پیپلز پارٹی کے ناراض جیالوں کی پارٹی میں آنے جانے کی ایک تاریخ

پیپلز پارٹی کے ناراض جیالوں کی پارٹی میں آنے جانے کی ایک تاریخ

پیپلز پارٹی کے ناراض جیالوں کی پارٹی میں آنے جانے کی ایک تاریخ

(انور عباس انور)

ناز بلوچ کی ہنگامہ خیز تحریک انصاف سے علیحدگی ہو یا ایم کیو ایم کو نبیل گبول کا طلاق دینا اور پیپلز پارٹی سے تجدید عہد وفا کرنا ، پیپلز پارٹی میں واپس آنے والوں نے ایک ہی بات دہرائی ہے کہ پیپلز پارٹی میں واپس آکر انہیں ایسا لگا جیسے وہ اپنے گھر آگئے ہیں، پیپلز پارٹی سے قطع تعلق کرنے والوں کو کہیں بھی سکون اور چین نہیں مل سکا، اس کی بنیادی وجہ پیپلز پارٹی کا اپنا مخصوص سیاسی کلچر ہے، یہ کلچر جیالوں کو کہیں ٹک کر بیٹھنے نہیں دیتا۔

1976 سے بات کا آغاز کرتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے معتمد خاص شیر پنجاب غلام مصطفی کھر اور شریف النفس طبع دانشور ، صحافی ادیب ، مصور حنیف رامے اپنے لاکھوں ساتھیوں کے ہمراہ بھٹو اور پیپلز پارٹی کو بھنور میں چھوڑ کر ساتھ چلنے سے انکاری ہوئے،1977  کی ڈالر تحریک کے دوران چودھری اعتزاز احسن سمیت کئی راہنماؤں نے ذوالفقا ر علی بھٹو کی رفاقت چھوڑ دی، مارشل لاء لگا تو مولانا کوثر نیازی بھی چلتے بنے، (اصل میں یہ مولانا اندر خانے نفاذ مارشل لا سے قبل پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرچکے تھے۔) لیکن 1990 کی دہائی میں واپس پیپلز پارٹی میں آگئے اور ہر ممکن کوشش کی کہ انہیں کوئی عہدہ مل جائے لیکن یہ حسرت دل میں ہی رہی۔

مصطفی کھر متعدد بار پیپلز پارٹی میں واپس آئے اور الگ ہوئے، مولانا کوثر نیا زی نے پیر جان سرہندی سے ملکر ’’پاکستان پروگریسو پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ مصطفی کھر اور حنیف رامے نے باقاعدہ مسلم لیگ ( پیر پگاڑہ والی) میں شمولیت اختیار کی اور اس کے اہم عہدیدار نامزد ہوئے، ان دونوں راہنماؤ ں کے ساتھ میاں افتخاری عرف میاں تاری، چودہری ارشاد احمدسمیت انتہائی جیالے کارکن بھی پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے۔جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا کہ مصطفی کھر پارٹی میں واپس آگئے اور مارشل لاء کے نفاذ کے بعد مارشل لاء regime کو چکمہ دے کر( بقول بعض عناصر) لندن روانہ ہوگئے۔

مصطفی کھر مارشل لاء regime کو چکمہ دے کر نہیں بلکہ ان کی رضامندی اور اجازت سے لندن پہنچے تھے۔ حنیف رامے مرحوم نے پاکستان مساوات پارٹی بنائی اور اسے چلانے میں ناکام رہے اور واپس پیپلز پارٹی میں تشریف لے آئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں خوشآمدید کہا۔

1983 کی ایم آرڈی کی بحالی جمہوریت کی تحریک کے بعد مصطفی کھر اور ان کے جگری یار سندھ کے سابق وزیر اعلی غلام مصطفی جتوئی نے پنجاب کے ملک معراج خالد، میاں احسان الحق، خالد سندھو اور ایک اور لیڈر کی آشیر باد  سے بے نظیر بھٹو کی قیادت کو چیلنج کیا، ملک گیر جلسے اور جلوس منعقد کیے لیکن ناکامی مقدر ٹھہری، کیونکہ پاکستان کے عوام بھٹو خاندان کی جاگیر بن چکے تھے۔

مصطفی کھر اور غلام مصطفی جتوئی نے نیشنل پیپلز پارٹی قائم کی لیکن عوام میں وہ پذیرائی حاصل نہ کرسکی جس کی توقعات کی جا رہی تھیں، کچھ عرصہ بعد مصطفی برادران (کھر اور جتوئی) میں اختلافات پیدا ہوئے اور مصطفی کھر نے نیشنل پیپلز پارٹی کا الگ دھڑا بنا لیا لیکن چند مہینوں بعد اسے بھی ختم کرنے کا اعلان کرکے پھر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ غلام مصطفی جتوئی اپنے آبائی علاقے سے اپنی نشست ہار گئے۔

مصطفی جتوئی کو چھوڑ کر باقی سب راہنما واپس پیپلز پارٹی میں آگئے۔ لیکن آخری بار پیپلز پارٹی سے الگ ہوئے تو بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں اور پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری کے پاس آ گئی تو انہوں نے پارٹی سے جانے والوں کو مستقل خیر باد کہنا پسند کیا۔

اب آتے ہیں کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والی ناز بلوچ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کی طرف۔ تو اس حوالے سے اتنا یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ناز بلوچ پیپلز پارٹی کے ایک پرانے راہنما عبداللہ بلوچ کی صاحب زادی ہیں۔

گویا پیپلز پارٹی ان کے رگ و پے میں شامل ہے، پہلے ان کا خیال تھا کہ عمران خاں ملک میں تبدیلی لانے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے قائد عمران خاں جن استعمار کے ایجنٹ طبقات کے خلاف تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں آہستہ آہستہ وہ طبقات عمران خاں کے اردگرد منڈلانے لگے ہیں، لہذا انہوں نے سمجھا کہ عمران خاں ملک میں تبدیلی لاتے لاتے پارٹی کو تبدیل کر چکے ہیں، تو ناز بلوچ نے پی ٹی آئی میں مذید وقت ضائع کرنے کی بجائے اسے خیرباد کہنے کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ لیاری پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا، ہے اور جب تک سورج چاند رہے گا لیاری پیپلز پارٹی سے جذباتی وابستگی قائم رکھے گا۔

ناز بلوچ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اس وقت ہوئی ہے جب ہر ماہر تجزیہ نگار ،کالم نگار اور سیاستدانوں کی یہ رائے ہے کہ اب پیپلز پارٹی مردہ ہوچکی ہے، مکمل نہیں تو کم ازکم پنجاب کی حد تک تو پیپلز پارٹی کا بوریا بستر گول ہوچکا ہے، لیکن ناز بلوچ اور پنجاب میں لوگوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت اس بات کی غماز ہے کہ ’’پارٹی ابھی باقی ہے‘‘ اور پارٹی اگلے انتخابات میں یہ ثابت بھی کرے گی، اگلے انتخابات مین پارٹی اور ملک کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کریں گے۔

اس حقیقت کا اعتراف تو پیپلز پارٹی کے کٹر مخالفین بھی کرتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری اس ملک کی قیادت کرنے کی اہلیت، صلاحیت رکھتے ہیں، نیاخون، جوان لہو، سندھ دھرتی کا سپوت اور بھٹو شہید کا نواسہ دختر مشرق کا لخت جگر اپنے نانا مرحوم کی طرح قوم کو مایوس نہیں کرے گا، بلکہ پاکستانی عوام کو کامل یقین ہے کہ بلاول بھٹو زرداری پارٹی پرچم کے ساتھ ساتھ قومی پرچم کو بھی دنیا بھر میں سربلند کریں گے، مقتدرہ حلقے بھی بلاول بھٹو زرداری کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے کارکن اور راہنما اول تو پارٹی سے علیحدہ نہیں ہوتے اور اگر بادل ناخواستہ ایسا کڑوا گھونٹ پینا بھی پڑ جائے تو زیادہ دیر پارٹی سے دور نہیں رہ پاتے، اس کی مثال ایسے ہے، جیسے پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی بالکل پیپلز پارٹی کے جیالے پارٹی کے بغیر نہیں رہ سکتے۔