نوام چومسکی کی کتاب فور ریزنس آف اسٹیٹ

ایک روزن لکھاری
معراج رعنا، صاحبِ مضمون

نوام چومسکی کی کتاب فور ریزنس آف اسٹیٹ

معراج رعنا

For Reasons of State ( اسبابِ ریاست کے لیے) نوام چومسکی کی وہ مشہور کتاب ہے جسے ویت نام جنگ کی دانش ورانہ تاریخ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ نوام چومسکی امریکہ کے Massachusetts Institute of Technology میں لسانیات کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔ لسانیات میں Generative Grammar کو ان کامعرکۃ الآرا کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے۔بیت العلمی کے باہر وہ بڑے سیاسی عمال اور امریکی حکومت اور اس کی خارجہ پالیسی کے تئیں اپنی سخت ترین تنقید کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ انھیں عام طور سے امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی میں کلیدی دانش ور تسلیم کیا جاتا ہے۔

انسانی وسائل کے منقولہ انڈیکس کے مطابق ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۲ء کے درمیان چومسکی کو ذرائع علوم کے طور پر نقل کیے جانے والے زندہ دانش وروں میں اول اور اب تک کا آٹھواں دانش ور گردانا گیا ہے۔ ۱۹۵۷ء میں “Syntactic Structures” نام کی کتاب لکھ کر چومسکی نے لسانیات کے شعبے میں انقلاب برپا کر دیا۔ ساٹھ کی دہائی میں چومسکی عوامی سیاست میں کافی سرگرم رہے۔ ویت نام جنگ کے سب سے بڑے مخالف کے طور پر انھیں اس وقت نشان زد کیا گیا جب ۱۹۶۷ء میں “The New York Review of Books” میں ان کا مضمون’’دانش وران کی ذمہ داری‘‘ شائع ہوا۔ اپنی تمام تر تنقید کے باوجود وہ امریکہ میں سکونت پذیر رہنا چاہتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ امریکہ آج بھی دنیا کے عظیم ملکوں میں سے ایک ہے جہاں آزادئ اظہار حاصل ہے۔ ۲۰۰۵ء     میں برطانوی رسالے کے  گلوبل انٹیلکچول پول میں چومسکی کو اولیت کا شرف حاصل ہوا تھا جب کہ ۲۰۰۶ء میں  New Statesman نے ’’ہمارے زمانے کے ہیروز‘‘ کے عنوان سے ایک فہرست ترتیب دی تھی جس میں چومسکی کو رائے دہی کے ذریعے ساتواں مقام حاصل ہوا تھا لیکن چومسکی اپنے تئیں اس نوع کی عظمت اور فضیلت کے نکتے پر کبھی سنجیدگی سے مرتکز نہیں ہوئے۔ وہ خود کو ایک غیر دلچسپ مقرر تسلیم کرتے ہیں۔

ان کا کہناہے کہ ان کے الفاظ اہم نہیں ہوتے بلکہ اہم ہوتے ہیں وہ مسائل جو دنیا کے مختلف ممالک سے متعلق ہوتے ہیں، اور وہی مسائل ان کی تحریر و تقریر کے بنیادی موضوعات ہوتے ہیں۔

زیر بحث کتاب چومسکی کے ان نو مضامین پر مشتمل ہے جنھیں ویت نام اور کمبوڈیا میں امریکہ کی فوجی مداخلت کے خلاف احتجاجانہ خراج عقیدت کادرجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کی ایک نمایاں بات یہ بھی ہے کہ اس کا پیش لفظ انگریزی کی مشہور ہندوستانی ادیبہ اوردانش ور محترمہ اروندھتی رائے نے لکھاہے۔ ’’نوام چومسکی کی تنہائی‘‘ کے عنوان سے محترمہ رائے نے اپنے پیش لفظ میں چومسکی کی دانش ورانہ عظمت اورکتاب میں شامل مضامین کی قدر و قیمت متعین کرنے میں کسی بھی مصلحت کومانع نہیں بننے دیا ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محترمہ رائے چومسکی کی تحریر و تقریر، عالمی سیاسی منظر نامے پر ان کی زبردست گرفت، بے باکی اورصاف گوئی سے کس حد تک متاثر ہیں۔ وہ چومسکی کی امریکی پالیسی کی تنقید کے متعلق یہ نکتہ آفرینی کرتی ہیں کہ چومسکی جیسا امریکی شہری ہی امریکہ کے ہر نوع کے غیراخلاقی اقدامات کی بہتر طریقے سے تنقید کر سکتا ہے۔ وہ اس بات کی پیش گوئی بھی کرتی ہیں کہ جب امریکہ کا زوال ہوجائے گا تب بھی چومسکی کاعلمی کارنامہ اپنی تابناکی کے ساتھ موجود ہوگا۔

کتاب کاابتدائی حصہ پنٹاگن دستاویزات کی روشنی میں امریکہ کی ویت نام جنگ پر سخت تنقید سے عبارت ہے۔ یہاں چومسکی نے ان نکات کی مدلل تردید کی ہے جن کی بنیاد پر امریکہ کی ویت نام میں فوجی مداخلت کو جائز تسلیم کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو بھی اپنی تنقید کا ہدف بنایاہے۔

چومسکی نے امریکہ کی سیاسی اورفوجی پالیسی کوعالمی تناظر میں رکھ کر یہ ثابت کرناچاہا ہے کہ امریکہ کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ صنعتی ممالک اورترقی پذیر ممالک میں ایک مضبوط رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جودر حقیقت تکنیکی اعتبار سے ترقی یافتہ ملک (امریکہ) بیک وقت دو طرح کے کام انجام دیتاہے۔ یعنی پہلے تو وہ غیر انسانی اسلحے کا مظاہرہ کرتا ہے پھر جان و مالی کے نقصان کے بعد فلاحی اور تعمیری کام کے لیے مال امداد فراہم کرنے کی پیش رفت کرتا ہے۔ امریکہ کایہ دورخا نظریہ چاہے کتنا ہی امریکی حکومت کے حق میں کیوں نہ سود مند ثابت ہو لیکن اسے کسی بھی اعتبار سے عالم انسانیت کے حق میں مناسب اور مستحسن نہیں سمجھا جاسکتا۔ پنٹاگن دستاویزات میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ امریکی بمبار طیاروں نے ویت نام کے ایک غیرترقی یافتہ گاؤں کو ہدف بنایاتھا لیکن سچائی یہ تھی کہ یہ چھوٹا سا جزیرہ جو چاول کی کاشت کے لیے کافی زرخیز سمجھاجاتا ہے، پوری طرح تباہ وبرباد کردیا گیا۔ جنگ کے دوران امریکہ کا یہ جواز کہ ویت نام میں صرف ان مقامات کو نشانہ بنایاجارہا ہے جو فوجی اوردفاعی اہمیت کے حامل ہیں۔ چومسکی یہاں امریکی اوریورپی پریس کے حوالے سے امریکہ کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔امریکی اور یورپی پریس نے چشم دید مناظر کے حوالے سے لکھا تھا کہ Haiphong کا مغربی علاقہ جنگ کے دوران پوری طرح خرابے میں تبدیل ہوگیا تھا۔

سیمنٹ کے کارخانے منہدم اور غذائی مراکز برباد کر دیے گئے تھے۔پریس کی اس صداقت آمیز روداد کے باوجود پنٹاگن دستاویزات میں امریکی حکومت نے یہی کیا کہ ویت نام میں صرف فوجی مراکز کو ہدف بنایا گیا تھا جومحض ایک جنگی حکمتِ عملی تھی۔ پنٹاگن دستاویزات (IV, 18) میں یہ نمایاں طور پر کہاگیا کہ ویت نام میں معرکہ آرائی کے دوران امریکہ نے وہاں کے آباد علاقوں کو ہر طرح سے نظر انداز کیاتھا جب کہ C.I.A کے ایک تخمینے کے مطابق ویت نام میں امریکہ نے ۱۶۱۰۰۰ ٹن بم گرائے تھے جس میں ۳۰۰۰۰ عوامی ہلاکتیں درج کی گئی تھیں۔پنٹاگن دستاویزات میں اس قسم کے تضادات کوجگہ جگہ چومسکی نے نشان زد کیاہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ پنٹاگن دستاویزات کو کسی بھی طرح صداقت پر مبنی جواز سے تعبیر نہیں کیاجاسکتاکیوں کہ دستاویزات میں کہیں بھی ویت نام پر امریکہ کی بلاتفریق بمباری کے فیصلے کاکوئی ثبوت مہیا نہیں کیاگیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھاجائے تو پنٹاگن دستاویزات امریکہ کی ویت نام جنگ کاکالا کارنامہ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کی لفظی بازیگری سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔

چومسکی نے ایک دلچسپ اور متضاد روداد کا ذکر کیا ہے۔ جنگ کے دوران امریکی خلائی فوج کے سکریٹری Robert Seamans شمالی لاؤس کے سفر کے بعد لکھتے ہیں I have seen no evidence of indiscriminate bombing جب کہ اسی وقت Allman.D.T نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے منظر کو اس طرح بیان کیاکہ گھنی آبادی والا شہر لاؤس پوری طرح تباہ وبرباد کردیاگیاہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ فوجی مراکز سے زیادہ امریکہ کاہدف وہاں کے گاؤں اورزرخیز زمین تھیں جوویت نامی عوام اورحکومت کی بڑی مضبوط معاشی بنیادیں رہی ہیں۔ چومسکی تویہاں تک کہتے ہیں کہ امریکہ کی پوری تاریخ میں اتنی بمباری اور خلائی فوجی کارروائی کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی جتنی کی ویت نام جنگ کے دوران دیکھنے کو ملتی ہے۔ ویت نام کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کی بنیاد وہاں کے سیاسی عدم استحکام کودور کرنا نہیں تھا بلکہ اس کا اصل محرک کمیونزم کی مخالفت اور آزادی عوام کے نام پر امریکی طرزِ جمہوریت کی بحالی تھی۔ ایک ایساجمہوری نظام جس کے قیام کے لیے لاکھوں لوگوں کو ہلاک کردیاگیا اور فصلیں اورصنعتیں برباد کردی گئیں۔ امریکہ شروع سے آزادی اور حقوقِ انسانی کاماہر سمجھا جاتا رہا ہے۔

حقوقِ انسانی کا معاملہ تو اتنا دگرگوں ہے کہ اس کی معنویت ہی مشکوک ہوکر رہ گئی ہے۔ نوام چومسکی امریکہ کے اس مداخلتی رویے کو اس کی سیاسی تہذیب کاجزولاینفک تسلیم کرتے ہوئے اس کی سخت تنقید کرتے ہیں:

It has been a deeply rooted premise in American political culture that the United States has the right to intervene in the internal affairs of others.

شاید یہی وجہ ہے کہ وہ پنٹاگن دستاویزات کو دوسرے مبصرین کی طرح محض ’’جھوٹوں کی پوٹلی‘‘ یعنی  lies of record  سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ وہ اس نوع کی فوجی کار روائی کے بعد اسے حق بجانب ٹھہرانے کی دستاویزی کوششوں کی مذمت کے لیے ’’جھوٹ‘‘ جیسے لفظ کے استعمال کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چومسکی پنٹاگن دستاویزات کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے، اور انہیں تضادات کا انبار سمجھتے ہیں۔ جس سے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں پائے جانے والے تضادات کی ترجمانی ہوتی ہے۔