ذہن پھسلے تو کیا کیجیے

معصوم رضوی

ذہن پھسلے تو کیا کیجیے

از، معصوم رضوی

زبان پھسل جائے تو مداوا ممکن مگر ذھن پھسل جائے تو بھلا غریق ذلت ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ صاحب، صاحبہ، جرمنی، جاپان، بھائی قوم تو کب کی پھسل چکی جب وزیر اعظم رپٹ جائیں تو اسے یوٹرن کہا جاتا ہے۔ سیاست کا احوال یہ ہے کہ ہر جماعت کا قائد اعلیٰ بشریت سے ماورا روحانی درجے پر فائز ہے، دن کو رات کہے تو بھی پوری قیادت اور کارکنان سورج کی چکاچوند میں بھی گھپ اندھیرے تلاش کر لیتے ہیں۔  

عالم یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسیات، مذھبیات، عسکریات، تعلیم و صحت، سب تجارت ہے، مگر پھر بھی معیشت بے حال ہے۔ ہر ادارہ دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کے دھن میں ایسا بگٹٹ دوڑ رہا ہے جانو پیچھے دیکھا تو پتھر کا ہو جائیگا۔ سیاست سے زیادہ منافع بخش کوئی کاروبار پاکستان میں ہو تو بتائیے، زندگی کے کسی شعبے میں نااہلوں کی اتنی قدر نہیں جتنی اس میدان میں ہے، کرپشن کی ہوشربا داستانیں، جانے کتنی مثالیں سامنے ہیں جہاں بندہ دیکھتے ہی دیکھتے دولت کے پہاڑ کا مالک بن جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاست کسی عام شہری کے بس کی بات نہیں، ووٹ دینے اور لینے والوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مذھبی سیاست میں تو ایک ٹکٹ میں دو مزے والا معاملہ ہے، سیاستداں کو تو گالیاں بھی دی جا سکتی ہیں، کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے مگر کس کی مجال ہے کہ سیاسی مذھبی رہنما پر انگلی اٹھائی جا سکے۔ لات و منات توڑنے والا کوئی نہیں، ہر اٹھنے والی انگلی، منہ سے نکلنے والا جملہ توہین، اور توہین کی سزا موت ہے۔ عسکریات پر تو بات بھی نہیں کی جا سکتی ورنہ قومی سلامتی دائوں پر لگ جائیگی، تو حضور مجھے معاف ہی رکھیں، آپ بھی خوب جانتے ہیں۔

کراچی میں ننھی نشوہ غلط انجکشن لگانے کے باعث ہفتہ بھر مفلوج رہ کر زندگی کی بازی ہار گئی، مگر کیا یہ پہلی موت ہے، شاید نہیں مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عوام اسپتال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ویسے تو صحت نعمت خداوندی ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت مہنگی پڑتی ہے، بیماری کی صورت میں کسی اسپتال جانا پڑے تو صحت کی اصل قدروقیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کس طرح مریض کی کھال کھینچی جاتی ہے، کس طرح اسپتال والے ایک ایک لمحے اہلخانہ کا خون چوستے ہیں، او پی ڈی جانا پڑے تو ہزاروں اگر خدانخواستہ مریض داخل ہو تو لاکھوں کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اسپتالوں میں مسیحائی ہی نہیں، انسانیت بھی برائے فروخت ہے، لاکھوں اور اربوں کمانے کی ہوس میں اسپتال مالکان سستے ڈاکٹرز، عملہ اور مہنگی ترین دوائیں اور سہولیات ہوش ٹھکانے لگا دیتی ہیں۔ یہ تو صرف نجی اسپتالوں کا ذکر ہے، عوام کی اکثریت سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتی ہے، جہاں نہ مسیحا دستیاب ہیں نہ دوائیں، جانے کتنے مریض دولت کی ہوس اور نااہلی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگر آواز اٹھائی جائے تو ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تنظیمیں لالچی مالکان اور نااہل کارکنان کو بچانے کیلئے صف آرا ہو جاتی ہیں۔

کچھ یہی معاملہ تعلیم کا ہے، ہوشربا فیسیں، فنڈز اور فرمائشوں نے والدین کی زندگی اجیرن بنا ڈالی ہے۔ بھاری فیسیں لینے والے اسکول مالکان نہایت سستے ٹیچرز کیساتھ تعلیم بیچ رہے ہیں جنکو عدالت کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اگر کبھی کوئی آواز اٹھے تو انواع و اقسام کی پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشنز ہر قانون کو ماننے سے انکار کر دیتی ہیں۔ سرکاری اسکول نہ ہونے کے برابر تو بھلا والدین کریں بھی تو کیا کریں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم یعنی عوام جا بجا مافیاز کے ہاتھوں یرغمال ہیں، عوام کیلئے حکومت نام کی کوئی چیز شاید کبھی رہی ہی نہیں، سرکار کا تعلق صحت و تعلیم سے صرف اتنا ہی ہے کہ وزارتیں قائم ہیں، اب چونکہ یہ صوبائی معاملہ بن چکا ہے، لہذا وفاق صوبے پر اور صوبہ وفاق پر ڈالکر جان چھڑا لیتا ہے۔ قصور کی زینب اور اے پی ایس میں قتل عام سے ہم نے کوئی سبق حاصل نہ کیا تو بھلا نشویٰ کی موت سے کیا فرق پڑیگا، چند روز بعد یہ اور اس جیسے اسپتال پھر موت بانٹ رہے ہونگے، مہنگے تعلیمی ادارے سستی تعلیم بیچ کر قوم کا مستقبل خراب کر رہے ہونگے۔ میڈیا بھول بھال کر نئے اسکینڈلز فروخت کر رہا ہوگا، یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہیگا، ہمارے ذھنوں کو ایسی ڈھلان پر ڈال دیا گیا ہے کہ ہم خاموشی سے پھسلے چلے جا رہے ہیں۔

پتہ نہیں کبھی آپ نے مداری کا تماشہ دیکھا ہے کہ نہیں، پہلے گلی، محلے، چوک اور بازاروں میں مداری ہوا کرتے تھے۔ بچہ جمہورا سے سوال و جواب کرتے ہوئے، بچہ جمہورا جو پوچھے گا بتلائے گا؟ ارد گرد مجمع ہوتا تھا، مداریوں کی خاص بات ان کا اعتماد ہوا کرتا تھا، کڑک آواز میں ایسا ماحول بناتے کہ جو کہتے مجمعے کو وہی نظر آنے لگتا، ایک بچہ، ایک بندر اور کبھی کبھار ایک بکری ساتھ ہوتی، تماشہ ایسا کہ سحر زدہ عوام اپنی جیبیں الٹ دیتے، پھر کھیل ختم اور پیسہ ہٖضم، مداری اپنے گھر اور تماشبین اپنے گھر لوٹ جاتے ہیں۔ یہی کچھ ہماری داستان ہے، پہلے تو باری باری جمہوریت اور آمریت اقتدار کے مزے لوٹتی تھیں، کبھی کوئی آواز نہیں اٹھی کہ باریاں لگا رکھی ہیں، جب سے براہ راست آمریت کے ناک میں نکیل ڈالی گئی ہے دو جماعتی مروڑ شروع ہو گیا۔

یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی نااہلی، اقربا پروری اور بدعنوانی نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا اور مگر یہ بھی سچ ہے کہ آمریت نے بھی دل کھول کر عوام کا خون چوسا، بہرحال اس سے پہلے دو جماعتوں کی باریوں کا نعرہ سامنے نہ آیا۔ اب کرپشن، لوٹ مار کے نعرے گونج رہے ہیں، سابق وزیر اعظم نواز شریف کبھی جیل تو کبھی جاتی امرا میں پائے جاتے ہیں، زرداری صاحب بمشکل تمام باہر ہیں، کچھ پتہ نہیں کب جیالا اڈیالا پہنچ جائے۔ سابق حکومتوں کے کئی وزرا اور موجودہ حکومت کے چند کٹہروں میں ہیں۔ نیب کا طوطی نقار خانے سر چڑھ کر بول رہا ہے، عدالتوں کی پیشیاں، ججزز کے ریمارکس، وزرا کے دھواں دھار بیانات، سیاسی رد عمل، ہیڈلائنز، حالات حاضرہ کے سلگتے پروگرام، پیشگوئیاں، جگتیں، سوشل میڈیا، کرپشن تماشہ عروج پر اور سحر زدہ عوام مداریوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہر سو کرپشن کی صدائیں، الزامات کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ، نو ماہ گزر چکے ہیں، اگر کرپشن کا ایک بھی پیسہ واپس آیا ہو تو بتائیں؟ عوام کیلئے قانون سازی کرنیوالا ہر اجلاس ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی کا شکار ہو کر کیوں ختم ہو جاتا ہے؟ پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟ ہر حکومت جانے کے بعد خلائی مخلوق کو رونا کیوں روتی ہے؟

تیسری جماعت مسائل حل کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ کیوں ٹیکس پر پلنے والے ادارے مالدار اور عوام  عالمی مقروض ہیں، کیوں طبقہ اشرافیہ قانون سے ماورا اور شہری قانون کی چکی میں پس رہے ہیں، کیوں، کیوں اور کیوں؟ مسئلہ تو یہی ہے کہ ہم سوال نہیں اٹھاتے، کیوں کا جواب نہیں مانگتے، ظلم و جبر برداشت کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب جب جہاں جہاں عوام نے سوال اٹھایا، استحصالی قوتوں کو شکست ہوئی ہے۔

چلتے چلتے امریکی صدر اور دانشور فرینکلن روزویلٹ کا سنہری مقولہ بھی سنتے جائیں، کہتا ہے سیاست میں کوئی چیز اتفاقیہ نہیں سب منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے، حتیٰ کہ آپ شرط لگا سکتے ہیں یہی طے کیا گیا تھا۔

غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے

اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے