سماجی تبدیلی میں دانش ور کا کردار

ناصر عباس نیر

 

اب تک کی معروضات سے واضح ہو گیا ہوگا کہ سماجی تبدیلی میں تنظیمی دانش وروں؍ماہرین کا کوئی کردا نہیں ہوتا،اور نہ وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں۔البتہ دوسرے دانش ور کسی نہ کسی درجے میں سماجی تبدیلی میں حصہ لیتے ہیں۔ سماجی تبدیلی کے مفہوم اور سماجی تبدیلی برپا کرنے کے سلسلے میں دانش وروں کے یہاں مختلف تصورات رائج ہیں۔بیسویں صدی کے اشتراکی دانش وروں نے سماجی تبدیلی سے سماج کی زیریں ساخت یعنی معاشی نظام کی مکمل تبدیلی یا انقلاب کامفہوم لیا تھا ۔ان کا خیال تھا کہ ’ خیالات کا نظام‘ معاشی ساخت سے پیدا ہوتا ہے ،اس لیے اگر معاشی ساخت بدل دی جائے تو خیالات بھی بدل جائیں گے،مگرمعاشی نظام کی تبدیلی کے لیے ذہنوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔لہٰذا اشتراکی خیالات کی ترسیل وترویج کی ضرورت ہے۔اس صورتِ حال نے اشتراکی دانش وروں کے سامنے ایک بڑا چیلنج رکھا۔ اگر دانش ور کا کام ایک ان تھک تنقیدی نظر کو بروے کار لانا ہے؛اپنے ذہن کو مسلسل حاضر رکھتے ہوئے، ہر نئی صورتِ حال کو اس کے اپنے تناظر میں سمجھنا ہے ؛ خود کو کسی ایک آئیڈیالوجی کا شکار ہونے سے بچانا ہے ؛نئے خیالات کی تخلیق میں حصہ لینے کے اس میثاق کی پابندی کرنا ہے ،جسے وہ دانش ورانہ دنیا میں داخل ہوتے ہی قبول کرتا ہے ،تو اشتراکی دانش ور کیوں کر چند خاص ،بندھے ٹکے نظریات کی پابندی کرتے ہوئے ،دانش وری کا فریضہ ادا کرسکتا ہے؟ وہ زیادہ سے زیادہ اشتراکی انقلابی فکر کا مبلغ بن سکتا ہے۔بلاشبہ اس چیلنج کو بعض اشتراکی دانش وروں نے محسوس کیا ،اور قبول کیا، خصوصاً فرینکفرٹ سکول کے دانش وروں نے۔ بعد ازاں التھیوسے ،پیئر ماشرے اور ٹیری ایگلٹن نے۔ اردو کے اشتراکی دانش ور ،اشتراکی دانش کی تخلیق کے بجائے ،اشتراکی نظریے کے مبلغ بنے۔ بایں ہمہ یہ اعتراف کیا جانا چاہیے ،ہمارے یہاں اتنی تبدیلی ضرور ہوئی کہ مقتدر طبقوں کی چند کھلی استحصالی تدبیروں کا فہم عام ہوا،اور لوگوں کو طاقت کے مراکز کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ ملا۔
جسے ہم آج عوامی دانش ور کہتے ہیں،اسے ہم ’مابعد اشتراکی دانش ور‘ کَہ سکتے ہیں۔ عوامی دانش ور،اشتراکی دانش ور کے سب سے بڑے خواب یعنی انقلاب میں خود کو شریک نہیں پاتا؛وہ انقلاب کے بجائے اصلاحات کا حامی ہوتا ہے۔یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ معاصر دانش ورانہ فکر میں انقلاب کے تصور کی جگہ ارتقا کے تصور نے لے لی ہے۔ جو لوگ اب بھی انقلاب کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ شدت پسندانہ نظریات کے حامل ہیں؛وہ اپنا ایجنڈہ بارود کی طاقت سے نافذ کرنا چاہتے ہیں۔یہ لوگ حقیقتاً دانش ور نہیں، ’روایتی مذہبی دانش وروں‘ کے نظریات کے کٹر قسم کے محافظ ہیں۔
دانش وری کے ذریعے سماجی تبدیلی کا آغاز جدید عہد میں ہوا۔ جہاں جدیدیت نے نئے خیالات تخلیق کرنے کے ان تھک عمل کو ممکن بنایا ،وہاں نئی ایجادات بھی ہوئیں۔ جدیدکاری کے نتیجے میں جو نئی ایجادات سامنے آئیں؛ان میں ایک اہم مگر مؤثر ترین ایجادپریس تھا۔ خیالات کو وسیع عوامی حلقے تک پہنچانے میں بنیادی کردار پریس کا تھا۔دانش وری اور پریس (اور اس کی نئی صورتیں ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ)لازم و ملزوم ہیں۔ ابتدا میں دانش وروں نے منشور ، پمفلٹ شایع کیے، بعد میں اخبارات ، رسائل جاری کیے اور کتابیں شایع کیں۔اردو کے ابتدائی ،مگر ممتاز دانش ور سرسید نے تہذیب الاخلاق جاری کیا،اور اس میں دیگر دانش وروں کو لکھنے کی دعوت دی۔۔پریس کی وجہ سے انسانی سماج میں ایک نئی چیز نمودار ہوئی ،جسے آج ہم ’عوامی منطقہ‘ (Public Sphere) کہتے ہیں؛’عوامی منطقہ ‘ سماجی زندگی کا وہ علاقہ ہے ،جہاں مشترکہ دل چسپی کے موضوعات پر گفتگوئیں ہوتی ہیں؛بحث ومکالمہ ہوتا ہے؛متضاد ومتصادم نظریات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔دانش وری کا عمل’ خیالات کی تخلیق‘ سے شروع ہوتا ہے،’، ترسیل کے جدید ذرائع‘ سے ہوتا ہوا’ عوامی منطقے ‘ تک پہنچتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی تبدیلیوں کی آماج گاہ یہی عوامی منطقہ ہے۔ جن خیالات ،یا جس طبقے کے خیالات کو عوامی منطقے تک جتنی آسان اور مؤثر رسائی حاصل ہوتی ہے ،وہی تبدیلیاں لاتے ہیں۔ گرامشی جنھیں تنظیمی دانش ور اور پانڈے جنھیں علمی اور تنظیمی اشرافیہ کہتے ہیں، ان کا کوئی تعلق عوامی منطقے سے نہیں ہوتا۔
عوامی منطقہ ایک ایسا میدان ثابت ہوا ہے جہاں ہر وقت خیالات، نظریات، کلامیوں، آئیڈیاجیوں کا حشر برپا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب اصل جنگیں اسی منطقے میں لڑی جاتی ہیں۔ اس پر قبضے ، اجارے کی کوشش ہوتی ہے۔اس اجارے کے ذریعے ایک طرف معلومات وخیالات پر قابو رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے،اور دوسری طرف واقعات کی نمائندگی کے طریقوں پر حاوی ہونے کی سعی کی جاتی ہے۔ آج کے عوامی اور غیر وابستہ دانش وروں کے سامنے دو بڑے مسائل ہیں۔ پہلا مسئلہ ’عوامی منطقے ‘تک رسائی ہے۔ اس وقت اس منطقے پر برقی میڈیا اور اخباری کالم نگاروں کا اجارہ ہے۔کتاب اس منطقے سے تقریبا غائب ہے ۔برقی میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے ترجمان نظر آتے ہیں،کچھ سکیورٹی تجزیہ نگاریااخباری کالم نگار۔ان سب کو دانش ور کہنے کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دانش وروں کی قبیل کے دوچار لوگ اردواخبارات میں کالم لکھتے ہیں،اور ان کی وجہ سے ہمارے سماج میں دانش کا کچھ نہ کچھ بھرم قائم ہے۔ ان میں انتظارحسین، امر جلیل،ایاز امیر،زاہدہ حنا،محمد اظہارالحق ،وجاہت مسعود قابلِ ذکر ہیں۔میں نے دانستہ انھیں ’دانش وروں کی قبیل‘ کے افراد کہا ہے، اس لیے کہ ان میں سے کوئی بھی اس غیر معمولی تحقیق ، مسلسل،ان تھک مطالعے، گہرے، ہشت پہلو تجزیے سے کام نہیں لیتا، جن کے بغیر دانش تخلیق نہیں ہوسکتی۔ان کے پاس چند دانش مندانہ خیالات ضرور ہیں، جو سماج کی قدامت پسند،مبہم فکرکے مقابل نہایت قابلِ قدر محسوس ہوتے ہیں،لیکن اگر آپ ان کے دس بارہ کالم پڑھ لیں تو اگلے ہر کالم میں ظاہر کیے گئے مؤقف ،یہاں تک کہ دلائل ، محاوارت ، مثالوں کی بھی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں دانش وری کا دوسرا مطلب ’دانش ورانہ ‘مؤقف لیا گیا ہے۔چناں چہ یہ لوگ مسائل اور واقعات کے سلسلے میں ایک واضح ،روشن خیالی و عقلیت پسندی پر مبنی مؤقف تو اختیار کرتے ہیں(اس مؤقف کی اہمیت و ضرورت سے کسی کافر ہی کو اختلاف ہوسکتا ہے)،مگر روشن خیالی و عقلیت پسندی جس نئے علم کی تخلیق کا تقاضا کرتی ہے، وہ نظر نہیں آتا۔ یہ علم ’ذمہ دار مگر غیر وابستہ دانش وروں‘ کی کتابوں میں ضرور موجود ہے، مگر وہ سماجی تبدیلی کے کسی عمل میں اس لیے شریک نظر نہیں آتیں کہ کتاب عوامی منطقے کے حاشیے پر ہے۔
عوامی اور غیر وابستہ دانش وروں کو دوسرا اہم مسئلہ جو درپیش ہے،وہ زبان سے تعلق رکھتا ہے۔سب جانتے ہیں کہ زبان ایک غیر جانب دار ذریعہ ابلاغ ہوتی ہے ؛وہ ہر قبیل کے آدمی کو ہر طرح کی بات ظاہر کرنے کی سہولت بہم پہنچاتی ہے؛زبان کے لیے کوئی کافر ہے نہ مسلمان،مگرنو آبادیاتی عہد میں اردو کی مذہبی شناخت کیاقائم ہوئی کہ اس میں ہر قبیل کے آدمی کو ہر بات کہنے کی اجازت نہیں رہی۔اس امر کا احساس اس وقت شدید ہوتا ہے جب ہم انگریزی اور اردو کے ’عوامی منطقوں‘ میں مقابلہ کرتے ہیں؛دونوں میں قطبین کا بعد پیدا ہوچکا ہے۔ انگریزی میں روشن خیال،آزادانہ فکر کسی خوف کے بغیر ظاہر کی جاسکتی ہے،مگر اردو میں روشن خیالی،تکثیریت ،سیکولرفکر،مابعد جدید کثیر المعنیت جیسے الفاظ گالی کا درجہ اختیار کرتے جارہے ہیں۔اردو کے روشن خیال مصنفوں کو لکھتے ہوئے ،اس قدر احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے کہ بعض اوقات ان کی تحریر ابہام کا شکار ہوکر مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔اکثر اوقات اردو مصنفین خوفِ فسادِ خلق کے پیشِ نظر اپنی دانش ورانہ تحریروں کو اشعار سے مزین کرتے ہیں۔حالاں کہ کسی دوسری زبان میں دانش ورانہ تحریر میں شاعرانہ ٹکڑے نہیں لگائے جاتے۔ اردو سے وابستہ مذہبی قوم پرستی اس درجہ شدید ہے کہ اردو میں لکھتے ہوئے ہر دانش ور خود کو ایک غیر مرئی مقدس گروہ کے آگے جواب دہ محسوس کرتا ہے؛اسے اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کے دوران میں یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں کسی مقدس گائے کی اہانت نہ ہوجائے ،اور اسے سلاخوں کے پیچھے نہ دھکیل دیا جائے یا آگ کے سپرد نہ کردیا جائے،یا اس پر فتوے نہ جڑ دیے جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جن تحریروں سے اردو کا عوامی منطقہ تشکیل پاتا ہے ،اوّل وہاں قدامت پسند ، رومانوی مذہبی قوم پرستانہ خیالات کا غلبہ ہے، دوم وہاں ذمہ دارانہ باتیں لکھنے کا فقدان ہے،سوم وہاں سنجیدہ دانش ورانہ خیالات کے لیے جگہ اس قدر سکڑی سمٹی ہے کہ ان تحریروں کا مصنف خود کو بیگانہ محسوس کرتا ہے۔
اس بات پر زور دیے جانے کی ضرورت ہے کہ ہرشخص دانش ورانہ خیالات سے اثر پذیر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دوسرے لفظوں میں سماجی تبدیلی کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔وٹگنسٹائن کا قول ہے کہ کسی نابغے میں کسی دوسرے دیانت دار آدمی کے مقابلے میں زیادہ روشنی نہیں ہے،مگر نابغے کے پاس خاص طرح کا محدب شیشہ ہوتا ہے جس سے وہ روشنی کو ایک نکتے پر مرتکز کرکے اسے شعلے میں بدل سکتا ہے۔ دانش ورایک نابغہ ہے؛اس میں اور عام آدمی میں بس یہی فرق ہے۔ دانش ور اور عام آدمی کے پاس ’ایک ہی طرح کی روشنی‘ یعنی مسائل کی تفہیم کی عقلی صلاحیت ہوتی ہے،مگر دانش ور اس صلاحیت کو اس درجہ ترقی دیتا ہے کہ وہ نیا علم ، نئی دانش ، نئی بصیرت تخلیق کرلیتا ہے۔تاہم مذکورہ سبب ہی سے عام آدمی دانش ورانہ علم و بصیرت کو قبول کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کرتا ہے ۔مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ عام آدمی تک دانش ورانہ خیالات کی روشنی پہنچے۔ سماجی تبدیلی کی راہ میں بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اس روشنی کی ترسیل کی راہ میں کئی چیزیں حائل ہیں۔ایک رکاوٹ تو خود عام آدمی کا عموماًتقلیدی مزاج ہونا ہے؛وہ اکثر باتوں ، نظریوں، اشتہارات،پروپیگنڈہ کو اسی تقلیدی مزاج کے تحت قبول کرلیتا ہے۔اس میں سوال اٹھانے کی خلقی اہلیت موجود ہوتی ہے،مگر اسے ’رائے سازی‘ کی صنعت دبائے رکھتی ہے،جس پرسیاسی ،مذہبی، تجارتی ، ابلاغی،تعلیمی نصاب ساز اداروں کا اجارہ ہے،اور یہ دوسری بڑی رکاوٹ ہے۔ فقط دانش ور ہی عام آدمی کی مذکورہ خلقی صلاحیت کو مخاطب کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حقیقی دانش ورانہ خیالات کم از کم اردو پڑھنے والے عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔اس تک جو کچھ پہنچ رہا ہے ،وہ مذہبی شدت پسندی، تنگ نظری پر مبنی قوم پرستی،فکشنی رومانوی تاریخ ، ہیجانی اور پست قسم کی تفریحی چیزیں ہیں۔دانش ورانہ تصورات اپنی اصل میں ’خیال افروز‘ہوتے ہیں؛ یعنی لوگوں کے پلو سے بندھے ٹکے خیالات باندھنے کے بجائے ،انھیں سوچنے میں مدد دیتے ہیں۔ عظیم دانش مسائل کا ریاضیاتی حل نہیں بتاتی؛اوّل یہ یقین پیدا کرتی ہے کہ انسانی دنیا کے مسائل انسانی صلاحیتوں کی مدد سے حل کیے جاسکتے ہیں؛دوم مسائل حل کرنے کے راستے اور امکان سجھاتی ہے۔ عظیم دانش اس بات کو فراموش نہیں کرتی کہ چند بندھے ٹکے خیالات ،خواہ کس قدر دلکش ہوں ، بالآخر استبدادی ہونے لگتے ہیں؛یہاں تک کہ اگر روشن خیالی بھی ایک بندھا ٹکا تصور بن جائے تو یہ اسی طرح استبدادی یعنیTyrannical ہونے لگتا ہے ،جیسے مذہبی شدت پسندی۔جن دیوتاؤں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بالآخر ناکام ہوتے ہیں، وہ ایسے ہی دانش ور ہوتے ہیں جو چند خیالات ،یا کسی ایک نظریے کو ہمیشہ کے لیے سینے پر تمغے کی طرح سجا لیتے ہیں،اور لوگوں سے عزت اورریاست سے ایوارڈ طلب کرتے ہیں۔چناں چہ حقیقی دانش ور مسلسل نئے خیالات کی تخلیق کی دھن میں رہتا ہے۔وہ اپنے آپ کو اور اپنے پڑھنے والوں کوتجسس کے پیدا کردہ اضطراب کی حالت میں رکھتا ہے۔دوسرے لفظوں میں دانش ورمثالی طور پر سماج میں جس تبدیلی کو ممکن بناسکتا ہے ،وہ یہی اضطراب ہے؛ ایک ایسا جذبہ جو دانش ور اور اس کے قارئین کو ’مسافر در وطن‘ کی حالت میں رکھتا ہے!

About ناصر عباس نیرّ 36 Articles
ڈاکٹر ناصرعباس نیر اردو زبان کے تنقیدی ادب کا ایک با اعتبار حوالہ ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مستند کتابوں کے مصنف ہیں: ان میں ● جدید اور مابعد جدید تنقید ● لسانیات اور تنقید ● متن ،سیاق اور تناظر ● مجید امجد: حیات، شعریات اور جمالیات ● ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری ● مابعد نو آبادیات اردو کے تناظر میں ● اردو ادب کی تشکیل جدید شامل ہیں۔ ان کی زرخیز ذہنی صلاحیتوں کے با وصف ہم یقین رکھ سکتے ہیں ک کتابوں کی یہ فہرست بڑھتی ہی جائے گی۔ حال ہی میں فکشن میں بھی اپنا ایک توانا حوالہ اپنی افسانوں کی کتاب ●خاک کی مہک کی صورت مہا کر چکے ہیں۔ جبکہ ● چراغ آفریدم انشائیہ کی طرف ان کی دین ہے۔ ● اردو تنقید پر مغربی اثرات کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ ہائیڈل برگ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں۔ ite here abotu Nasir abbas