کیا ہم جنس پرستی کی ذہنیت موروثی ہے؟

کیا ہم جنس پرستی کی ذہنیت موروثی ہے؟

کیا ہم جنس پرستی کی ذہنیت موروثی ہے؟

از، محمد رضی الاسلام ندوی

موجودہ دورمیں جن منحرف جنسی رویّوں کو عالمی سطح پر شہرت ملی ہے، بلکہ ایک گہری سازش کے تحت ان کو ہوادی گئی ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے ان کے حق میں فضا ہموار کرنے اور قانونی طور پر ان کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ان میں سے ایک گھناؤنا اور قابلِ نفرت رویّہ وہ ہے، جسے Homosexuality کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اصلاً دو الفاظ سے مرکب ہے۔ Homo قدیم یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں Same (یکساں)، جب کہ لفظ Sexus کا تعلق لاطینی زبان سے ہے، جس کے معنی ہیں جنسی خواہش پوری کرنا۔ Homosexuality کا مطلب ہے کسی شخص کا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنی ہی صنف کے کسی فرد کی طرف جنسی میلان رکھنا اور اس کے ذریعے اپنی شہوانی خواہش کی تکمیل کرنا۔ اسے اردو میں ہم جنسیت ،ہم جنسی یا ہم جنس پرستی کہا جاتا ہے۔

فطرت نے تمام جان دار مخلوقات کو زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ودیعت فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ ابتدائے آفرینش سے اسی متعین فطری طریقے پر عمل پیرا ہیں اور انھوں نے اس سے سرِمو انحراف نہیں کیا ہے۔ لیکن نوع انسانی کو چوں کہ شروع ہی سے ارادہ و اختیار کی آزادی حاصل ہے،اس لیے اس کے بعض افراد نے بسا اوقات زندگی کے رویّوں میں راہِ فطرت سے انحراف کی روش اپنائی ہے۔ یہ انحراف زندگی کے دیگر معاملات کے ساتھ قضائے شہوت کے معاملے میں بھی رہا ہے۔ تاریخِ انسانی کے بعض ادوار میں ایسے افراد پائے گئے ہیں جو اپنی ہی صنف کے افراد سے جنسی خواہش پوری کرتے تھے، لیکن ایسے افراد کوہر دور میں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا گیا اور ان کے عمل کو انتہائی مبغوض قرار دیا گیا، بلکہ اسے ذوقِ لطیف ہی پر بار تصور کیا گیا اور ہر ممکن طریقے سے اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی ہے۔ چنانچہ انیسویں صدی عیسوی تک دنیا کے تقریباً تمام ہی ملکوں میں اس عمل کو قابلِ تعزیر جرم سمجھا جاتا تھا، بلکہ بعض ملکوں میں اس کی سزا موت تھی۔

مغرب میں، وہاں کے مخصوص پس منظر میں، جب نام نہاد آزادی، مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کی ہوا چلی تو اس کا اثر بہت سی سماجی قدروں پر پڑا اور ان کی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں۔ کہا گیا کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے، وہ اپنی مرضی کا مالک ہے، اس کے فکر اور عمل پر کسی طرح کی پابندی عائد کرنا اس کے حقِ آزادی کو پامال کرنا ہے اور اس کے کسی عمل کی بنیاد پر اس کے ساتھ دوسرے انسانوں سے مختلف معاملہ کرنا حقِ مساوات سے مغایر ہے۔ ہم جنس پرستی کو مغرب میں ایک عمل کے بجائے ایک رویّہ (Behaviour) قرار دیا گیا ہے اور اس کے لیے فلسفیانہ بنیادیں فراہم کی گئی ہیں۔
ہم جنسیت میں مبتلا افراد (Homosexuals) کے چار گروپ بنائے گئے ہیں:

1۔ Lesbian : عورت، جو عورت کی طرف جنسی میلان رکھے۔
2۔ Gay : مرد، جس کا مرد کی طرف جنسی میلان ہو۔
3۔ Bisexual : وہ فرد (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) جس کا مرد اور عورت دونوں کی طرف میلان ہو۔ کس صنف کی طرف کتنا میلان ہے؟ اس کو ناپنے کے لیے ایک پیمانہ وضع کیا گیا، جس کو اس کے موجد کے نام پر Kinsey Scale کا نام دیا گیا۔
4۔ Transgender : وہ شخص، جس میں مردانہ اور زنانہ، دونوں طرح کی خصوصیات ہوں۔ اسے مخنّث یا ہجڑا کہا جاتا ہے۔

ان چاروں گروپس کے مجموعے کو بہ طور مخفّف LGBT کہا جاتا ہے۔ ان میں شامل تمام افراد کو ایک جماعت (Community) قرار دیا گیا اور ان کے منحرف جنسی میلانات کو فطری قرار دیتے ہوئے ان کے حق میں تحریکیں چلائی گئیں اور قوانین وضع کیے گئے۔
ہم جنسیت کو عوام میں بھی گندہ اور گھناؤنا عمل سمجھا جاتا تھا اور ملکوں کے قوانین میں بھی اس پر سخت سزائیں مقرر کی گئی تھیں، اس لیے جو افراد اپنے منحرف رویّوں کی وجہ سے اس میں مبتلا تھے، وہ اس کے اظہار کی ہمّت نہ کرپاتے تھے، لیکن انیسویں صدی عیسوی کے اواخر سے اس کے حق میں فضا ہموار کی جانے لگی۔

سب سے پہلے مرحلے میں اس عمل کے ارتکاب کو قابلِ سزا جرائم کی فہرست سے نکالا گیا۔ چنانچہ بیسویں صدی عیسوی کے نصف اول میں متعدد مغربی ممالک کے قوانین میں ترمیم کی گئی اور اس عمل پر سزا ساقط کی گئی۔ دوسرے مرحلے میں LGBT گروپس نے عوامی سطح پر خود کو منظم کرنا شروع کیا۔ اس کے لیے انھوں نے متعینہ دنوں میں پبلک مقامات پر مظاہرے کیے، جنھیں Pride Parade کا نام دیا گیا اور کانفرنسیں منعقد کیں، جن کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ پہلے ایسے افراد کو حکومتی، انتظامی اور فوجی مناصب کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا، لیکن ان کی منظم کوشش اور دباؤ کی بنا پر آہستہ آہستہ ان کے حقوق تسلیم کیے جانے لگے اور انھیں ہر منصب کے لیے اہل قرار دیا گیا۔

چنانچہ حکومت، فوج، عدلیہ، مقنّنہ اور انتظامیہ، ہر سیکٹر میں ایسے افراد ظاہر ہوئے، جنھوں نے اپنے ہم جنسیت پر عامل ہونے کا برملا اظہار کیا اور ذرا بھی خفّت نہیں محسوس کی۔ تیسرے مرحلے میں ایسے افراد کے لیے ’دائمی رفاقت کے قوانین‘ (Partnership Acts) منظور کیے گئے اور اجازت دی گئی کہ جس طرح مخالف صنفوں کے افراد (Heterosexuals) رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوکر ایک جوڑے کی شکل میں رہتے اور مختلف سماجی اور تمدنی حقوق سے بہرہ ور ہوتے ہیں، اسی طرح ہم جنسیت پر عامل افراد بھی پارٹنر کی حیثیت سے خود کو رجسٹرڈ کراسکتے ہیں اور اس کی بنیاد پر ملکیت، وراثت، امیگریشن، ٹیکس اور سوشل سیکوریٹی کے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسے جوڑوں کو بچوں کو گود لینے (Adaption) کا بھی حق دیا گیا۔ اس طرح ہم جنسیت کے معاملے میں گزشتہ سوسال کی تاریخ بتاتی ہے کہ ؂
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

ہندوستان کا شمار بھی ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں زمانۂ قدیم سے ہم جنسیت کو قابلِ نفرت عمل سمجھا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ جب قوانین کی تدوین ہوئی تو اسے موجبِ تعزیر جرائم کی فہرست میں شامل کیا کیا۔ 1861ء میں تشکیل پانے والے تعزیراتِ ہند (Indian Penal Code) کی دفعہ 377 میں ہم جنسیت کو ایک غیر قانونی فعل اور جرم قرار دیا گیا، جس پر دس سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں فضا بدلی تو اس کے اثرات ہندوستان پر بھی پڑنے لگے اور مختلف اطراف سے یہاں بھی ہم جنسیت کو جرائم کی فہرست سے خارج کرنے اور اسے قانونی جواز فراہم کرنے کی آوازیں اٹھنے لگیں۔ اقوام متحدہ (United Nations Organization) کی جانب سے حکومتِ ہند سے اس دفعہ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا، تاکہ HIV/AIDS کے خلاف لڑنے میں آسانی ہو۔ لاکمیشن آف انڈیا نے 2000ء میں اپنی 172 ؍ویں رپورٹ میں قانون کی اس دفعہ کو منسوخ کرنے کی سفارش کی۔ اس مہم میں تیزی اس وقت آئی جب ایک سماجی تنظیم ناز فاؤنڈیشن نے دسمبر 2002ء نے تعزیراتِ ہند کی مذکورہ دفعہ کو ختم کرنے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں مفاد عاملہ کی عرضی داخل کی۔ کورٹ نے 2004ء میں اس عرضی کو خارج کردیا تو اس کے خلاف فاؤنڈیشن نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس پر اسے دوبارہ ہائی کورٹ میں لوٹا دیا گیا۔ اس کے بعد فیصلے پر اثر انداز ہونے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی گئیں۔ ایک طرف مختلف طبقات کے بعض سربرآوردہ افراد کی طرف سے ہم جنسیت کی حمایت کی گئی، دوسری طرف حکومت کے مختلف وزراء نے وقتاً فوقتاً بیانات جاری کیے کہ اس دفعہ کو ختم کرنا حکومت کے زیر غور ہے اور اس پر رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ تیسری طرف ملک کے بڑے شہروں مثلاً دہلی، بنگلور، کلکتہ ، چنّء، ممبئی وغیرہ میں Gay Pride Parade کے نام سے ہم جنسیت کے حامی افراد کے مظاہرے کرائے گئے۔ بالآخر 2؍جولائی 2009ء میں دہلی ہائی کورٹ نے IPC کی دفعہ 377 کو غیر آئینی قراردیتے ہوئے ہم جنسیت کو قانونی جواز فراہم کردیا۔

اس فیصلے سے ہم جنسیت کے حامی افرادمیں خوشی کی لہر دوڑگئی اور ان کی سرگرمیاں مزید تیز ہوگئیں۔ Pink Page کے نام سے پہلا آن لائن LGBT Magazine شائع ہوا اور Bombay Dost کے نام سے Gay Magazine کا دوبارہ اجراء ہوا۔ مختلف ریاستوں میں LGBT Pride Parade کا انعقاد ہونے لگا۔ دوسری طرف ملک کی مختلف مذہبی تنظیموں اور سماجی اداروں نے مل کر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی۔ تقریباً ڈھائی سال مقدمہ کی سماعت کرنے اور اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد 11؍ دسمبر 2013ء کو سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کرتے ہوئے کہا کہ تعزیراتِ ہند کی مذکورہ دفعہ میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس کے مطابق یہ خلافِ فطرت عمل قابلِ تعزیرجرم ہے۔ ساتھ ہی عدالتِ عالیہ نے یہ بھی کہا کہ قانون بنانا حکومت کا کام ہے ۔ اگر وہ چاہے تو پارلیمنٹ سے قانون منظور کرکے اس دفعہ کو منسوخ کرسکتی ہے۔ اس فیصلے نے بحث و مباحثہ کا دروازہ کھول دیا ہے اور اس کے حق میں اور مخالفت میں دلائل پیش کیے جارہے ہیں۔

ہم جنسیت کے حامی بڑے زور شور سے یہ بات کہتے ہیں اور اسی کو دہلی ہائی کورٹ کے فاضل جج نے بھی دہرایا ہے کہ ہم جنس پرستی پر پابندی آزادی ، عدم تفریق اور مساوات کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جن کی دستور ہند میں ضمانت دی گئی ہے۔ دستور کی دفعہ چودہ (14) تمام افراد کے درمیان مساوات کو لازم کرتی ہے اور دفعہ اکیس (21) ہر فرد کی ذاتی زندگی کو تحفظ فراہم کرتی ہے، جب کہ دفعہ پندرہ (15) میں کہا گیا ہے کہ مذہب، نسل، ذات، جنس یا جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی فرد کے معاملے میں تفریق نہیں برتی جائے گی۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس پابندی کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ متمدن انسانی سماج میں کسی فرد کو بے قید آزادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، بلکہ اسے سماج کی مسلّم قدروں اورطے شدہ ضابطوں کی پابندی کرنی ہوگی، مثلاً کوئی شخص مادر زاد برہنہ ہوکر گھر سے باہر نکلنے اور پبلک مقامات میں جانے کو اپنا حق گردانے تو اس کی بات تسلیم نہیں کی جائے گی اور اسے اس حرکت سے روکا جائے گا۔ اس معاملے میں مساوات اور عدم تفریق کے حقوق کا حوالہ دینا بھی صحیح نہیں، اس لیے کہ جو شخص اس گھناؤنے عمل میں ملوّث ہو، اسے اس سے روکنے کے علاوہ، بہ حیثیت انسان جو بنیادی حقوق اسے ملنے چاہئیں، ان سے نہ اس کو محروم کیا جاتا ہے اور نہ اس کی انسانیت کی تحقیر و تذلیل کی جاتی ہے۔

ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ اگر دو افراد آپسی رضا مندی (Mutual Consent) سے ایک دوسرے سے جنسی لذت حاصل کررہے ہیں تو اس میں کسی دوسرے کا کیا جاتا ہے؟ یہ رضا مندی دو الگ الگ صنفوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان بھی ہوسکتی ہے اور ایک ہی صنف کے دو افراد کے درمیان بھی۔ جس طرح کسی مرد اور عورت کے درمیان باہم رضامندی سے جنسی تعلق (Consensual Sex) پر کوئی پابندی نہیں ہے اور اسے قابلِ تعزیر جرم نہیں سمجھا جاتا، اسی طرح اس صورت میں بھی اس کی اجازت ہونی چاہیے، جب دو مرد یا دو عورتیں باہم رضامندی سے اس فعل کو انجام دیں۔

کسی متمدن سماج میں باہم رضامندی کا یہ تصور قابلِ قبول نہیں ہے، بلکہ اسے سماجی نظم و ضبط کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی وجہ سے نظامِ تمدن میں خلل تو نہیں پیدا ہورہا ہے اور سماج کا شیرازہ تو نہیں منتشر ہورہا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے رشوت کا لین دین دو افراد کی باہم رضامندی سے ہوتا ہے، لیکن اسے جرم سمجھا جاتا ہے اور پکڑے جانے پر سخت سزا دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اسے اس کی اجازت دے دی جائے تو لوٹ کھسوٹ، بے ایمانی اور حقوق کی پامالی عام ہونے لگے گی اور پورا سماج فتنہ و فساد سے بھرجائے گا۔ اسی طرح جہیز کا لین دین عموماً باہم رضامندی سے ہوتا ہے، لیکن اسے سماج میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اس سے باز رکھنے کے لیے مختلف قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ اسی پردیگر سماجی برائیوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ کسی برائی کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ اسے دو افراد نے باہم رضامندی سے انجام دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اپنی ہی صنف کی طرف جنسی میلان (Sexual Orientation) موروثی (Genetic) اور خِلقی (Congenital) ہوتا ہے۔ اس کی تعیین دورانِ حمل، بلکہ استقرارِ حمل کے ابتدائی دنوں ہی میں ہوجاتی ہے۔ اس کے ذمے دار بعض جین (Gene) ہوتے ہیں، جو جسم انسانی میں پائے جاتے ہیں۔ وہی انسان کی عادات و اطوار اور ذہن و مزاج کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہوسکتی ہے، لیکن یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی کے تجربات اور اس کے اردگرد کا ماحول اس کے جینیاتی کوڈ (Genetic Code) کے برتاؤ کو متاثر کرتا ہے اور بدلتے ماحول میں مختلف جین کبھی فعّالیت اور کبھی عدم فعّالیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

بالفرض اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو بھی سماج کے تحفظ کے لیے اس ذہنیت کو پنپنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ بعض افراد میں جینس کے سبب ہی دہشت گردی یا خودکشی کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان رجحانات کے حامل افراد کو نہ ان مجرمانہ افعال کی کھلے عام چھوٹ دی جاتی ہے اور نہ ان کا ارتکاب کرنے پر انھیں سزا سے مستثنیٰ کردیا جاتا ہے۔

ہم جنسیت کے رجحان کو مغرب میں پہلے نفسیاتی امراض میں شمار کیا جاتا تھا۔ American Psychiatric Association نے 1952ء میں نفسیاتی امراض پر اپنا پہلا کتابچہ Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders کے نام سے شائع کیا تو اس میں ہم جنسیت کو بھی شامل کیا، لیکن جب اس پر تنقید کی جانے لگی تو بالآخر 1973ء میں اسے اس فہرست سے خارج کردیا۔ عالمی ادارۂ صحت (World Health Organization) نے بھی 1977ء میں اپنی رپورٹ ICD-9 میں ہم جنسیت کو نفسیاتی مرض قرار دیا، لیکن 1990ء میں منعقد ہونے والی 43the World Health Assembly کی سفارش کے بعد ICD-10 میں اسے نفسیاتی امراض کی فہرست سے نکال دیا ۔ یہی معاملہ چین میں روا رکھا گیا۔ Chinese Society of Psychiatry نے 1996ء میں ہم جنسیت کا شمار نفسیاتی امراض میں کیا، پھر پانچ سال کے بعد اسے اس فہرست سے خارج کردیا۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ پہلے اسے نفسیاتی مرض تسلیم کرنا، پھر اس کا انکار کردینا ہم جنسیت کے حامیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے معاملہ میں روز افزوں دباؤ کا نتیجہ تھا۔ ہم جنسیت کو مرض ہی کی حیثیت دی جانی چاہیے اور اگر اس کا رجحان بچپن ہی سے دکھائی دے تو اس کا شمار پیدائشی اور خِلقی امراض میں کرنا چاہیے۔

بعض بچے پیدائشی طور پر معذور ہوتے ہیں یا ان کے کسی عضو میں نقص ہوتا ہے، مثلاً کسی کے ہاتھ یا پیر میں چھ انگلیاں ہوتی ہیں، یا ہونٹ کٹا ہوتا ہے، یا سر غیر معمولی طور پر بڑا ہوتا ہے، یا ہارمونس کے عدم توازن کی وجہ سے جسمانی نشوونما معمول سے کم ہوتی ہے۔ ان صورتوں میں ان بچوں کو یوں ہی چھوڑ نہیں دیا جاتا کہ وہ تو ایسے ہی پیدا ہوئے ہیں، بلکہ ان کا علاج کرکے انھیں معمول کی زندگی گزارنے کے لائق بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر بعض افراد پیدائشی طور پر ہم جنسیت کی طرف میلان رکھتے ہوں تو ان کے اس رویہ کو خِلقی نقص (Congenital Abnormality) سمجھتے ہوئے اس کا علاج کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، نہ کہ ان کی اس ذہنیت کو پروان چڑھایا جائے اور اس کی حمایت میں قوانین وضع کیے جائیں۔

ہم جنسیت نظامِ فطرت سے بغاوت اور اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ ابتدائے آفرینش سے کائنات کی تمام اشیاء میں ’زوجیت‘ کا قانون جاری و ساری ہے۔ نہ صرف حیوانات اور نباتات میں، بلکہ بے جان مادوں میں بھی یہ اصول کارفرما ہے۔ خود مادہ (Atom) کی بنیادی ترکیب میں منفی اور مثبت برقی توانائی پائی جاتی ہے۔ ذی حیات انواعمیں نر اور مادہ کا فرق فطرت نے بقائے نوع اور تناسل کے لیے رکھا ہے۔ دونوں کی یکجائی سے ان کی نسل چلتی ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے ان کے درمیان کشش رکھی گئی ہے۔

نوعِ انسانی میں اسی مقصد کے لیے مرد اور عورت کی دو الگ الگ صنفیں بنائی گئی ہیں۔ ان کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی طرف کشش محسوس کرتے ہیں۔ ان کے درمیان جنسی تعلق کے نتیجے میں توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔اس تعلق میں جو لذت رکھی گئی ہے وہ فطرت کے اس منشا کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تحریک بھی فراہم کرتی ہے اور اس خدمت کا صلہ بھی ہے۔

جو شخص فطرت کی اس اسکیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہی ہم جنس سے شہوانی لذت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ حقیقت میں فطرت سے جنگ کرتا ہے۔ یہ جنگ اس کی اور اس کے رفیق (Partner)کی جسمانی ساخت اور نفسیات دونوں پر برے اثرات ڈالتی ہے، اس لیے کہ وہ ان سے وہ کام لینا چاہتا ہے جس کے لیے انھیں بنایا ہی نہیں گیا ہے۔ اسی طرح ایسا شخص درحقیقت فطرت سے غدّاری کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس لیے کہ فطرت نے شہوانی لذت کو نسل انسانی کے استمرار و تسلسل کی اہم خدمت کا ذریعہ بنایا ہے، جب کہ وہ اس خدمت کو انجام دیے بغیر لذت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

سماج کے بنائے گئے ضابطوں کے مطابق جب مرد اور عورت اکٹھا ہوتے ہیں تو ان سے ایک خاندان تشکیل پاتا ہے، اولاد کی پیدائش اور پرورش ہوتی ہے، رشتے ناتے وجود میں آتے ہیں، تمدن پروان چڑھتا ہے اور سماج کے تمام افراد اپنا اپنا کردار انجام دیتے ہیں۔ لیکن ہم جنسیت سے خاندان کے ادارے پر کاری ضرب لگتی ہے۔ اس لیے کہ جس فطری طریقے سے خاندان کی تشکیل ہونی چاہیے، اس میں خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ ہم جنسیت میں مبتلا شخص صنفِ مخالف سے نکاح کرکے نوعِ انسانی کے تسلسل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دینے سے جی چراتا ہے اور خاندان وجود میں لانے اور اس کے متعلقہ افراد کی خدمت کرنے سیراہِ فرار اختیار کرتا ہے۔ وہ تمدن کے تمام اداروں سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے، لیکن اسے ترقی دینے کے لیے کوئی ذمہ داری اپنے سر نہیں لیتا۔ہم جنسیت کی حمایت گویا ادارۂ خاندان کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش اور نظامِ تمدن پر انتہائی مہلک وار ہے۔ اس کے نتیجے میں قوی اندیشہ ہے کہ سماج کے تانے بانے بکھر جائیں اور تمدّن کا شیرازہ منتشر ہوکر رہ جائے۔

ہم جنسیت کے حامی افراد کا مطالبہ ہے کہ انھیں آپس میں ’نکاح‘ کرنے کی اجازت دی جائے اور اس کے نتیجے میں انھیں وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جونکاح کے بندھن میں بندھنے کے بعد ایک جوڑے کو ملتی ہیں۔ اس مطالبہ کو تسلیم کرنے کا مطلب ادارۂ نکاح پر کاری ضرب لگانا اور اس کی اہمیت کو ختم کرنا ہے۔ بعض ممالک میں اس مطالبہ کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا گیا ہے اور قانونی طور پر ان کے وہ تمام حقوق منظور کرلیے گئے ہیں جو نکاح کے بعد ایک جوڑے کو حاصل ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں نکاح کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے، سماجی زندگی میں انتشار برپا ہے، لوگ مالی اور مادی منفعتوں کی بنیاد پر اکٹھا ہوتے ہیں، اپنی شہوانی خواہشات پوری کرتے ہیں، جب تک چاہتے ہیں ساتھ رہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں الگ ہوجاتے ہیں۔ بے قید آزادی، خواہشاتِ نفس کی غلامی اور منفعت پرستی نے ان کے سماج کو حیوانات کے باڑے میں تبدیل کردیا ہے۔

ہم جنسیت کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے صحتِ عامہ کو سنگین خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس سے وہ لوگ تو جسمانی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہوتے ہی ہیں جو اس فعلِ بد میں مبتلا ہوتے ہیں، ساتھ ہی اس کے بھیانک اثرات ان بہت سے افراد پر بھی پڑتے ہیں جو ان کے ارد گرد رہتے ہیں یا ان کے رابطے میں آتے ہیں۔

گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں بعض مغربی ممالک میں ہونے والے سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ ہم جنسیت میں مبتلا مردوں کی عمر کا اوسط پچاس سال سے کم ہے، جو کہ مجموعی آبادی کی اوسط عمر سے بیس سال کم ہے۔ 2002ء میں ہونے والے ایک سروے کا نتیجہدونوں کی عمروں میں تیس (30) سال فرق کی صورت میں ظاہر ہوا۔

ہم جنسیت اپنے ساتھ بہت سے متعدّی اور غیر متعدّی امراض کا تحفہ لاتی ہے۔ ان کا شکار اس کے عادی مجرم خود بھی ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی ان کی لپیٹ میں آتے ہیں جو ان کے رابطے میں رہتے ہیں۔ مثلاً بواسیر دموی (Hemorrhoids) ،انشقاق مقعد (Anal Fissure) ، جراحتِ مقعدی مستقیمی (Anorectal Trauma) ،سرطانِ مقعد (Anal Cancer) ، آتشک (Syphilis) ،سوزاک (Gonorrhea) ،التہاب کبد (Hepatitis B&C) اور دیگر بہت سی جنسی اور غیر جنسی بیماریاں۔

موجودہ دور میں ایڈز (AIDS) نے عالمی سطح پر ایک سنگین وبا کی صورت اختیار کرلی ہے۔ لاکھوں افراد اس کے نتیجے میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور اس کے شکار افراد کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ میڈیکل سائنس کی غیر معمولی ترقی کے باوجود اب تک اس مہلک مرض کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ سروے رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم جنسیت میں مبتلا افراد عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے ایڈز کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک میں ہم جنسیت میں مبتلا افراد کی جانب سے خون کا عطیہ (Blood Donation) قبول نہیں کیا جاتا۔

ایڈز کی روک تھام کے لیے اقوامِ متحدہ کی جانب سے دنیا کے تمام ممالک میں کچھ عرصے سے زبردست مہم جاری ہے اور مختلف تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ ان کوششوں کے کچھ اثرات سامنے آئے ہیں اور اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہورہی ہے، لیکن رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہم جنسیت میں مبتلامردوں میں HIV/AIDS کی موجودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایڈز کے کنٹرول کے لیے عالمی سطح پر سرگرم اقوامِ متحدہ کی تنظیم UNAIDS کی 2013ء کی رپورٹ میں صراحت سے کہا گیا ہے:

“Although the incidence of HIV infection is declining in most regions of the world, the incidence among men who have sex with men appears to be rising in several places – including Asia, where this mode of transmission is a major contributor to the HIV epidemics of several countries. Globally, men who have sex with men are estimated to be 13 times more likely to be living with HIV than the general population”.

(AIDS by the numbers, P6(LGBT Pride Parade)

’’اگر چہ HIV سے متاثر ہونے کے واقعات میں دنیا کے بیش تر علاقوں میں برابر کمی آرہی ہے، لیکن بہت سے مقامات پر ہم جنسیت میں مبتلا مردوں کے اس مرض کا شکار ہونے کے واقعات میں برابر اضافہ ہورہا ہے ، بالخصوص براعظم ایشیا میں، جہاں کے متعدد ممالک میں HIV کے وبائی صورت اختیار کرنے کا ایک بڑا سبب ہم جنسیت ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو جو مرد اپنی ہی جنس سے شہوانی تعلق قائم کرتے ہیں وہ عام آبادی کے مقابلے میں HIV سے تیرہ (13) گنا زیادہ متاثر ہیں‘‘۔