ترنم کی تحلیل نفسی

ایک روزن لکھاری
ایچ بی بلوچ، صاحب نگارش
ترنم کی تحلیل نفسی
(ایچ بی بلوچ)

آواز کے ساتھ  ہمارا واسطہ قدیم بلکہ فطری طور پر  فائدے مند بہی رہا ہے.
آواز کا اعلامیہ اپنے مفہوم میں بہت سی اسطلاحات رکھتا  ہے.
آواز دبا دی گئی.
آواز اٹھائی گئی.
خاموش رہو. وغیرہ وغیرہ.
آواز ہماری سماعتوں کے لیئے اچھے اور برے طریقے سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے.  آواز اچھی یا بری نہیں ہوتی. آواز سے ہماری توقعات اچھی یا بری ضرور  ہو سکتی ہیں. تو دراصل آواز کا کرخت یا پر ترنم ہونا کسی فعل کی ہمارے ساتھ اچھی یا بری وابستگی کا اظہار کر رہی ہوتی ہے.

انسان ہمیشہ سے اپنے احساسوں کے اظہار کے بارے میں محتاط رہا ہے.  ہمیں اپنے اظہار کا شعوری ادراک نہ بہی ہو مگر انسان کے فطری اعمال کبھی بہی شعوری تعریف کے محتاج نہیں رہے.  یہ کہنے کا مناسب موقع ہے کہ ہم جو سوچ رہے ہوتے ہیں یا کہہ رہے ہوتے ہیں. فطرت اس کی اس سے پہلے ہی فطری عمل کر رہی ہوتی ہے.

ترنم کی تحلیل نفسی

موجودہ دور میں معروضی طور پر معاشی اور سماجی مسائل نے سب کے خواب خشک کر دیئے ہیں. اور انسان کا جاگنا ایسی ضرورت بن گیا ہے جس کے تحت سوتے وقت یا نیند آنے سے پہلے بچپن کی کئی لوریاں یاد آنے لگتیں ہیں.

انوکھا لاڈلا کھیلن کو چاند مانگے.
یا
چندا ماما دور کے
پوئے پکائیں بور کے
آپ کھائیں تھالی میں
منے کو دیں پیالی میں.
یا
الھڑ بلھڑ باوے دا
باوا کنک لیاوے گا
باوی من پکاوے گی
باوا  بہہ کے کھاوے گا.

ان لوریوں میں کھیل چاند اور کھانے کو قطعی طور پر ماں کے مشفقتانہ ترنم اور نیند سے الگ نہیں کیا جا سکتا. لوریاں آج تک بچوں کے لیئے عدم دستیابی کی تشفی کرتے میٹھی نیند کا سبب بنی ہوئی ہیں. بغیر کسی شک کے کہا جا سکتا ہے کہ فرائڈ کا تحلیل نفسی کا طریقہ علاج سے یہ روایات بہت قدیم ہیں. اور انسانی فطرتی عمل سے اتنا قریب ہیں جتنا انسان کے دکھ سکھ کے مواقع قدیم ہیں.

موسیقی اور اور پرترنم شاعری ہمیں اس لیئے پسند آتی ہے کہ یہ ہمارے خوشی اور غمی کے جذبات کی عکاسی اور اخراج کا سبب بنتی ہے.  فصل کے کٹائی کا ایک سندھی لوک گیت ھمرچو اپنی محنت کی اجرت کا گیت ہی نہیں بلکہ ترنم کو نئے انداز میں سمجھنے کے لیئے ایک خوش گمان شگون بہی ہے.
موسیقی ان عوامل میں سے ہے جن میں کچھ نفسیاتی و دماغی عوارض کے حامل افراد کو وجد میں لایا جاتا ہے. اور اس مخصوص کیفیات میں مریض سے ذاتی سوال جواب کیئے جاتے ہیں. اور  کچھ لوگ اپنی بیماری اور مستقبل کے  متعلق بہی پوچھ لیتے ہیں. اس کیفیت کو تاحال جنات و ارواح کی واردات طور پر تعبیر کیا جاتا ہے.

موسیقی کے استعمال طریقہ علاج کے متعلق تسلسل سے تحقیقات اور مباحثہ سامنے آتا رہا ہے.  جس کے بہی اب تک اعصابی حوالے سے نتائج دیکھنے میں آئے ہیں.  موسیقی بہ طور معالجہ  درد کو محسوس کرنے میں کمی زیادتی سکون اور بے سکونی کے علاوہ کوئی بہتر نتائج نہیں دے سکی کیونکہ یہ جسمانی طور پر کوئی مداخلت نہیں کر پاتی.

مگر یہ بات اس سے زیادہ موسیقی کو اہم بناتی ہے کہ ترنم  ہمارے نفسیاتی اظہار کا لطیف احساس ہے. قدیم مخطوطوں میں ترنم کی تحلیل نفسی حیران کن فطری نتائج کی مظہر ہے. زیادہ تر قدیم مذہبی کتابیں مخصوص ترنم کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں. کچھ مذاہب کی عباداتی نصیحات اشعار پر مبنی ہیں. ہندو مت میں بگھوت گیتا کی لغوی معنی محبت کے گیت ہیں. آریہ لوک میں مذہبی کتاب سام وید کی لغوی معنی ترنم کا علم ہے. ہندو مت میں خوشی غمی کی عباداتی مواقع پر پاٹ شلوک اور بھجن گائے جاتے  ہیں.

صوفیا کرام کی شاعری اور عقیدت مندوں کی وجدانی کیفیت اور اسلام میں ترنم کے حوالے سے حمد نعت مرثیہ منقبت میں ترنم کا لہجہ واضح ہے.

انسان کے سب سے پہلی موسیقی شاید قہقہا ہو جس کی شاعری کی تعریف ہم خوشی کے طور پر کر سکیں.  مگر رونا ؟
 رونا شاید انسان کے درد کا سب سے پہلا اظہار اور اس اظہار کا پہلا موقع شاید انسان کے نفسیاتی سکون کا سبب رہا ہو.
اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا  . مگر یہ ہمیں ترنم کی متعلق تحلیل نفسی پر سوچنے کے مواقع ضرور پیدا کرتا ہے.