نیو کالونیلزم کا ابھرتا ہوا بھیانک چہرہ … پاکستان اور شام کے تناظر میں 

Naeem Baig

 نیو کالونیلزم کا ابھرتا ہوا بھیانک چہرہ … پاکستان اور شام کے تناظر میں

بیسویں صدی کے عین درمیان ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کا قیام  عالمی چہرے پر ایک ایسی معرکۃ الآراء تجریدی  تصویر بناتا ہے جس میں مصور کے ہاتھ سے لگے برش کے ایسے ایسے کام یاب سٹروکس، تب علامت میں مخفی اور ابہام کا شکار تھے، اب پورے کینوس پر دیگر ابھرنے والی تصویروں کے ساتھ اپنے خد و خال کو آشکار اور نمایاں کرنے لگے ہیں۔

آج تک بر صغیر کے ادیب و شاعر صرف ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام اور اس عمل کو صریحاً متاثر کرنے والے ان بے شمار المیوں کی لکیر ہی پیٹتے رہے ہیں جس سے فوری نوعیت کے انسانی حقوق نہ صرف متاثر ہوئے، بَل کہ اگلی کئی ایک دھائیوں تک اس کی باز گشت پوری دنیامیں سنی گئی۔

دنیا بھر کی نو آبادیات میں اس نظام کی ممکنہ عملی مزاحمت ہوئی۔ مضامین لکھے گئے، مذمت ہوتی رہی اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات کا علمی اور فکری سطح پر جائزہ لیا گیا۔ لیکن مضبوط سرمایہ دارانہ نظام میں وہ ایک ٹھہرے ہوئے پانی میں پھینکے گئے چند پتھروں کی ایک جھنکار ہی تھی، جو چھپاکے سے ابھری اور پھر جوہڑ کی تہہ میں بیٹھ گئی۔

آج بھی اکیڈیمک اور انسٹیٹیوشنل سطح پر تنقیدی تھیوریز کی اس باز گشت کا آوازہ ادب میں سنائی دیتا ہے۔ ہر وہ شخص جسے تنقیدی علم تک فہم رسائی ہے، وہ اس نوالے کو چبا رہا ہے اور ہر روز ایک نئی کتاب سامنے آ جاتی ہے۔ جس میں اسی نو آبادیاتی تھیوریز کی نئی نئی جِہات سامنے آتی ہیں، لیکن فکری سطح پر کسی نے یہ نا سوچا کہ اس نظام کے عملی اور علمی ارتقائی مدارج اب کہاں جا ٹھہریں گے؟

مستقبل کی دنیا مروج نو آبادیاتی نظام جسے بَہ ظاہر دنیا بھی ختم کر دیا ہے، کیا واقعی ختم ہوا ہے، یا نئی بھیانک شکل میں نمُو دار ہو رہا ہے؟

منٹو، بیدی، قاسمی، فیض اور دیگر عصری شعراء و اُدَباء نے ہندوستان کی تقسیم، دو طرفہ ہجرت کے الم ناک واقعے، لاکھوں انسانوں کے قتل و غارت پر نوحے لکھے۔   اس عہد کا تقاضا بھی یہی تھا، لیکن بر صغیر کے ساتھ در حقیقت ہوا کیا؟ یہ ایک بڑا سوال تھا اور ہے؟

فوری نوعیت کے سانحے ہی اس قدر جان لیوا تھے کہ علمی سطح پر اس طرف دھیاں ہی نہیں گیا کہ یہ سب کچھ اگلے پچاس ساٹھ برسوں میں کہاں جا بیٹھے گا۔  برطانیہ اپنے طور پر اس نو آبادیات سے ہاتھ کھینچ بیٹھا تھا، لیکن مغرب کی نمائندگی امریکا نے طاقت کے بَل بُوتے پر اپنے ہاتھ میں لے لی۔

تب عالمی استعماریت نے نیو کالونیلزم کی نئی سیاسی و عملی شکل تجسیم کی اور اس کے جوہری عناصر کی کسی کو بھنک نہ پڑنے دی۔ اور جہاں جہاں نیو کالونیلزم پر لکھا گیا وہ پھر نئے انداز کی تکثریتی تکرار ہی رہا۔ البتہ اس کا فکری فہم کہیں کہیں ترقی پسند دانش وروں کے سامنے آئی، اور اس پر ترقی پسندوں کے اختلافی نوٹ آئے تو سرحد کے آر پار دونوں طرف، اور مغربی دنیا میں لیفٹ کے ان فکری منابع کو plug کرنے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی، تا وقتِ یہ کہ وہ  اسی اور نوّے کی دھائی میں بعد اَز سرد جنگ اور سوویت یونین کے ٹوٹنے پر پوری طرح  عالمی سطح پر کام یاب ہوئے۔

بعد ازاں  نئے کیمونسٹ روس اور سوشلسٹ چین  نے بھی استعماری ٹوٹکے مشتے از خروارے اپنی ابھرتی ہوئی معاشی پالیسی میں شامل کیے اور یوں  بچے کچھے علامتی ترقی پسند چہرے جزوی طور پر سرمایہ کے بوجھ تلے دب گئے لیکن انھوں نے ہار نہ مانی۔

ژاں پال سارتر نے کالونیلزم اینڈ نیو کالونیلزم میں اس طرف اشارہ کیا، اور ٹرائی کانٹیننٹل یعنی تیسری دنیا (تھرڈ ورلڈ) کے بارے میں فلسفیانہ گفتگو کی ہے، جس پر اس کتاب کے مترجم نے تفصیلاً اپنے دیپاچے میں روشنی ڈالی ہے:

 Azzedine Haddour, Steve Brewer and Terry McWilliams

 اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ جب نیو کالونائزیشن کا عالمی منظر نامہ افریقہ میں ابھرنے لگا اور اس کے بعد رفتہ رفتہ بر صغیر اور لاطینی امریکا میں جہاں جہاں کالونیلزم اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔

As narrated in Eighteenth Brumaire by Marx “That the men make their own history, but not of their own free will; not under circumstances they themselves have chosen, but the given and inherited circumstances with which they are directly confronted” (Marx 1973-146)

کسی بھی بڑے المیہ  کے بعد جو حالات وراثت میں ملتے ہیں اور جو سیاسی مسائل اور قیادت اس وقت سامنے آتی ہے وہی عالمی طاقتوں کی اشتراکِ کار بنتی ہے اور اسی پر ان ملکوں کے معاشی، ثقافتی اور تاریخییت کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ class struggle کا phenomenon ایک سطح پر ہی مسلسل جاری رہتا ہے اور کسی نہ کسی صورت ابھرتا رہتا ہے اور یہی اس نظریہ کا ارفع پن ہے۔

آج تیسری دنیا میں یہی جد و جہد اپنا جوہری روپ بدلتی ہے اور سرمایہ کے بوجھ تلے دبی سیاست میں مذہبی شراکت داری کرنا چاہتی ہے۔ یوں طبقاتی جد و جہد  کے نام پر منافقت کی نئی تعریف طے ہوتی ہے۔ آپ دیکھ لیجیے علاقائی صورتِ حال کے پیشِ نظر ہندوستان میں ہندوتوا، افغانستان میں افغان طالبان، پاکستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر مذہبی عسکری عناصر، ایران میں پاس داران، اور مڈل ایسٹ میں داعش اس کی واضح امثال ہیں۔

یہ تحریکیں اپنی اساس میں مکمل طور پر اپنے سیاسی و تہذیبی تناظر میں مذہبی نظام کے لیے شروع ہوئیں، لیکن سرمایہ کی ہوش رُبا طاقت کے سامنے باغیانہ طرز عمل سے طبقاتی جد و جہد میں بدلنے کا دھوکا دیتی رہیں۔ چُوں کہ ان کے فکری جوہر میں ملوکیت اور خارجیت بَہ ہر صورت حاوی تھی، سو جلد ہی یہ نئے سِرے سے  ان کے ہاتھوں سے نکل کر سرمایہ دارانہ مین سٹریم میں پراکسی وارز کی صورت داخل ہو گئیں اور یوں استعماریت نے سرمایہ کے بَل بُوتے پر ان کی جوہری مذہبی شکل بھی بدل دی اور انسانی وجود کے لیے مبینہ مذہبی یکساں سیاسی، معاشی اور عمرانی نظام کی جگہ اپنے بھیانک چہرے کا ماسک چڑھا دیا۔

اب یہ تنظمیں تیسری دنیا کے  امن و سکون اور نظریاتی جوہر کو جہاں کم زور کرتی ہیں وہیں سرمایہ کی نئی تعریف کو مہمیز دے رہی ہیں؛ در حقیقت یہی وہ نیو کالونیلزم ہے جو اپنے بھیانک چہرے کے ساتھ تیسری دنیا میں اپنے ظلم و جبر کو ہر ممکن طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ (پاکستان اور شام کا حالیہ سیاسی منظر اس کی بہترین مثال ہے۔)

در حقیقت یہی وہ نیو کالونیلزم ہے جو اپنے بھیانک چہرے کے ساتھ تیسری دنیا میں اپنے ظلم و جبر کو ہر ممکن طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان اور شام کا حالیہ سیاسی منظر اس کی بہترین مثال ہے۔

شام میں یہ ہوا کہ ایک مخصوص مقامی حصے نے شراکتی عمل داری میں شامل ہونے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے عملاً دونوں طاقتیں بَہ راہِ راست جنگ میں کود پڑیں۔

پاکستان بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جہاں مندرجہ بالا تمام حربے ایک ساتھ رُو بَہ عمل میں ہیں اور مقامی ادارے اس بات کا تعین کرنے میں نا کام رہے ہیں، کیوں کہ وہ ادارے اپنے طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں جب کہ وہ حقیقی طور پر مفلوج ہو کر صرف اپنے معمولی نوعیت کے قومی یا ملکی اہداف تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔

بڑے اہداف، ان کا تعین اور اس کے دُور رَس اثرات کا احاطہ کرنا ان مقامی اداروں کے دائرۂِ کار میں ہی نہیں رہا ہے۔ نتیجتاً یہ شراکتی عمل داری ایک مجبوراً سرگرمی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

از، نعیم بیگ 

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔