دنیا کی چار بڑی ہڑتالیں

دنیا کی چار بڑی ہڑتالیں
دنیا کی چار بڑی ہڑتالیں : چار بڑی ہڑتالیں جنھوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا
(بی بی سی اردو)

حقوق کا مطالبہ تصویر کے کاپی رائٹ Thinkstock

مزدوروں کو جب سے اپنی حالت زار کے بارے میں اندازہ ہوا ہے تو اس وقت سے دنیا نے بہت ساری ہڑتالیں دیکھیں جن میں حالت زار میں بہتری کے مطالبات کیے گئے۔

لندن سکول آف اکنامکس میں انڈسٹریل تعلقات کے پروفیسر رچرڈ ہمین نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران کئی یوننز متحرک ہوئیں اور انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تاہم چند تاریخ کو بدلنے میں کامیاب ہوئیں۔

پروفیسر ہمین کے مطابق ان یوننز نے کارکنوں کے حقوق کے فروغ کی ہیئت یا شکل و صورت بدل کر رکھ دی یا سماجی اور معاشی اصلاحات کے لیے عظیم تحاریک کا آغاز کیا اور یہاں تک کہ انقلاب کے بیج بوئے۔

یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر بی بی سی نے ان چار ہڑتالوں کو یاد کیا جنھوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔

ہے مارکیٹ بغاوت 1886

شکاگو میں احتجاج تصویر کے کاپی رائٹ WIKIMEDIA

1886 میں شکاگو کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی بغاوت کو یاد کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدور منانے کا آغاز ہوا تھا۔

مزدوروں کی یونین امریکن فیڈریشن آف لیبر نے روزانہ کام کرنے کے دورانیے کو آٹھ گھنٹے کرنے کے مطالبے پر یکم مئی کو احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ایک نئے قانون کے تحت وفاقی دفاتر کے ملازمین اور پبلک ورکرز کو روزانہ آٹھ گھنٹے کرنے کا حق دیا گیا تھا تاہم صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔

اس احتجاج میں ملک بھر سے ساڑھے تین لاکھ مزدور متحرک ہوئے لیکن احتجاج کا مرکز شکاگو تھا جہاں مزدوروں سے روزانہ 14 گھنٹے تک کام لیا جاتا تھا۔

مالکان اور مزدوروں کے درمیان کشدگی 4 مئی کو اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب 20 ہزار کے قریب مزدوروں نے ہے مارکیٹ میں احتجاج کا اعلان کیا۔ اس احتجاج میں سیموئل فیلڈین کی تقریر کے دوران ایک نامعلوم شخص نے پولیس پر بم پھینکا جس کے نتیجے میں ایک اہلکار ہلاک اور 60 زخمی ہو گئے۔

اس کے ساتھ ہی وہاں افراتفری پھیل گئی اور انتظامیہ نے ہجوم پر فائرنگ کا حکم دے دیا جس کے نتیجے میں 38 کارکن مارے گئے اور دیگر سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد متنازع عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں ٹریڈ یوننز کے کئی رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی۔

اس واقعے میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کو اس وقت سے’شکاگو میں جان نثار کرنے والے’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس واقعے کی وجہ سے دنیا بھر میں مزدور یوننز کو اپنے قدم جمانے میں مدد ملی۔

تاہم پروفیسر رچرڈ ہمین کے مطابق 1970 اور 1980 کی دہائی میں یوننز کا جو اثر و رسوخ تھا وہ 1990 کی رہائی میں صنعتی شعبے میں اصلاحات اور کفایت شعاری کی مہم کی وجہ سے کمزور پڑتی گئی اور بہت سارے ممالک میں ہڑتالیں غیر مقبول اور یوننز کی خود اعتمادی ختم ہو گئی۔

تاہم پروفیسر ہمین کے مطابق ان یوننز کی اب بظاہر پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔

‘ کام کی جگہ پر دنیا کو نئے چینلجز کا سامنا ہے جس میں مثال کے طور پر نوکریوں میں عدم استحکام، غلامی، تو اس صورتحال میں یوننز کو لازمی جائزہ لینا ہو گا کہ کس طرح سے وہ خود کو منظم کر سکتی ہیں اور ان وقتوں میں کس طریقے سے احتجاج کے راستے اپنا سکتی ہیں۔

سویت یونین تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images

جنوری 1905 میں کھیتوں میں کام کرنے والے مزارے اور کارکن روسی مڈل کلاس کے بادشاہ طاس نیکلولس دوئم کے خلاف احتجاج میں شامل ہو گئے اور ان کا مطالبہ تھا بہتر حالت زار۔

دیہی علاقوں میں زمینوں پر قبضے ہونے کے بعد کسانوں کی یوننز وجود میں آنا شروع ہو گئیں۔ یہ تحاریک پرتشدد رخ اختیار کر گئیں اور 22 جنوری کو سینٹ پیٹرزبرگ میں طاس کے سفید محل کی جانب جانے والے پرامن احتجاجی مظاہرے کے شرکا کو شاہی محافظوں نے روکا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ہنگامے میں ہزاروں افراد مارے گئے۔

مورخ ہلاکتوں کی تعداد پر اتفاق نہیں کرتے لیکن اس کو ‘خونی سنڈے’ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

اس کے بعد پوری سلطنت میں لاکھوں کارکنوں نے کونسلز تشکیل دیں جنھیں سویت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کونسلز کے مطالبات میں زمینوں کے حقوق، کام کرنے کا یومیہ دورانیہ آٹھ گھنٹے اور بہترحالت زار۔

ان میں دیگر آزادی رائے، سیاسی جماعتوں کے قیام کا حق اور عوام کی منتخب کردہ پارلیمان جیسے مطالبات شامل ہو گئے۔ اس وقت سب سے متحرک گروپ بالشویک پارٹی کی سربراہی ولادیمیر لینن کر رہے تھے۔

احتجاجی تحریک کے نتیجے میں تاس نے پارلیمان کے قیام کی اجازت دے دی لیکن دو برس بعد ہی اسے تحلیل کر دیا اور اس فیصلے کو 1917 میں آنے والے انقلاب کے بیج بونے کے طور پر دیکھا گیا۔

پولینڈ میں لیخ والینسا اور یکجہتی تحریک: 1980

لیخ والینسا تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images

ایک اور ہڑتال جس نے دنیا کو بدل کر رکھا دیا پولینڈ کے شہرگدانسک میں کی گئی۔

1980 کو 14 اگست کے دن 17 ہزار کارکنوں نے خوراک اور دیگر اشیا کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاجاً لینن شپ یارڈ پر قبضہ کر لیا۔

ان کارکنوں کے رہنما لیخ والینسا خفیہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بچتے ہوئے شپ یارڈ پر قبضہ کرنے والے کارکنوں کے ساتھ جا ملنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس واقعے پر علاقے میں 20 کے قریب فیکٹریو ں کے مزدور اظہار یکجہتی کے طور پر ہڑتال میں شامل ہو گئے۔

تقریباً دو ہفتے کے بعد پولینڈ کی کیمونسٹ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد لیخ والینسا شپ یارڈ میں موجود مزدوروں کے سامنے ظاہر ہوئے اور ایک تاریخی پیغام دیا۔’ ہماری پاس ایک خودمختار یونین ہے جو اپنے انتظامیہ امور خود چلائے گی اور ہمیں ہڑتال کرنے کا حق حاصل ہے۔’

لیخ والینسا اور اس وقت کے نائب وزیراعظم نے مزدوروں کے بڑے مطالبات پورے کرنے کے حوالے سے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے۔ یہ پہلا موقع تھا کسی کیمونسٹ حکومت نے مزدوروں کی بین الاقوامی تنظیم کے کنونشن کے تحت مزدوروں کو ہڑتال کرنے کی آزادی دی۔

لیخ والینسا نے حال میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا:’میں نے اپنا کام کیا، میں کیمونزم کے خلاف لڑا اور آج جمہوریت رائج ہے۔’

4برازیل: لولا اورمیٹرولوجسٹ یا دھات صاف کرنے والا (1970)

لولا تصویر کے کاپی رائٹ Reuters

برازیل میں 1970 میں لاطینی امریکہ کی سب سے بڑی معیشت کے صنعتی کارکنوں نے اجرت میں اضافے کے لیے متعدد ہڑتالوں کا انعقاد کیا۔

برازیل میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک بھر میں مزدوروں نے ایک بڑے پیمانے پر خود کو منظم کرتے ہوئے اس وقت کے فوجی حکومت کو چیلنج کیا۔

احتجاجی مزدوروں نے دعویٰ کیا کہ حکومت مہنگائی کی شرح کو دھوکے دہی سے کم ظاہر کر رہی ہے اور اس کے ساتھ اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔

1979 میں برازیل میں صنعتی گڑھ ساؤ پالو میں دھاتیں صاف کرنے والے ایک لاکھ 70 ہزار مزدوروں نے ہڑتال کر کے شہر کو مفلوج کر دیا۔

اس دوران مسلح سکیورٹی اہلکاروں اور مزدوروں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں اور بلآخر فوجی حکومت نے سہ ماہی بنیادوں پر اجرتوں پر نظرثانی کا مطالبہ مان لیا۔

ان مزدوروں کی یونین کی قیادت لولا دا سلوا کر رہے تھے اور انھوں نے ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی جو آج ملک کی مرکزی سیاسی جماعت ہے۔

لولا دا سلوا انتخابات میں متعدد ناکامیوں کے بعد 2003 سے 2010 تک برازیل کے صدر منتخب ہوئے۔

ان کے دور اقتدار میں کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں ملک میں شرح غربت میں کمی ہوئی اور وہ دنیا کے سب سے قابل احترام رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔

اس کے علاوہ انھوں نے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان توازن قائم کرنے کے حوالے سے جدوجہد کی۔