پدما سچدیو سے ڈاکٹر زمرد مغل کی بات چیت

picture of author
زمرد مغل

پدما سچدیو سے ڈاکٹر زمرد مغل کی بات چیت

(ڈاکٹر زمرد مغل)

سوال: آپ کی تاریخ پیدائش 1940 ہے۔ 47 میں ملک تقسیم ہوتا ہے۔ تقسیم کا وہ درد ہم منٹو سے لے کر بیدی تک اور بیدی سے لے کر انتظار حسین تک ہم جھیل رہے ہیں سن رہے ہیں محسوس کررہے ہیں۔ آپ کی عمر اس وقت سات سال تھی آپ کے والد ملک کی اس تقسیم میں شہید ہوئے۔ تقسیم کا سانحہ جو گزرا اس کا اثر بہت سالوں تک رہا آپ اس درد کو بیان کرنا چاہیں گی؟ تقسیم پر کچھ روشنی ڈالیے۔
جواب: میرے لیے میرے پتاجی سب کچھ تھے بہت کم لوگ تھے اس وقت ریاست میں جتنا ہمارے پتا جی پڑھے ہوئے تھے ڈبل ایم۔ اے، ایل۔ایل۔بی، اور سنسکرت کے ودوان تھے میں پنڈتوں کے گھرانے سے ہوں راج پروہت، راج پنڈت ہیں میرے پرکھے۔ جب پتا جی کی خبر آئی یقین کرنے لائق تو بات نہیں تھی وہ میر پور گئے تھے جہاں وہ پروفیسر تھے کالج میں، تو ان کی ٹرانسفر جموں ہو گئی تھی وہ نہیں رہے اور میری ماں اکیس، بائیس برس کی بہت ہی خوبصورت عورت ودھوا ہو گئی۔اس کا دکھ میں نے اپنی ماں کے ساتھ سات سال سے جیا ہے۔ میرے دو چھوٹے بھائی تھے ایک چار سال کا تھا اور دوسرا مجھ سے ایک سال چھوٹا تھا وہ داستان بڑی لمبی ہے اور بڑی دکھ بھری بھی۔ وہ سب کچھ عمربھر میں نے اپنی آتما پر جھیلا ہے۔
سوال: پدما جی آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس پر مزید آپ سے بات نہیں کریں گے۔آپ کا سفر آل انڈیا ریڈیو جموں سے شروع ہوتا ہے۔
جواب: (بیچ میں روک کر) آپ بہت آگے چلے گئے۔ زندگی کے خوبصورت لمحوں کا نام بچپن ہے۔ میرا بچپن مرشے گاؤں میں گزرا۔ پر منڈل میرا گاؤں ہے جو بڑا تاریخی گاؤں ہے بیچ میں دیویکا بہتی ہے۔ آس پاس شیو جی کے مندر ہیں اور ہمارے گھر میں روز پارتھیوشیو بنتے تھے میرے تاؤ جی شیو جی بناتے تھے دو، تین گھنٹے وہاں بیٹھے رہتے تھیاور شیو جی کو بہانے میں دیویکا شام کو جایا کرتی تھی۔ میرے تاؤ جی بڑے پرکانٹ پنڈت تھے۔ پنڈت چکر بانی شرما اور والد صاحب کے انتقال کے بعد وہ بہت زیادہ دکھی تھے۔ بہت لوگھ دکھی تھے والد صاحب بوریاں بھر بھر کے روٹی اور چاول یہ سب لے کر گاؤں میں جا جا کر تقسیم کرتے تھے جب 47ء4 میں یہ سب شروع ہو چکا تھا۔ خیر والد ساحب چلے گئیہمارے سر پر آسمان کا سایا بھی نہ رہا پھر میری ماں نے۔ جو بڑی سیدھی عورت تھی ایک شیرنی بن کر تین بچے اس نے پالے۔ میں اور میرے دونوں چھوٹے بھائی۔ ہم لوگ سال بھر گاؤں میں رہے والد صاحب کی ایک شاگرد تھی جو انسپکٹر تھی میری ماں کو سکول میں لگا دیا۔ ماتا جی وہاں خوش نہیں تھی۔ میری ماں بڑی سیدھی عورت تھی بچوں کو انہوں نے پالنا تھا کبھی ٹرانسفر ہو جاتی تو بھی کسی کو کہنا پڑتا کہ اب ان کی ٹرانسفر جموں میں ہی ہوتا کہ بچے وہاں رہیں میرے بھائی کو میرے ماموں اپنے ساتھ اودھم پور لے گئے اور کہا کہ اسے میں وہاں پڑھاؤں گا میرا چھوٹا بھائی اور میں ماں کے پاس رہے۔ میری ماں نے ہمیشہ مجھے بیٹوں کے اوپرہی سمجھا کبھی کم نہیں سمجھا۔ میں بچپن میں بہت لوک گیت گایا کرتی تھی اور گھنٹوں گایا کرتی تھی اور لوگ آکے میری ماں سے کہتے شکنتلا تیری بیٹی بڑا اچھا گاتی ہے۔ تو ماں کو بڑی خوشی ہوتی تھی۔ چھوٹی عمر سے ہی میں ریڈیو جانا شروع ہو گئی شاید اس وقت میں دسویں کلاس میں تھی۔ بیس روپے مجھے ملتے جو بہت زیادہ تھے اس وقت۔
سوال: آپ کی ریڈیو کی زندگی کی شروعات جموں آل انڈیا ریڈیو سے ہوئی پھر جموں سے دہلی کس طرح آناہوا؟
جواب: میرے شوہر جو ہیں اس وقت میرے شوہر نہیں تھے۔ وہاں کوئی ایسی بات ہو گئی تھی کے لوگ مجھے بڑا تنگ کرتے تھے تو یہ وہاں ریڈیو میں تھے میرے کلیگ تھے انہوں نے کہا کہ پدما جی یہاں آپ کو لوگ جینے نہیں دیں گے آپ اپنی ٹرانسفر دلی کروا لیجئے دلی میں ڈوگری نیوز تھی اور اس وقت تک اچھا خاصا میرا نام ہو چکا تھا۔ بخشی غلام محمد نے خط لکھ کر دیا یہاں اس وقت ڈائریکٹر بھٹ صاحب تھے انہوں نے کہا کہ آپ جموں جائیں کوئی آپ سے کچھ نہیں کہے گا۔ میں نے کہا مجھے جموں واپس نہیں جانا ہے میں یہیں رہوں گی اور ڈوگری میں خبریں پڑھوں گی۔ مجھے یاد ہے دیوالی کے دن میں نے ڈوگری میں خبریں پڑھیں اور جموں میں ہنگامہ ہو گیا کہ لڑکی کہاں پہنچ گئی خبریں پڑھنے لگی بڑی بات تھی خبریں پڑھنا اس وقت میری عمر بائیس سال کے رہی ہو گی۔ سات سال میں یہاں رہی تین سال بعد میری شادی ہو گئی سردار جی نے بھی جموں سے دلی ٹرانسفر کر والی پھر ہم لوگ ملتے رہے انہوں نے جموں مجھ سے کہا تھا آپ چلیں جائے میں بھی دلی آجاؤں گا میں سمجھ گئی تھی یہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ میں نے سوچا میں اتنے بڑے پنڈتوں کی لڑکی کسی سردار سے شادی کروں گی۔ یہ من میں ہوتا تھا اس وقت۔ میرے شوہر بہت اچھے انسان ہیں۔
سوال: پدما جی جب آپ کی شادی ہوئی۔ ایک پنڈت گھرانے کی لڑکی سردار سے شادی کر رہی ہے گھر والوں نے اعتراض تو کیا ہوگا۔
جواب: (ہنستے ہوئے) میں نے بتایا ہی نہیں کسی کو۔ میری ماں کو جب شادی کا پتہ چلا تو وہ بہت خوش تھیں۔ میں نے ماں کو اپنی اور اپنے پتی کی تصویر بھیجی میری ماں یہ چاہتی تھی کے میری بیٹی سکھی رہے۔ میں نے ماں کو بتایا کہ ان کے گھر میں سب لوگ اچھے ہیں۔ میری ساس بہت اچھی تھی۔ میں آج کل کی لڑکیوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اگر آپ نے شادی شدہ زندگی کو کامیاب بنانا ہے تو سب پہلے جا کر اپنی ساس کے پاؤں پکڑ لیجئے۔ مجھے سردار جی نے شادی سے پہلے یہ کہا تھا کہ میں آپ کو کبھی کچھ نہیں کہوں گا۔ انہیں پتا تھا کہ میں لڑاکا ہوں۔ میری اپنی پرسنلٹی ہے میں ڈوگری کی شاعرہ اور ڈوگری کی پہلی خاتون لکھنے والی ہوں ایک بات اور بتاؤں آپ کو اپنے بارے میں کہ کوئی ڈوگری کا لوک گیت نہیں تھا جومجھے یاد نہ ہو اگر میں ڈھولک پر بیٹھتی تھی تو پانچ گھنٹے تک لوک گیت سناتی رہتی تھی۔ مجھے بھگوان نے اتنا دیا کہ اب میں بھگوان سے کچھ مانگنا نہیں چاہتی۔
سوال: پدما جی بھگوان نے جو کچھ آپ کو دیا آپ نے سماج کو معاشرے کو واپس بھی بہت لوٹایا ہے اور خاص کر آپ نے اپنی مادری زبان ڈوگری کو بھی دیا ہے۔ جب لوگ آپ کو Mother of Dogri Poetry کہتے ہیں تو کیسا لگتا ہے؟
جواب: اچھا نہیں لگتا ہے میں Mother of Dogri Poetry نہیں ہوں Mother of Dogri جو ہیں وہ لوک گیت ہیں۔ ہرزبان میں لوک گیت ہیں جتنی بھاشائیں ہندوستان میں بولی جاتی ہیں ان سب میں لوگ گیت ہیں۔ لوک گیت، کہیں کہیں جا کر ملتے ہیں۔ جیسے پنجاب ، راجستھان، کیلوک گیت جموں سے جاکر مل جاتے ہیں اس طرح لوگ گیتوں نے ایک دوسرے کو جوڑ کے بھی رکھا ہوا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ آج کوئی بھی لڑکی لے آئیں کسی کو لوک گیت یاد نہیں۔ سرکار جاکں اتنا کچھ کر رہی ہے وہاں سرکار کو لوک گیت سنبھال کر رکھنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اگر آپ اپنے لوگوں کو اپنی سنسکرتی کو، اپنے ماضی کو سنبھال کر رکھنا چاہتے ہیں تو لوک گیتوں کو سنبھال کر رکھیئے۔
سوال: پدما جی آپ پہلی شاعرہ ہیں ڈوگری کی آپ کو لگا نہیں کہ ڈوگری کے بجائے آپ کو ہندی میں لکھنا چاہیے تاکہ آپ کا دائرہ وسیع ہو۔ آپ اردو اور ہندی میں بھی لکھ سکتی تھیں۔
جواب: اس وقت ڈوگری کا بہت نام ہو چکا تھا بہت لوگ لکھ رہے تھے یش تھے دینو بھائی پنتھ تھے مدہو کر تھے دیپ تھیرام ناتھ شاستری تھے۔ میں ڈوگری میں ہی لکھنا چاہتی تھی اور لکھنا چاہتی ہوں جب میں اسکول میں تھی تو لکھا کرتی تھی ہندی میں اور لوگ پسند بھی کرتے تھے مگر مجھے سکھ ملتا تھا ڈوگری میں لکھ کر۔
سوال: آپ کی چیزیں ہندی، اردو، ڈوگری میں چھپتی ہیں اور پسند کی جاتی ہیں آپ ان تینوں زبانوں کے پڑھنے والوں میں مقبول ہیں۔ آپ کے دل کے سب سے زیادہ قریب کونسی زبان ہے۔
جواب: ڈوگری اور ڈوگری کے بعد اردو میرے سب سے زیادہ قریب ہے۔
سوال: اردو کے اہم ادیبوں اور شاعروں سے آپ کے تعلقات بھی رہے۔
جواب: اردو والوں نے مجھے بہت پیار دیا۔ جب سردار جی کا ممبئی میں تبادلہ ہوا تو میں ان کے ساتھ گئی وہاں علی سردار جعفری تھے۔ قرۃالعین حیدر تھیں۔ عصمت آپا تھیں راجندر سنگھ بیدی تھے کرشن چندر تھے ساحر تھے ان تمام لوگوں سے مجھے بہت پیار ملا۔
سوال: پدما جی جب آپ نے لکھنا شروع کیا تو ڈوگری میں اس سے پہلے کوئی مضبوط روایت نہیں ملتی آپ پہلی خاتون لکھنے والی، لوگوں نے کس طرح لیا آپ کو۔
جواب: بہت پیار ملا کچھ لوگ مجھے پسند نہیں کرتے مگر اس کی وجہ کچھ اور تھی لکھنے کی وجہ سے نہیں میری تحریروں کو سبھی پسند کرتے تھے۔
سوال: ممبئی میں آپ کے تعلقات لتا جی سے بھی رہے۔ آپ کے لکھے ہوئے گیت لتا منگیشکر نے گائے اور پھر اس کے بعد، آپ نے فلموں کے لیے لکھنا بند کردیا۔
جواب: جیسے گیت فلموں میں لکھے جاتے ہیں میں ویسے نہیں لکھ سکتی تھی مجھے نہیں پتہ کے باقی لوگ کیسے لکھتے ہیں۔ پانچ پانچ مکھڑے لکھ کر میوزک ڈائریکٹرکو دکھاتے تھے۔ کلیان جی بھائی تھے ایک بار کہنے لگے پدماجی یہ ایسے ہونا چاہیے میں نے کہا کلیان جی آپ کو اردو آتی نہیں آپ کیسے بتا رہے ہیں کہ اس میں اردو ڈالوں۔ میں کہا نہ پدما سچدیو گر میرے ڈوگری کے گیت میرے پاس آنا بند ہو جائیں گے تو میں فلموں میں نہیں لکھوں گی۔ ایک فلم میں لکھا مقبول ہوئی۔ راجندر سنگھ بیدی کی ایک فلم کے لیے لکھا جو ریلیز نہیں ہو سکی میں لتا دیدی کی ایک ہزار ریکارڈنگ Attend کی ہوئی ہیں۔ میں نے ان پر ایک کتاب بھی لکھی ہمیں اس وقت نوٹس بنایا کرتی تھی اس وقت نہیں سوچا تھا کتاب لکھوں گی۔ وہ کتاب بہت پسند کی گئی۔ مراٹھی میں لتا دیدی نے ترجمہ کروا کر چھپوائی مراٹھی میں بھی اس کتاب کو کافی پسند کیا گیا۔
سوال: آپ کی ایک کتاب ہے ’’جموں جو ایک شہر تھا‘‘ اس کے بارے میں کچھ بتائیں کہ اسے لکھنے کا خیال آپ کو کیسے آیا۔
جواب: میں جموں کے ریتی رواج، رہن سہن، وہاں میں بسنے والے لوگ، وہاں کے لوک گیت دنیا تک پہچانا چاہتی تھی میں نے اس کتاب میں اس شہر کی کہانی بیان کی۔
پدما جی آپ کا بہت بہت شکریہ