مسلم لیگ حکومت کے ترقی کے دعوے اور پاکستان اسٹیل

مسلم لیگ حکومت کے ترقی کے دعوے اور پاکستان اسٹیل
مسلم لیگ حکومت کے ترقی کے دعوے اور پاکستان اسٹیل 
(ابو سانول)

ممتاز علی شاہ صاحب کی بطور سکریٹری پورٹ اینڈ شپنگ تعیناتی کے بعد ایک اور جُزو وقتی چیف ایگزیکیٹو آفیسرز جناب محسن حقانی کو پاکستان اسٹیل سونپ دی گئی ہے ان کی تعیناتی چئیرمین ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی کی گئی جبکہ ان کے پاس اسٹیل ملز کا ایڈیشنل چارج بھی رہے گا ۔پاکستان اسٹیل میں ان کی تعیناتی تین ماہ یا نجکاری تک کیلئے کی گئی ہے یہ تیسرے چیف ایگزیکیٹو آفیسر ہیں جنہیں اسی مدت اور یکساں الفاظ پر مشتمل تعیناتی لیٹر جاری کی گیا ہے سابق دو سالہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے کُل وقتی چیف ایگزیکیٹو آفیسر میجر جنرل ظہیر احمد تھے جنہوں نے اپریل 2014 تا مارچ 2016 تک خدمات سر انجام دیں لیکن اہداف پورے کیے بغیر ہی واپس چلے گئے۔ان کے بعد دو سہ ماہی مدت کیلئے یہ ذمہ داریاں جُز وقتی حیثیت میں سکریٹری صنعت و پیداوار جناب خضر حیات گوندل صاحب کے پاس رہیں جس کے بعد تین ماہ کیلئے ممتاز علی شاہ صاحب کو یہ ایڈیشنل چارج دے دیا گیا ان کی پہلی سہ ماہی مدت مکمل ہونے کے بعد دوسری سہ ماہی مدے پوری ہونے کو تھی کہ ان کی بطور سیکریٹری تعیناتی کا لیٹر آگیا اس طرح اسٹبلشمنٹ ڈویژن میں تعیناتی کے منتظر محسن حقانی صاحب کو اسٹیل ملز سپرد کر دی گئی ہے۔
درج بالا رام کہانی کا تفصیل سے بیان کا مقصد یہ تھا کہ یہ واضح رہے کہ مسلم لیگ حکومت پاکستان اسٹیل کے معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے اور وہ پچھلے ایک سال سے صرف اس امید پر کُل وقتی CEO نہیں لگا رہی کہ وہ پاکستان اسٹیل کی نجکاری کا ارادہ رکھتی ہے یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ گذشتہ چار ماہ سے نجکاری کمیشن کے چئیرمین کا عہدہ خالی ہے جبکہ نجکاری کمیشن کے سکریٹری بھی گذشتہ دو ماہ سے کہیں اور پوسٹ کردیئے گئے ہیں۔سابقہ چئیرمین نجکاری جناب زبیر عمر نے اپنے اس عہدے کے آخری ایام میں پاکستان اسٹیل کو نجکاری کی بجائے لیز آؤٹ کرنے کا مژدہ سنایا تھا۔ یہاں قارئین کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ گذشتہ دو سال سے پاکستان اسٹیل کی پیداوار صفر ہے۔پیداوار کی اس بندش کی واحد وجہ حکومت کی پالیسی ہے جس کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی نے پاکستان اسٹیل کے ذمہ واجب الادا 30 ارب سے زائد گیس بل کی عدم ادائیگی پر مطلوبہ پریشر کی فراہمی معطل کردی۔
2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلم لیگ حکومت نے پاکستان اسٹیل بحالی کی ایک نیم دلانہ کوشش اس وقت کی جب انہوں نے اپریل 2014 میں پاکستان اسٹیل بحالی کیلئے 18.5 ارب روپے کا بیل ااؤٹ پکیج منظور کیا اس پکیج میں سال بھر کی ملازمین کی تنخواہیں بھی شامل تھیں جو اس وقت5 ارب روپے سالانہ بنتی تھیں۔بس یہ کوشش تھی جس کے بعد حکومت نے طے کر لیا کہ پاکستان اسٹیل چلایا نہیں جاسکتا ۔ یہی نہیں کہ حکومت اپنے اس پلان میں ناکام ہوئی بلکہ بار بار کے اعلانات کے باوجود اب تک پاکستان اسٹیل کی نجکاری میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان اسٹیل کو جان بوجھ کر عضو معطل رکھنا چاہتی ہے ۔ پروڈکشن جان بوجھ کر معطل کروائی گئی اور یہ بھی جان بوجھ کر ہوا کہ اسے نجی شعبہ کے حوالے نہ کیا جائے۔اور اسکی بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ چین کی اسٹیل کی زائد پیداوار کو پاکستان میں کھپانے کا موقع فراہم کیا جائے۔ریکارڈ پر ہے کہ گذشتہ 9 سالوں میں اسٹیل کی درآمد چین سے ہوئی ہے ۔اس وقت پاکستان میں اسٹیل کی ضروریات 50 ملین تک ہے جبکہ آئندہ سالوں میں 60 ملین ٹن سالانہ تک پہنچنے کا امکان ہے۔ جبکہ پاکستان اسٹیل کی پیداواری استعداد صرف 11 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔اس طرح پاکستان اسٹیل کی بحالی کے باوجود درآمد سے ہی ضروریات پوری ہوں گی۔اکثر لوگ پاکستان میں قائم دیگر اسٹیل ملوں کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ صرف پاکستان اسٹیل بند ہے جبکہ نجی شعبہ میں قائم اسٹیل ملیں چل رہی ہیں انہیں یہ فرق سمجھنا چاہیے کہ پاکستان اسٹیل واحد اسٹیل ملز ہے جو خام مال سے اسٹیل تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ بقایا تمام اسٹیل ملیں اسٹیل ری رولنگ ملز ہیں ۔اسطرح بنیادی طور پر یہ اسٹیل ادارے پاکستان اسٹیل کے تیار مال کی منڈی ہیں جو پاکستان اسٹیل کی پیداوار بند ہونے سے 100 فیصدی درآمد پر انحصار کرتے ہیں۔
حکومت کی پاکستان اسٹیل کے معاملے پر اس عدم دلچسپی کی وجہ سے پیداوار ختم ہونے کے بعد اب ٹیکنیکل انتظامیہ،ٹیکنیکل اسٹاف،ایڈمنسٹریشن اور مالی ماہرین ختم ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔پلانٹس کی بندش سے نوجوانوں کی بھرتی اور انجینئرز کی بھرتی بند ہے۔ریٹائرمنٹ میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور انکی جگہ بھرنے والا کوئی نہیں یہ حالات مستقبل کی اس سنگینی کی جانب اشارہ ہیں جس میں حکومت چاہے تو بھی پاکستان اسٹیل کو بحال نہ کرپائے۔ پاکستان اسٹیل کے مالی حالات اس حد تک دگر گوں ہوچکے ہیں کہ 2013 سے ریٹائرڈ ہونے والے اور 2016 سے وفات پانے والے ملازمین کے واجبات ادا نہیں کیے جاسکے۔ ملازمین کی تمام سہولیات ختم ہوچکی ہیں حتیٰ کہ طبی سہولیات سے بھی وہ محروم کر دیئے گئے ہیں۔ کئی سالوں سے ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔سب سے بڑا ظلم ان ملازمین پر یہ کہ وہ دو سال سے بیکار بیٹھے ہیں ان سے محنت کا حق چھین کر حکومت انکی خدمات کو تو مٹی میں ملا ہی رہی ہے مزید طرح یہ کہ انہیں بیمار بھی بنا رہی ہے۔