میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں : ساحر لودھی صاحب

میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں : ساحر لودھی صاحب

میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں : ساحر لودھی صاحب

(شیبا اکرم)

خواتین و حضرات، حدِ ادب، اپنی گستاخ آوازوں کو تھوڑی دیر کے لیے خاموشی کے قید خانے میں ڈال دیجیے، سانسوں کو بھی لگام دیجیے کہ دھڑکنوں کا ارتعاش بھی گستاخی سے کسی طور کم نہیں۔ اگر ممکن ہو تو چند لمحے فطرت سے بغاوت کر کے اپنے اندر ہونے والے تغیر کو بھی روک لیجیے یا کم از کم روکنے کی ایسی اداکاری کیجیے کہ ’تغیر‘‘ خود اپنی ’’بے ثباتی‘‘ کا نوحہ لکھنا شروع کر دے اور پتھر بھی آپ کے ’غیر متغیرپتھر پن ‘ کو دیکھ کر موم ہو جائے کیونکہ یہ وہ لازوال لمحہ ہے جب عزت مآب ساحر لودھی صاحب اپنے گستاخانہ رویے پر معذرت کرنے جا رہے ہیں۔ اور اس لمحے وہ کسی قسم کا خلل برداشت نہیں کر سکتے۔

کیوں کہ خدشہ ہے کہ آپ کی اس گستاخی سے ان کی انا کا بت کہیں ان کے ہاتھ سے گر کر پاش پاش نہ ہو جائے اور آپ کے ذہن میں یہ خیال نہ آ جائے کہ ’’جب مکمل ہو گیا بت گر گیا فن کا ر سے‘‘۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس مجاہد عظیم نے ایک گستاخ اور زبان دراز لڑکی کو لگام دی اور خود پرستی کی بے لگامی میں ’بک ’رہے ہیں‘ جنوں میں کیا کیا کچھ‘ ۔ اوراس بد تمیز لڑکی کو اپنے لفظوں کی تلوار سے نڈھال کر کے پور ے ہال میں یوں اپنی فتح کا جشن منا رہے ہیں کہ ’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘۔

براہ کرم اس مفتوح لڑکی کی بے بسی پر نہ جائیے۔ بس اس فاتح کا حوصلہ دیکھیے کہ پہلے اس نے قلعہ فتح کیا اور اب کس بہادری سے مفتوح سے معافی بھی مانگ رہا ہے۔ اگر حضرتِ ساحر نے اپنی مردانہ وجاہت کی آ گ سے اس لڑکی کے شبدوں کو جلا یا تو بعد میں معافی کا سیلاب بھی تو نذرانے میں دیا۔ آپ لوگ حوصلہ دیکھیے ان منصف علما کا جنھوں نے ساحر کے سحر میں آ کران کے خیال پہ ایمان لے کر نہ صرف اقرار بالقلب کیا بلکہ اقرار باللسان بھی اس طرح کیا کہ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ اور حسب توفیق سب نے اس بے ادب لڑکی کو حد ادب میں رہنے کے بھاشن دییے۔ اور اتحاد و یگانگت کی بے مثل مثال تو دیکھیں سب منصفیں نے یک زبان ہو کر اس لڑکی کو للکارا اور اس کی جھکی ہوئی پلکوں کو مزید جھکاتے رہے تا کہ اس کے لیے تاب بھی لائے نہ بنے۔

بھول جائیے لطیفے کے اس اداکار کو جسے غم سے نڈھال دیکھ کے ڈھارس بندھانے والے نے کہا کہ آپ کی بیوی کے جنازے پر آپ پہ غم کی جو کیفیت طاری تھی وہ ناقابل بیان ہے اور جواب میں اس ’بھولے‘ اداکار نے کہا ،’’حضر ت، وہ تو کچھ بھی نھیں تھا، کاش آپ قبر پہ میری اداکاری دیکھتے۔‘‘لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ ساحر نے نہ صرف اس بدتمیز لڑکی کو سبق سکھانے کے لیے بے مثل اداکاری کی بلکہ اس کے بعد معذرت کرتے ہوئے بھی اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ اسے دیکھ کر ہر دور کی ملکہ ء جذبات بھینچ گئی ہو گی۔ وہ عظیم ساحر جو بائیک دینے کے لیے صنف نازک کو دوڑنے اور خود کو پکڑنے کا حکم صادر کرے اور للکار للکار کر کہے کہ آ جاؤ پکڑو۔ ان سے بڑا سخی کون ہو سکتا ہے جو اپنی ٹوٹی ہوئی سانسوں کی پرواہ نہ کرے اور ان لڑکیوں کو باوقار طریقے سے بھگاتا رہے تا کہ ان کی بھاگ دوڑ سے ملک و قوم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ’بھگا ‘کر چل سکے۔ بلکہ دنیا سے بھی آگے نکل جائے۔

اس لڑکی کی ڈھٹائی دیکھیں کہ اس سارے کھیل میں وہ ڈھیٹ بن کر خاموشی کا مظاہرہ کرتی رہی حالاں کہ ایک باریش منصف نے حضرت ساحر لودھی کی تقلید کرتے ہوئے حکم صادر کیا کہ اس لڑکی کو سب کے سامنے معذرت کرنی چاہیے کہ اس نے ساحر بھائی کا دل دکھایا اور بین السطور وہ ساحر لودھی کو ٹرائے سے بڑا فاتح قرار دے رہے تھے جن کی عظمت نے اس طالبہ کی تقریر، پوری تقریر سننے سے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ وہ قائد کے بارے میں کوئی گستاخی کرنے جا رہی ہے اور اس سے پہلے کہ وہ ایسی گھناؤنی حرکت کرتی اور قائد کو للکارتی، ساحر نے اس کے وار کرنے سے پہلے ہی وار کر دیا اور ’وار اس قدر شدید کہ ساحر ہی کر سکے‘لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ پسپا نہ ہوئی اور آخر تک کہتی رہی کہ میری پوری نظم سن لی جائے پھر فیصلہ صادر کیا جائے۔

اے گستاخ لڑکی، تمہاری اتنی ہمت، ایسی دیدہ دلیری کہ ساحر سے وقت مانگ رہی ہو ۔ فیصلہ کرنے والے جب موقف سننے سے پہلے سزا دینے دینا شروع کر دیں تو پوری قوم کو ایسی عظیم المرتبت ہستیوں پہ فخر ہونا چاہیے کہ وہ اتنے دور اندیش ہیں کہ ’اندیشے‘ کو پہلے ہی بھانپ لیتے ہیں اور اسے ہمیشہ کے لیے کچل دیتے ہیں۔ کیوں سنے وہ تمہاری نظم؟حضرت ساحر نے اپنے بھاشن کے دوران کہا کہ اگر وہ کھل کے بات کرے تو کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں ۔ظاہر ہے ان کو بے پردہ کرنے سے حضرت کی اپنی آبرو بے آبرو ہو سکتی تھی تو وہ کیوں نام لے ان کا، لیکن تم آخر کیا بگاڑ سکتی ہو تھی ،تو پھر تمہیں کیوں نہ للکارتا ہمارا یہ مجاہد۔

اکثر ہاتھ میں لی ہوئی چائے کی پیالی میں طوفان کیوں نہ برپا کرتے یہ ذی وقار۔ آزادی اظہار کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ موصوف نے میوزک کو بھی للکار ڈالا کہ ان کے اظہار کے سامنے وہ کیوں خلل ڈالے۔ تو آؤ سارے مل کے ہم اس بیٹی کو بھی ساحر لودھی جیسے ظرف کا مظاہرے کرتے ہوئے اسے خود اس جگہ بٹھا آئیں جہاں سے وہ آئی تھی ۔لیکن جانے کیوں لگتا ہے کہ اس لڑکی نے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے چپ بیٹھے سب پتھروں سے ایک آخری التجا ضرور کی ہو گی کہ میرا مسکراتا ہوا چہرہ میری شکست نہیں ہر اس انسان کی شکست ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے چپ چاپ۔ یقیناًاس لڑکی کو ایک بار خیال آیا ہو گا کہ میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں۔
ساحر لودھی اور اس کے سب ہم نواؤں کو جیت مبارک۔