علامت کیا ہے

علامت کیا ہے 
Base illustration via Exit.al

علامت کیا ہے 

علامت ایک ایسا تخلیقی آلہ یعنی tool ہے شعر و نثر کی دنیا میں جسے رد کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ کیوں کہ یہ زمان و مکان کے دائرے میں وقوع پذیر  وارداتوں کو ایسے الفاظ کا پیراہن اوڑھاتی ہے جو معنویت کے بدن کو نئی سج دھج اور زینت بخشتی ہے کہ اس کے مقام و مرتبے میں وہ بلندی نظر آتی ہے جو بَہ راہِ راست اس کے معنی میں ہر گز نہیں پائی جاتی۔

اس سے پہلے کہ ہم علامتی افسانہ نگاری کے پیچیدہ رستوں پر خیال کے گھوڑے اندھا دھند دوڑائیں ہمیں اس مشکل ترین عُقدے کو حل کرنا ہو گا کہ علامت کیا ہے؟

علامت یعنی symbol یونانی لفظ symbaline سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں، چیزوں کو ایک ساتھ رکھنا؛ بَہ الفاظِ دیگر ایک شے کے بَہ جائے دوسری شے کا استعمال ہے۔

یہ تعریف علامت کی ہئیت، استعمال اور اس کی ذات، یعنی حقیقت کو سُجھانے سے قطعی طور پر قاصر ہے۔ ہمیں علامت کی جہات اور اس کے وسیع و عریض جہان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم علامت کو اُن فکری حوالوں کے ذریعے سے  سمجھنے کی کوشش کریں جو ناقدینِ ادب نے اس کے اوصافِ کثیر کے باعث مختلف تعریفوں اور توضیحات کی صورت میں پیش کیے ہیں۔

بِلا شبہ تفہیم کے اعتبار سے بَہ ذاتِ خود یہ تعریفیں اس قدر مُبہم اور پیچیدہ ہیں کہ ان کی توضیح کے لیے الگ باب درکار ہے، مگر اس کے با وُجُود ان کی روشنی میں ایک مجموعی اور مشترک نتیجہ بر آمد کرتے ہوئے ابتدائی سطح پر علامت کو اس حد تک ضرور سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمیں یہ تمثیل، استعارے یا کنایے سے الگ پورے قد کے ساتھ اپنی جدا گانہ حیثیت منواتی نظر آتی ہے۔

علامت کی تعریف پیش کرتے ہوئے کولرج کہتے ہیں:

علامت سے میری مراد استعارہ، یا تمثیل، یا کوئی اور صنعتِ بیان یا محض واہمے کی صورت نہیں، بَل کہ جس کُل کی وہ (علامت) نمائندگی کرتی ہے اسی کا ایک اصلی اور لازمی جُزو ہے۔

ناقد(Elder Olson) کے نزدیک:

علامت نگاری سے مراد ایک ایسی ترکیب ہے جو بسا اوقات لکھنے والا اس تاثر کے لیے استعمال کرتا ہے جو ایک قاری کسی فن پارے کی مجموعی حیثیت سے قبول کرتا ہے۔ یہ ترکیب دور افتادہ خیالات کے اظہار میں بھی مدد کرتی ہے پُھس پُھسی یا بے جان چیزوں میں روح پھونکنے اور قاری کے جذباتی رد عمل کے تعین میں بھی یہ

ترکیب مفید ہوتی ہے۔

نارتھ روپ فرائی نے Anatomy of Criticism میں علامت کی تعریف ان الفاظ میں کی:

 Any unit of any work of literature which can be isolated for critical attention. In general usage restricted to the smaller units such as words ‘phrases’ images, etc.

وائٹ ہیڈ کے مطابق:

لفظ شے کی علامت بنتا ہے اور علامتی حوالوں کے سہارے کسی شے کی ترجمانی کرنے کی واضح ضرورت پوری کرنے کے لیے زبان کا استعمال ہوتا ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ عرفی شیرازی بھی ہر لفظ کے فی نفسہٖ علامت ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

تحقیق آنست کہ لفظ علامت است مقصود بالذات

یعنی ہر لفظ اپنی ذات کے عرفان کی طلب کے حوالے سے ایک علامت ہے۔ لفظ کو علامت کے طور پر اگر متصور کر لیا جائے تو ہمیں زبان و کلام کا کوئی گوشہ علامت سے خالی نظر نہیں آئے گا۔ ایک مسلسل علامتی نظام حرف و لفظ کے گورکھ دھندے میں بَہ تدریج ہر سُو بَل کھاتا نظر آئے گا۔

یہاں  یہ معنی مجھے سوزین لینگر (Susane Langer) کے خیالات کی تفسیر لگتے ہیں جن کے مطابق وہ ساری گفتگو کو علامت قرار دیتی ہیں۔

بَہ قول سوزین لینگر:

گفتگو در اصل انسانی ذہن کے اس بنیادی عمل کی سب سے آسان اور فعال منزل ہے جس کو ہم تجربےکی علامت میں ڈھل جانے کا نام دیتے ہیں۔

اس سے کچھ ملتا جلتا پروفیسر A.D.Ritch کا خیال ہے:

فکر کی ہر سطح پر ذہنی زندگی ایک علامتی عمل ہے۔ فکر کا بنیادی کام ہی علامت سازی ہے۔

 ڈاکٹر انیس ناگی لکھتے ہیں:

علامت سے مراد وہ بیان ہے جس کے ذریعہ جو کہا جائے اس سے کچھ  زیادہ اور کچھ الگ معنی مراد لیے جائیں۔ علامت ہمارے ذہن کو معانی کی کئی جہتوں کی طرف منتقل کرتی ہے اور اس کی خوبی یہی ہے کہ یہ ان میں سے ہر جہت کے لیے موزوں قرار پائے۔ علامتی اظہار بَہ جائے خود بیانِ واقع ہوتا ہے لیکن اس بیانِ واقع کے ظاہری مفہوم سے ذہن اس مفہوم کے مماثل کسی اور مفہوم کی طرف بھی منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ بیانِ واقع کسی شے کا بھی ہو سکتا ہے، کسی وقوعے کا بھی اور کسی صورتِ حال کا بھی۔

مشہور ناقد (Littre)کے مطابق:

علامت ایجاد نہیں کی جا سکتی یہ تو لا شعور کا  حصہ ہے یا hibernate ہوتا رہتا ہے۔

ہیگل اور برگساں کے نزدیک:

علامت ایک امتزاجی اتحاد (synthetic harmony) ہے اور ایک ایسا تصور جو وجدان سے مشابِہ ہے۔ 

بیلانش (Ballanche) نے ایک دم اس کے قد کو بلند کرتے ہوئے اسے دائمی مفہوم کا لبادہ پہنا دیا وہ کہتے ہیں:

علامت کا مخاطب انسان نہیں بلکہ یہ تو روح کا روح سے اتصال ہے۔

انسان سے مراد یہاں مادہ یا فانی جسم ہے۔ اور روح جسے موت نہیں آتی بقا کا اشارہ ہے۔

یعنی ان کے نزدیک علامت تخیل کی حیات ہے، لفظ جس میں بقا کا آبِ حیات پی کر سدا زندہ رہیں گے وہ علامت کو ایسا جادہ قرار دے رہے ہیں۔ روح کے تناظر  میں علامت کا دائرہ آفاقی ہوتا چلا جاتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں بیلانش کا شاید یہ خیال ہے کہ اگر لا زوال ادب کی تخلیق مقصود ہے تو اسے علامت کے ذریعے زندہ رکھنا ہو گا۔ جیسا کہ ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں:

اصل ادب تو علامتی ادب ہی ہوتا ہے۔ تخیل کے کورے جسم میں علامت وہ پھونک ہے جو زندگی کی رمق بن کر جسم کی کالی کوٹھڑی کو اجالا بخشتی ہے۔

بَہ قول شخصے:

ادبی علامت خواہ کوئی تصنیف ہو یا اس کا ایک حصہ واضح تجسیم ہے جس طرح روح یا قُوتِ حیات ہمارے جسم کے اندر رہتی اور باہر جھلکتی ہے اسی طرح خیال اور احساس اس ہئیت، شکل یا جام میں رہتے ہیں جسے ہم علامت کہتے ہیں۔

علامت کی مندرجہ بالا تمام تعریفوں کی روشنی میں جو مشترک نتیجہ بر آمد ہوتا ہے وہ یہ کہ:

علامت نمائندگی کا ایک طریقہ ہے۔ یہ کسی شے کی متبادل ہوتی ہے، اور کسی دوسری شے کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس میں جو کچھ (کسی تلازمے کے ساتھ)

ظاہر کیا جاتا ہے اس سے کچھ دوسرے اور منتخب معانی مراد لیے جاتے ہیں۔ یہ غیر مرئی شے کا مرئی نشان ہوتی ہے اور جس کُل کی نمائندگی کرتی ہے اس کا اصلی اور لازمی جُز ہوتی ہے۔ اس میں جذبات و خیالات کا بَہ راہِ راست ذکر نہیں ہوتا، بَل کہ ان کے تصورات کی نقش گری بالواسطہ عوامل و عناصر کے ذریعے کی جاتی ہے۔

جیسا کہ سوزین لینگر نے کہا:

ہر ذہن میں علامتی کا ایک بڑا ذخیرہ ہوتا ہے جس کے استعمال مختلف ہوتے ہیں۔

جہاں تک میرا خیال ہے الفاظ کے استعمال کا تعلق بَہ راہِ راست ذہن کی تیزی اور فکر کی اپروچ سے ہوتا ہے۔ فکر کی پختگی اور ادراک لفظ کو بدل، یا نیا لبادہ دیتا ہے۔ یہ منفرد لبادہ ہی علامت ہے جو بعض اوقات پیچیدہ اور مبہم صورت کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ جب یہ لبادے بہ راہِ راست کسی معنی سے تعلق رکھتے ہیں تو اکہری علامت یعنی واحد مفہوم ، واقعے یا اندرونی و خارجی  کیفیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ یہاں یہ نشان سے کافی حد تک مماثلت رکھتے ہیں اور اسی مماثلت کے باعث علامت کو sign سمجھنے کی غلطی کا امکاں پیدا ہوتا ہے۔

واضح ہو کہ نشان یا Sign مخصوص واقعے یا ثقافت کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس سے چھوٹے سے بڑے دائرے تک یکساں معنی کشید کیے جاتے ہیں۔ جیسے کسی ملک کا جھنڈا جو کہیں بھی لہرایا جائے فوراً اس ملک کا نام ذہن میں آئے گا۔ اسی طرح صلیب کا نشان، عیسائیت کا نشان ہے۔

 لفظ اگر پرتوں کے ساتھ تہہ دار استعمال کے ساتھ اجاگر ہو تو علامت کا اظہاریہ اپنی حدوں کو پھیلا لے گا۔ اسی نکتے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ علامت کی اقسام کا جائزہ لیا جائے۔

ایچ فلینڈرز ڈنبر(H.Flanders Dunbar) نے مندرجہ ذیل تین قسمیں مقرر کیں:

1۔ خارجی یا من مانی (Extrinsic or Arbitrary)

2۔داخلی یا توصیفی (Intrinsic or Descriptive)

3۔بصیرتی یا کشفی (Insight Symbols)

خارجی علامتیں محض دُم چھلے ہوتی ہیں۔ داخلی علامتیں کسی نہ کسی طرح نفسِ شے سے تعلق رکھتی ہیں۔ فنونِ لطیفہ اور مذہب کی علامتوں میں یہی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ جب کہ بصیرتی علامتیں گہرائی کی حامل ہوتی ہیں۔

بصیرتی علامتیں اس لیے بھی اہم ہیں کہ یہ عقلی تصور کے ذریعے معلوم تک رسائی ہی حاصل نہیں کرتیں، بَل کہ مثالی اور روحانی دنیا کے تصور سے ما وراء حقیقتوں

کے دروازے کھول کر متن کو کثیر الجہت بنا دیتی ہیں۔

علامت پر اتنا کہا نا کافی ہے کہ یہ بہت وسیع موضوع ہے، امید ہے اس موضوع پر مزید گفتگو ہوتی رہے گی۔

از، سیدہ آیت گیلانی