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی ان ناقابل یقین لیکن فخریہ خدمات کے صلے میں انھیں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا۔

1968 میں انھیں جرمنی میں آرڈر آف دی کراس سے نوازا گیا۔ 1969 میں انھیں ستارہ قائداعظم دیا گیا، 1979 میں انھیں ہلال امتیاز ملا۔ 1985 میں جرمنی میں انھیں ’’دی کمانڈر کراس آف دی آرڈر آف میرٹ‘‘ سے نوازا گیا۔ 1989 میں انھیں ہلال پاکستان دیا گیا۔ 1991 میں امریکا نے انھیں ڈیمن ڈیوٹن ایوارڈ دیا۔ 1991 میں انھیں آسٹریا نے ایک بڑے اعزاز سے نوازا۔ 2002 میں فلپائن نے انھیں رامن میگ سیسے ایوارڈ دیا۔ 2003 میں جناح سوسائٹی نے انھیں جناح ایوارڈ دیا۔ 2004 میں آغاخان یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری دی۔ اس کے علاوہ بھی انھیں کئی اعزازات ملے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کو ملنے والے اعزازات کا ذکر اس لیے کیا کہ اس سے انسانی خدمات کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔

عبدالستار ایدھی زندگی بھر سڑکوں سے کٹی پھٹی، سڑی گلی لاشیں اٹھاتے رہے، یہ کام سیاسی نہیں سماجی کہلاتا ہے اور ستار ایدھی ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ستار ایدھی کو بھی ان کی خدمات کے عوض بہت سے ایوارڈ دیے گئے۔ ستار ایدھی میں اپنے مشن کے حوالے سے ایک جنوں تھا۔ اس حوالے سے میں ستار ایدھی ہی سے ایک ملاقات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

ڈاکٹر پروفیسر ظہیر خان کراچی کے سرکاری سب سے بڑے سول اسپتال کے شعبہ نفسیات کے سربراہ تھے۔ ہماری ڈاکٹر ظہیر خان سے دوستی تھی اور اکثر ہم سول اسپتال میں ان سے ملتے تھے اور ملک کے حالات پر ان سے گفتگو ہوتی تھی۔ ایک روز دوران گفتگو اپنے وارڈ کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے انتہائی کرب سے کہا کہ کراچی کی دو کروڑ کی آبادی میں ہزاروں نفسیاتی مریض ہیں، جن کے علاج معالجے کا سرے سے کوئی انتظام نہیں۔ نفسیاتی امراض عموماً معاشی مشکلات اور سماجی روایات کے پس منظر میں پیدا ہوتے ہیں اور غریب طبقات اس مرض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

مرحوم ڈاکٹر ظہیر نے بڑے دکھ سے کہا کہ کراچی کے ہزاروں نفسیاتی مریضوں کے علاج کے لیے سول اسپتال میں جو وارڈ مختص کیا گیا ہے وہ دس بارہ بیڈز پر مشتمل ہے اس وارڈ میں زیر علاج مریضوں میں چرسی اور ہیروئنچی بھی شامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر نے کہا کہ سہراب گوٹھ کے ایدھی سینٹر میں بہت سے وارڈ خالی ہیں، آپ ایک صحافی اور کالم نگار ہیں آپ ستار ایدھی سے بات کریں کہ وہ ان خالی پڑے وارڈوں میں سے ایک وارڈ دے دیں، میں اس میں نفسیاتی مریضوں کے علاج کا بندوبست کرسکتا ہوں۔

ڈاکٹر پروفیسر ظہیر خان کے کہنے پر میں نے ستار ایدھی سے رابطہ کیا اور انھیں پروفیسر ظہیر کی تجویز سے آگاہ کیا۔ ستار ایدھی بغیر کسی تحفظات کے اس تجویز پر تیار ہوگئے اور سہراب گوٹھ پر ایک وارڈ مختص کرنے کی حامی بھرلی۔ ستار ایدھی سے میں نے ٹائم طے کرلیا اور مقررہ وقت پر ڈاکٹر ظہیر خان کے ساتھ سہراب گوٹھ ایدھی سینٹر پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر میں ستار ایدھی بھی پہنچ گئے اور سینٹر کے ڈاکٹروں اور منتظمین سے مشورے کے لیے اجازت طلب کی۔ ہم سینٹر میں بیٹھے رہے کوئی آدھے گھنٹے بعد ستار ایدھی تشریف لائے لیکن وہ کچھ مایوس نظر آرہے تھے۔

ایدھی صاحب نے بڑے کرب سے کہا کہ ہمارے ڈاکٹر اور سینٹر چلانے والے منتظمین کا کہنا ہے کہ وارڈ نفسیاتی مریضوں کو دینے سے ہمارے کام میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ستار ایدھی نے بڑی شرمندگی سے معذرت کی، ہم ڈاکٹر ظہیر خان کے ساتھ مایوس لوٹ آئے۔ میں عموماً سیاسی مسائل پر لکھتا ہوں، خاص طور پر ہمارے طبقاتی نظام کے مظالم پر نفسیاتی امراض بھی بنیادی طور پر معاشی بدحالیوں اور بداعتقادیوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔

میں نے جب ڈاکٹر روتھ فاؤ کے انتقال پر اخباروں کے پورے صفحے ان کے کارناموں سے بھرے دیکھے، الیکٹرانک میڈیا میں روتھ فاؤ کے انتقال کی کوریج دیکھی، ستار ایدھی کی عوام میں مقبولیت دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہزاروں مذہبی رہنما کام کر رہے ہیں، ہزاروں سیاست دان مصروف کار ہیں پھر انھیں عوام میں ستار ایدھی اور روتھ فاؤ جیسی مقبولیت کیوں حاصل نہیں؟

میڈیا ستار ایدھی اور روتھ فاؤ کی خدمات کی بلامعاوضہ بھرپور پبلسٹی کرتا ہے اور ہمارے مذہبی خاص طور پر سیاسی رہنما اور حکمران کروڑوں بلکہ اربوں روپوں کے خرچ سے ’’اپنی خدمات‘‘ کی پبلسٹی کرتے ہیں، لیکن ان کی اس پبلسٹی کا عوام پر کچھ اثر نہیں ہوتا، نہ یہ ستار ایدھی اور روتھ فاؤ کی طرح عوام میں مقبول ہوتے ہیں۔ جب کہ دونوں ہی طبقہ فکر عوام کی خدمت کے دعویدار ہیں؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اور مذہبی قیادت عوام سے مخلص نہیں اور ان کی اولین ترجیح کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت بٹورنا ہے؟