نہیں بھئی، دو قومی نہیں، ایک اوقاتی نظریہ

Yasser Chattha, the writer

نہیں بھئی، دو قومی نہیں، ایک اوقاتی نظریہ

از، یاسر چٹھہ

تئیس 23 مارچ، یومِ جمہوریۂِ پاکستان ہے۔

چھبیس 26 جنوری یومِ جمہوریۂِ بھارت ہے۔

پر یہ جمہوریہ ہوتا کیا ہے؟ انگریزی میں اسے Republic کہتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ یہ ریپبلک کیا ہوتا ہے؟ جب انگریز یہاں سے جانے لگے تھے تو انہوں نے ہم عوام کو نئے آقاؤں کی سپرد داری میں دینے سے پہلے تقسیمِ ہند کے معاہدے میں ایک شِق لکھوائی تھی کہ فوری طور پر تم لوگوں کا درجہ dominion ریاست کا ہو گا۔

بھارت نے 26 جنوری 1950 میں dominion درجہ موقُوف کر دیا؛ یعنی اپنا آئیں بنا لیا اور اپنا ریاستی سر براہ راشٹر پتی کو قرار دے لیا۔ برطانوی ملکہ اب ریاستی سر براہ نا رہیں۔

پاکستان اپنے پہلے، یعنی 1956کے آئین کے مطابق رسمی طور پر 23 مارچ 1956 کو ملکۂِ برطانیہ کی سربر آوردی سے خالی ہوا۔ یہ یومِ جمہوریہ کہلایا۔ بعد میں ملک کے ایک نجات دہندے نے اس دن کا نام یومِ پاکستان رکھ کر اپنی صداقت و امانت اور احتساب سے بالا تری کا خوب لطف لیا۔ اور ہم عوام تو ہیں ہی اہلِ ایمان، جو اَمنّا وَ صدقنا کے گردانی طوطے بنے رہنے کے یَک ساں پر قایم ہیں۔

تو یہ بتانے کی کیا لگن لگی تھی بھئی؟ صبر جان، صبر۔ افطاری سے پندرہ منٹ پہلے پکوڑوں، سموسوں، کھجوروں کے سامنے بیٹھے صابروں جیسا صبر تو نا کیجیےناں۔ پر بتاتے ہیں۔  

اب ہیں تو یہ 23 اور 26 یومِ جمہوریہ، لیکن بنے دونوں ملکوں کے لیے کچھ اور ہیں۔ جیسے کہ ہمیں دائیں دکھا کے بائیں مارتے ہیں۔ تو کیا کیا جائے؟

دو آپشن ہیں۔

دونوں ممالک کے عوام ان دو دنوں، یعنی 23 مارچوں اور 26 کی جنوریوں کو اسپتالوں میں دواؤں اور ڈاکٹروں کی کمی کے باعث شہید ہوتے بچوں، بوسیدہ، زنگ آلودہ تعلیم جھولی میں ڈَلنے پر مجبور نسلوں، بے روز گاری کا شکار نو جوانوں، زندگی کی کھیل میں کھلواڑ کراتی عورتوں، اورسیٹی بجاتے، سانسیں گِنتے بزرگوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ نظریہ بھلے دو قومی ہو، یا کم ہو، یا زیادہ…

نظریۂِ اوقات دونوں مردودوں کی ایک ہی ہے۔

تو پھر کیا کریں؟

کرنا کیا ہے۔

آؤ آگے پیچھے جاتے ٹینک دیکھیں۔ ادھار کے تیل پر قلا بازیاں کھاتے جہازوں کے ساتھ اپنی بِساط، اپنی پہنچ، اپنی رسائی سے دور اپنے کچے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر پَرائے آسمانوں پر نا دیدوں کی مانند آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر وقت گزاریں۔

چُوسے ہوئے آموں کی گُٹھلیاں پِھر سے چُوسیں، اور گردِ راہ بنے، پائمال ہوئے سگریٹوں کو ہوا کی تِیلی پر رگڑ رگڑ کراپنے بُو، بد بُو اور خُوش بُو کے تاثرات سے نا بَلد نتھنوں میں سے گزار کر سامنے والے، ساتھ والے، دائیں بائیں کھڑے باقیوں کے پھیپھڑوں کے لیے قرض دیں۔

اور ہاں پاکستان والے بھارت والوں کو بتائیں، شرط لگا کر جیتیں ہاریں کہ میں نے اتنے ٹینک دیکھے، تُو نے بس اتنے جہاز دیکھیے۔ ٭٭ھوتنِی کے تو ہار گیا، میں جیت گیا۔ نہیں، ٭رامی تو ہارا، مین جیتا، اور بَس ایک دوسرے پر پَل پڑو۔

اورہاں، حب الوطنی کی دیسی شراب پئیں۔ اور سارے کے سارے ایک نا گزاری زندگی کو بہ ظاہر گزار کر ایک بار پھر مَر جائیں، مَرے رہیں۔ اور وہ اوپر سے ہمیں سننے کو بھی ملے، یقیناً موت بَر حق ہے۔

یا پھر، سوچ لیں، اٹھ کھڑے ہوں اور جینے کا آپسی وعدہ کر لیں۔ یہ ذہن میں رکھ کر کہ وعدہ خلافی بد خصلتی کی پہلی نشانی ہوتی ہے۔ یہ سب جھوٹوں سے بڑا جھوٹ ہوتا ہے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔