موریشس کا ساحل

موریشس کا ساحل

موریشس کا ساحل

از، آبیناز جان علی (موریشس)

بحرِہند میں ایک نقطے کی مانند جزیرۂ موریشس اپنے خوب صورت ساحلوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ صاف و شفاف پانی اور سفید نرم ریت سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیاح دنیا کے مختلف گوشوں سے طویل مسافت طے کرتے ہیں۔ سمندر کے کنارے سکون ہے۔ انسان خود کو قدرت کے قریب پا کر اپنے دکھ  درد اور تناؤ سے نجات پانے کے احساس سے ہم کنار ہوتا ہے۔ سمندر کی لہریں جب پوری تمازت سے لبِ ساحل سے ٹکراتی ہیں تو دل سے تمام پریشانیوں کے دور ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ قدرت کی اس خوب صورتی کے آگے انسان عاجزی و انکساری کے جذبات سے ہمکنار ہو کر خود سپردگی کے احساس کا استقبال کر کے سکون کی سانس لیتا ہے۔

ہوا جب پھیپھڑوں سے نکلتی ہے تو گویا مَن سے ساری کرواہٹ دور ہو جاتی ہے۔ نمکین ٹھنڈی ہوائیں جب نتھنوں  کے اندر جاتی ہیں تو روح کو تازگی محسوس ہوتی ہے اور ہوا کے جھونکے جب چہرے پر پڑتے ہیں تو آنکھیں بند کر کے بہشت کا تصور کرنا مشکل نہیں۔ موریشس کو جنت ہی تو کہا جاتا ہے۔ مارک ٹوین کے مطابق خدا نے پہلے موریشس بنایا اس کے بعد جنت کی تخلیق کی۔

آنکھیں کھولنے پر دور دور تک گہرے نیلے پانی کے نظارے سے سرور کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔ بیچ میں پانی کا رنگ گہرا نیلا ہو جاتا ہے اور ساحل تک آتے آتے پانی ہلکا نیلا پڑ جاتا ہے۔ مونگے کی چٹان پر موجیں پتھروں سے ٹکراتی ہیں لیکن وہ تیز اور خطر ناک موجیں ساحل تک نہیں آ پاتیں جس سے دل میں اشتیاق کی لہریں ابھرتی اور کمزور پر جاتی ہیں۔ قدرت کے اس نظام کے سامنے عاجز ہو کر ایک آہِ سرد سے دل احساسِ تحفظ کا استقبال کرتا ہے۔

لبِ ساحل پر ہلکی ہلکی سائیں سائیں کرتی ہوئی موجیں کانوں کے لیے بہترین موسیقی ہیں جو ماں کی لوری کی طرح سکون پہنچاتی ہے۔ موجوں کے بہاؤ سے بچنے کے لیے پیر اچھلتے کودتے رقص کرتے ہیں لیکن چنچل موجیں پیروں کو چھونے میں کامیاب ہو ہی جاتی ہیں۔ اس اثنا میں سخت سے سخت دل پگھل جاتا ہے اور کلکاریاں نکل پڑتی ہیں۔

ننگے پیرسفید ریت میں دھنسنے لگتے ہیں۔ ناخنوں کے لیے یہ سب سے بہترین پیڈی کیوڑ ہے۔ پھر موجیں آتی ہیں اور ریت کو پیروں تلے بہا لے جاتی ہیں جیسے اپنے ساتھ مَن سے تمام منفی چیزیں لے جا رہی ہو اور موجیں واپس آتی ہیں تو روح میں مثبت خیالات لاتی ہیں۔ انسان قدرت کے قریب زیادہ اطمینان محسوس کرتا ہے۔ وہ قدرت میں جینے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ یہی پیغام یاد دلانے کے لیے موجیں اس کے پاس آتی ہیں۔

سفید ریت میں جگہ جگہ سوراخ ہیں جو کیکڑوں کے مساکن ہیں۔ یہ چھوٹے سفید اور سرمئی جان دار جلدی جلدی ریت پر بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو پکڑنا بچوں اور بڑوں کے لیے باعثِ مسرت ہے۔ ریت میں بچے گھروندے اور ریت کے محل بنا کر تخیلات کی دنیا میں مقید ہیں۔ اپنا نام ریت پر لکھنے میں الگ لطف ہے۔ پھر موجیں آتی ہیں اور ان انسانی نقوش کو مٹا کے ہیچ کر دیتی ہے۔ شاید یہی یاد دلانے کے لیے کہ دنیا اور دنیا کی ہر چیز آنی جانی ہے۔ قدرت کے اپنے شرائط و ضوابط ہیں جن کے سامنے سرِ خم کرنا ہی پڑتا ہے۔

اتوار کے دن ساحل پر لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ پانی سے زیادہ انسانوں کے سر نمودار ہوتے ہیں۔ پارکنگ ملنے میں بڑی دشواریاں ہوتی ہیں۔ چھٹی کے دن کا لطف اٹھانے کے لیے لوگ پکنک منانے آتے ہیں۔ فلاؤ کے درخت کے نیچے چٹائی اور چادر بچھا کر مع اہل و عیال حسین یادوں کا خزانہ جمع کرتے ہیں۔ گرم بریانی کی خوش بُو نتھنوں کوبے چین کرتی ہے۔ سمندر کے کنارے شکم سیر ہونے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ دور سے آئس کریم والے کی وان کی موسیقی سنائی دیتی ہے جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔


مزید دیکھیے: خوش ہونا منع ہے، یہ پاکستانی معاشرہ


ٹیکنالوجی کے اس دور میں شوسل میڈیا کے لیے سنہری یادوں کو قید کرنے کا یہ اچھا بہانہ ہے۔ ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل یا کیمرہ قربت کے ان لمحات کو پردے پر اتارنے میں محو نظر آتے ہیں۔ موریشس کے ساحل پر ہوٹل جگہ جگہ پر نظر آتے ہیں۔ ان کا شمار دنیا کی بہترین قیام گاہوں میں ہوتا ہے۔ یہاں سیاحوں کا بہترین خیال رکھا جاتا ہے۔ قیام و طعام کا عمدہ انتظام اور خاطرداری سے مستفیض ہو کر سیاح ہشاش بشاش اپنے گھر لوٹتے ہیں۔ سیاحت موریشس کی معیشت کا سب سے اہم ستون ہے۔ سیاحوں کے استقبال اور آرام کے لیے تمام سہولیات مہیا کی گئی ہے۔

غروبِ آفتاب اور طلوعِ آفتاب کے نظارے قلب و ذہن پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ سورج کی لالی جب پانی میں جھلکتی ہے تو تھکے ہوئے دماغ کو راحت ملتی ہے۔ کسی اور چیز کا خیال اس وقت پاس ہی نہیں آتا۔ اس وقت آرام اور سکون نصیب ہوتا ہے۔ اسی سمندری راستے سے ہمارے اجداد کی کشتی برِ صغیر سے نکل کر جب یہاں آئی ہو گی تواس ویران دل کش جزیرے کے دیدار نے ان کے مغموم دل کو حوصلہ دیا ہوگا۔ گھر سے دور گھر آنے کے احساس نے انہیں تسکین ضرور پہنچائی ہوگی۔ یہی احساس آج ہر موریشس کے دل میں بسا ہوا ہے۔ اپنے اَسلاف کے خواب کو ہم عملی جامہ پہنانے میں مُنہمِک ہیں۔ یہ بات ہمارے لیے باعثِ افتخار ہے کہ جزیرۂ موریشس نہایت چھوٹا ہے لیکن نہایت پیارا ہے۔

1 Trackback / Pingback

  1. ایلن، پائیپر اور آسکر — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.