اردو ادب پاکستانی ثقافتیں اور عالمگیریت

اردو ادب پاکستانی ثقافتیں اور عالمگیریت

اردو ادب پاکستانی ثقافتیں اور عالمگیریت

رپورٹ از، ڈاکٹر تہمینہ عباس

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، جامعہ کراچی

ساہیوال آرٹس کونسل کے زیر اہتمام 26، 27 نومبر 2018ء کو ساہیوال ادبی و ثقافتی کانفرنس منعقد کی گئی ۔جس کا موضوع تھا ’’اردو ادب پاکستانی ثقافتیں اور عالمگیریت‘‘۔ ساہیوال آرٹس کونسل کی بنیادی ذمہ داری پنجاب کی ثقافت کے بنیادی رنگوں کو اجا گر کرنا اور نئے اور باصلاحیت ادب اور فن سے وابستہ لوگوں کو سامنے لانا تھا۔اس کانفرنس کے ذیلی موضوعات یہ تھے۔

۱۔    قومی ثقافت کی تشکیل میں اردو ادب کا کردار

۲۔    اردو ادب میں تہذیبی شناخت کا مسئلہ

۳۔    پاکستانی ثقافتیں :تانیثی ادب اور عالمگیریت

۴۔    صارفیت اور لوک ورثے کا تعلق

۵۔    استعماری ثقافت کی یلغار اور مدافعاتی رویے

۶۔    اردو ادب ،ثقافتی مغائرت اور عالمگیریت

۷۔    عالمگیریت کے ادبی و ثقافتی مضمرات :عصری تقاضے

۸۔    بدیسی کے اردو تراجم اور عالمگیریت

۹۔    ادبی تحریکات اور عالمگیریت:انجذابی صورتیں

اس کانفرنس کے مندرجہ ذیل مقاصد تھے۔اردو زبان و ادب کا عالمگیر ی تناظر میں ،پاکستانی ثقافت سے تعلق وضع کرنا۔صارفیت اور عالمگیر یت کے منفی اثرات سے اپنے لوک ورثے کی حفاظت کرنا۔بدیسی کے اردو تراجم کے اردو زبان و ادب پر اثرات کا مطالعہ کرنا۔عصر حاضر میں قومی شناخت کے مسائل،عالمگیر تناظر میں،بذریعہ زبان و ادب حل کرنے کی کوشش کرنا،ثقافتی استعماریت کے مساوی ثقافتی ادب کی اہمیت کو نمایاں کرنا،عالمگیریت ،استعماریت اور صارفیت کے اثرات سے زبان و ادب کو محفوظ کرنا ،قومی ثقافت کی تشکیل و تعمیر میں اردو زبان و ادب کا بنیادی کردار وضع کرنا ،پاکستانی ثقافت کے تناظر میں تانیثی ادب کی عالمگیریت پر روشنی ڈالنا، اردو کی عالمگیریت کا لوک ثقافت اور ادب سے لگاؤ سامنے لانا، ادبی تحریکات اور لوک ثقافت کے باہم متصل رشتے کو عالمگیر تناظر میں نمایاں کرنا۔


مزید دیکھیے:  بلتی اور اردو  زبان کا صوتی،املائی اور معنوی اشتراک از، ڈاکٹر جابر حسین


افتتاحی سیشن کے آغاز سے قبل عارف انور بلوچ( کمشنر ساہیوال ڈویژن) نے یونیسکو ایوارڈ یافتہ مصور طارق مرزا کے فن پاروں پر مبنی تصویری نمائش اور کتب میلے کا افتتاح کیا۔افتتاحی سیشن کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول سے ہوا۔اس سیشن کی نظامت کے فرائض منیر رزمی نے انجام دیے۔ڈائریکٹر ساہیوال آرٹس کونسل ، ڈاکٹر ریاض ہمدانی صاحب نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔اس سیشن میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر (ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ) اورڈاکٹر شاہ محمد مری (چیئر میں یوسف عزیز مگسی چیئر بلوچستا ن یونیورسٹی ،کوئٹہ)نے کلیدی خطبات پیش کیے۔اس سیشن کے مہمانان خصوصی ، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر محمدفخر الحق نوری،ڈاکٹر قاضی عابد، ڈاکٹر روش ندیم، ڈاکٹر طاہرہ اقبال،ڈاکٹر عظمی سلیم اور بینا گوئندی تھے۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کہا کہ میں مجید امجد کی وجہ سے ساہیوال سے لگاؤ محسوس کرتا ہوں۔انھوں نے عالمی ثقافتی یلغار کے حوالے سے کہا کہ دنیا کی تمام برانڈ پاکستان میں نظرآتی ہیں مگر خود پاکستان کہاں ہے؟ہالی وڈ کی تقلید، امریکی طرز کا لباس اور خوراک، عام ہوگئی ہے۔نائن الیون کے بعد جن نوجوانوں نے انگریزی میں لکھا انھوں نے بے انتہا شہرت حاصل کی۔ہم تقریروں میں اپنی ثقافت کو اہمیت دیتے ہیں۔لیکن اس کی ترویج وا شاعت کے لیے کام نہیں کرتے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زبان سے دیگر زبانوں میں ترجمہ کریں تاکہ دیگر زبانوں سے تعلق رکھنے والے ہماری ثقافت سے واقف ہو سکیں۔

شاہ محمد مری نے کہا کہ ہماری مادری زبان اور ثقافتیں بہت مضبوط ہیں۔ اردو اس خطے میں ایک ادب اور احترام کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گی۔اور اردو کو برقرار رکھنے میں ادیبوں اور دانشوروں کواہم کردار ادا کرنا ہوگا۔انھوں نے کہا پشتو ،بلوچی اورپنجابی علاقائی زبانیں نہیں ہیں۔انھیں علاقائی کہنا ان تینوں زبانوں کے ساتھ زیادتی ہے۔بلوچی تین ملکوں کی، پشتو دو ملکوں کی، پنجابی دو ملکوں کی زبان ہے تو علاقائی کہاں سے ہوئی؟ زبانیں نافذ نہیں کی جاسکتیں۔علاقائی زبانون کے درمیان جگہ بناتے ہوئے انگریزی نے اپنا راستہ ہموار کیا۔

ڈاکٹر نجیب جمال نے کہا کہ ہمیں زبانوں کے جھگڑے چھوڑ کر اردو زبان پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کیونکہ یہ ہی ہماری قومی شناخت ہے ۔

افتتاحی سیشن کے بعد تین متوازی سیشن ہوئے،جس کی نظامت کے فرائض بالترتیب، پروفیسر ارجمندقریشی،میجر (ر) اعظم کمال، اور ضیاء اللہ اعظم نے انجام دیے۔جس میں ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر قاضی عابد، ڈاکٹر طاہرہ اقبال،ڈاکٹر عظمی سلیم، ڈاکٹر لیاقت علی، ڈاکٹر فرزانہ ریاض، ڈاکٹر وحید الرحمن خان، ڈاکٹر فاخرہ نورین، ڈاکٹر نور البصر، بینا گوئندی، ڈاکٹر طارق ہاشمی، ڈاکٹر رخسانہ بلوچ، ڈاکٹر تہمینہ عباس، ڈاکٹر خاور نوازش، ڈاکٹر جاویداقبال، آغر ندیم سحر، محمدحسن،ڈاکٹر عبدالستار نیازی، ڈاکٹر فرزانہ کوکب،ڈاکٹر ندیم عباس اشرف، ڈاکٹر شاہدہ اشرف، ڈاکٹر طارق جاوید، تسنیم کوثر، اسلم سحاب ،شکیل حسین سید، رخسانہ فیض،نے اپنے مقالے پیش کیے۔

اسی شام ایک مشاعرہ ’’ایک شام انور مسعود کے نام‘‘ بھی منعقد ہوا۔ ’’شام غزل‘‘ کے تحت عالمی شہرت یافتہ گلو کارہ منی بیگم نے اپنی غزلیات پیش کیں۔

27 نومبر کو دو متوازی سیشن منعقد ہوئے جن میں ڈاکٹر اصغر علی بلوچ ، ڈاکٹر صائمہ ارم، ڈاکٹر محمد اشرف کمال،ڈاکٹر مقبول گیلانی،ڈاکٹر عظمت رباب، ڈاکٹر رانی آکاش، حنا جمشید، ڈاکٹر محمد شاہ کھگہ،رابعہ رشید،ڈاکٹر عبدالکریم خالد، ڈاکٹر عبداللہ جان عابد، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر مزمل حسین، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام، ڈاکٹر شمع افروز، ڈاکٹر محمد امجد عابد، ڈاکٹر صدف نقوی، طیبہ نگہت نے پنے مقالے پیش کیے۔

جس کے بعد اختتامی نشست منعقد ہوئی۔جس کی نظامت حنا جمشید نے کی اور ڈائریکٹر ساہیوال آرٹس کونسل ڈاکٹر ریاض ہمدانی اظہار تشکر پیش کیا۔اختتامی سیشن کے بعد ایک ثقافتی دورہ برائے ہڑپہ میوزیم کا انعقاد بھی کیا گیا تاکہ مندوبین پاکستانی کی ثقافتی تاریخ اور ہڑپہ کی تہذیب سے واقفیت حاصل کر سکیں۔اسی شام لوک رقص کی محفل بھی منعقد کی گئی اور ’’شام شعر‘‘ کے عنوان سے ایک مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیا۔

مجموعی طور پر ’’ساہیوال ادبی کانفرنس‘‘ اپنی ترتیب تنظیم اور انتظام کے حوالے سے ایک بہترین کانفرنس تھی ۔جس میں اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے جید علما کے ساتھ ساتھ نوجوان محقیقین نے بھی اپنے مقالے پیش کیے۔تمام مندوبین کو ڈائریکٹر آرٹس کونسل جناب ریا ض ہمدانی نے گرم جوشی سے خو ش آمدید کہا اور ان کے قیام و طعام کا انتظام بہتر طریقے سے کیا ۔اس کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اردو کے محقیقین کو اپنے خیالات کے بہتر طریقے سے اظہار کا موقع ملا۔اس حوالے سے ساہیوال آرٹس کونسل یقیناًمبارک باد کے لائق ہے۔امید ہے کہ مستقبل میں بھی ساہیوال آرٹس کونسل کی جانب سے اسی نوعیت کی کانفرسز منعقد کی جاتی رہیں گی۔تاکہ مشہور شاعر مجید امجد کے شہر ساہیوال سے اردو کے علما کا تعلق برقرار رہے۔