اسلام اور کفر روَیّے ہیں، قومی شناختیں نہیں

ڈاکٹر عرفان شہزاد

اسلام اور کفر روَیّے ہیں، قومی شناختیں نہیں

از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

خدا کا مجرم اور محبوب، خدا کے ہاں نجات یافتہ اور سزا یافتہ کسی خاص ظاہری شناخت کا حامل شخص نہیں، بل کہ، خاص رویّوں کا حامل شخص ہے۔ کسی کا مسلم قوم سے ہونا، نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، بل کہ، اس کے رویے کا مسلم ہونا یا نہ ہونا، اصل معیار ہے، جس پر فلاح و کام یابی کے وعدے کیے گئے ہیں۔

خدا نے عذاب کی وعیدیں غیر مسلموں کو نہیں سنائیں، سرکش اور غفلت پر مُصر افراد کو سنائی ہیں۔ جنت کی بشارتیں  بھی مسلمانوں کے لیے نہیں، خدا کا پیغام دیانت داری اور شعور سے قبول کرنے اور اس کی بلا چُوں و چراں اطاعت کرنے والوں کو سنائی گئی ہیں۔ اس رویے کے حامل افراد کو مسلم کہا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قاتل اگر مؤمن بھی ہو تو اسے اسی ابدی جہنم کی سزا سنائی گئی ہے جو خدا کے انکار کرنے والے سرکشوں کو سنائی گئی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ایمان لانے کے بعد ایک مؤمن نے اس حقیقت کو جان لینے کے بعد کہ انسان کی جان خدا کے نزدیک کس قدر محترم ہے، ایک شخص کی جان، جان بوجھ کر لے لی تو اس نے سرکشی کا رویّہ اختیار کیا اور یہی سرکشی اس کے لیے ابدی جہنم کا باعث بنی، چاہے قاتل نام اور قوم سے مسلم تھا۔

خدا کے عدل کو نظر انداز کر کے مسلمانوں نے یہود کی طرح خدا کو قومیانے کی کوشش کی ہے اور یہ تصور کیا ہے کہ اس کے ذمے ہے کہ وہ انھیں بالآخر بخش دے، اور یہ کہ اس کے پاس غیر مسلموں کے لیے ابدی عذاب کے سوا کچھ نہیں۔

اسی غلط تصور سے وہ اشکالات پیدا ہوتے ہیں جو خدا کے عدل پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ قرآنِ مجید کو اس نظر سے دیکھنے کا نتیجہ ہے جو اسلام کے خدا کے دین کی بَہ جائے ایک قومی دین، اور کسی مسلم کے ایک رویے کی بَہ جائے ایک قومیت کی شناخت بن جانے کے بعد پیدا ہوئی۔

اسی سوچ سے شکوہ جیسی نظمیں تخلیق ہوتی ہیں، کیوں کہ یہ سوچا جاتا ہے کہ کلمۂِ شہادت پڑھ لینے اور مسلم قومیت میں اندارج کروا لینے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا مسلمانوں کو غیر مسلم قوموں کے ہاتھوں سے ذلیل ہونے دے اور ہر معرکے میں انھیں فتح یاب نہ کرے۔ خدا کے عذاب کا مستحق کفر ہے، جو یا تو سرکشی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، یا غفلت پر اصرار سے۔

یہ رویے مسلمانوں، یا غیر مسلمانوں میں جہاں کہیں پائے جائیں گے، اس فرد کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا دیں گے۔ قرآنِ مجید میں دیکھیے کہ کفر کرنے والے محض اس وجہ سے مُوردِ الزام نہیں ٹھہرائے گئے کہ انھوں نے  مذھب کے آزادانہ انتخاب میں غلط انتخاب کر لیا، بل کہ اس بات پر وہ مجرم ٹھہرائے گئے کہ وہ اپنے مانے ہوئے مقدمات کے بَہ دیہی نتائج قبول کرنے پر تیار نہ تھے، جس پر خدا اور ان کا رسول (صلعم) بار بار ان کی توجہ دلا رہے تھے۔ وہ مانتے تھے کہ کائنات اور ان کا خالق ایک اللہ ہے مگر اس کے ساتھ وہ یہ بات بلا دلیل مانتے تھے کہ اس خدا نے اپنے ساتھ چھوٹے خدا بھی رکھے ہوئے ہیں، جو اس کی خدائی میں شریک ہیں۔

ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کس بناء پر انھیں خدا مانتے ہو؟ کوئی آسمانی کتاب ان کے پاس ہے جس میں یہ لکھا ہوا ہے؟ جن انبیاء کو وہ مانتے ہیں ان سے کوئی روایت اس بارے میں ان کے پاس موجود ہے؟

کیا عقل اس کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا اپنے کام اکیلا کرنے سے عاجز ہے، اس لیے اس نے اپنے مدد گار بنا لیے ہیں؟ وہ آخرت پر ایمان لانے کو تیار نہ تھے، ان سے پوچھا جاتا تھا کہ جو خدا پہلی بار پیدا کر سکتا ہے وہ دو بارہ کیوں پیدا نہیں کر سکتا جب کہ تم جانتے ہو کہ تمھارا ضمیر یہ تقاضا کرتا ہے کہ اچھائی اور برائی کا صلہ ملنا چاہیے۔

یہاں انصاف نہیں ہوتا تو کہیں تو ہونا چاہیے۔ تم دیکھتے ہو کہ بارش ہوتی ہے تو مردہ زمین سے پودے نکل آتے ہیں، تو تمھیں دو بارہ پیدا کرنا عقلی لحاظ سے کیوں کر نا ممکن ہے۔

ان سب کے جواب میں ان کی دلیل تھی تو یہ کہ ان کے بڑے ایسا کرتے اور مانتے آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو چل رہا ہے چلنے دیا جائے۔ وہ اس پر بات کرنا، سننا ہی پسند نہیں کرتے۔ ان کے سردار لوگ مزید یہ بھی کہتے تھے کہ وہ توحید کی اس دعوت کو کسی اور کو بھی قبول کرنے نہیں دیں گے اور یہ کہ وہ اس دعوت کو ختم کر کے رہیں گے۔

اس رویے کو دو لفظوں کا عنوان دیا جائے تو یہ سرکشی اور غفلت پر اصرار تھا، نہ کہ محض دین و ایمان کے معاملے میں غلط انتخاب پر سزا۔

قرآنِ مجید ہمیں اَز کارِ رفتہ رویوں کی کہانی نہیں سناتا۔ یہ رویے ہر دور اور ہر سماج میں ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری یہ  ہے کہ ان رویوں کو اپنے مزاج میں شناخت کریں، ان پر مَتنبِّہ رہیں اور درست رویے اپنانے کی شعوری کوشش کریں۔

جس بات کو درست سمجھیں، اسے دیانت داری اور شعور سے درست سمجھیں۔ کسی درست لگتی بات کو سننا محض اس بناء پر رد نہ کیا جائے کہ غور و فکر کی زحمت سے بچنا اور اپنی بے خبری کا لطف قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

کسی درست بات کو تسلیم کرنے سے کوئی تعصب، کوئی مفاد، اور کوئی عقیدت مانِع نہ ہو۔ اپنے عقیدے اور نظریہ کے تقاضے جس اطاعت کا تقاضا کریں اس پر عمل کرنے میں جان بوجھ کر کوتاہی نہ برتی جائے۔

یہ رویے صرف مذھب میں ہی مطلوب نہیں ہیں، بَل کہ، مستقل رویے ہیں جنھیں ہر شعبۂِ زندگی میں اپنانا ہی آپ کو وہ مسلم بناتا ہے جس خدا سے نجات اور انعام پانے کا مستحق ہے۔