نظریاتی ریاستوں میں الفاظ اور معانی کا رشتہ

Naseer Ahmed, the writer

نظریاتی ریاستوں میں الفاظ اور معانی کا رشتہ

از، نصیر احمد

نظریاتی ریاستوں کا یہی ہوتا ہے کہ سرکاری طور پر لکھا اور کہا اتنا سندر ہوتا ہے اگر اسی لکھے اور کہے تک محدود رہیں تو جانیے فردوس میں پہنچ گئے لیکن جو کیا جا رہا ہوتا ہے، اس سے آگاہ  ہو جائیں تو جہنم کے علاوہ کوئی تصویر نہیں بنتی۔
سوویت یونین بھی  ایک ایسی ہی نظریاتی ریاست تھی۔ مذہب کے بارے میں ریاست کے رہنماوں کا دشمنی کا رویہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مذہب  محنت کشوں کا جوش انقلاب سرد کر دیتا ہے بلکہ محنت کشوں کے استحصال میں سرمایہ داروں کا حمایتی ہے۔انھوں نے مذہب کے بارے میں اپنے نظریات یہیں تک محدود کیے ہوئے تھے اور ان نظریات کی وجہ سے مذاہب کے خاتمے کے لیے پالیسیاں بناتے تھے۔ اور اس کے لیے ریاست کے ذرائع استعمال کرتے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ ان کی رائج کردہ اشتراکیت کے دلائل عوام کو مذہب سے دوری اختیار کرنے پر قائل کر لیتے ہیں مذہبی آزادیاں دینے کا کھیل بھی کرتے تھے۔

مذہبی تنظیم قائم کرنے کی اجازت تھی مگر صرف مقامی سطح پر۔مذہبی تنظیم کو  عبادت گاہ پر کوئی مالکانہ حقوق حاصل نے تھے۔مقامی سوویت سے اجازت ناموں کی ضرورت تھی مگر وہ طریقہ کار اتنا پیچیدہ تھا کہ دفتر دفتر گھومتے رہیں، اجازت نہیں ملتی تھی، اسی گھما پھیری میں اندراج کا وقت گزر جاتا تھا۔

ایک اور مرحلہ عبادت گاہ قائم کرنے کی درخواست میں ارکان کو اپنے حلف نامے دینے پڑتے تھے۔ یہ سب سے مشکل کام تھا کہ اس طرح سے اشتراکی پارٹی کے لیے آسان ہو جاتا تھا کہ جب چاہے آپ کو گرفتار کر لے۔ اس بات کو یقینی بنائے کہ روزگار کے سلسلے میں آپ کو مشکلات ہوں۔پھر پارٹی ہر مذہبی اجتماع میں اپنا ایک نمائندہ بھی متعین کرنے کا اختیار رکھتی جو کسی وقت بھی عبادت گاہ کو بند کرنے کا اختیار رکھتا تھا۔

عبادت گاہ  میں بھی مذہب کی تبلیغ کی اجازت نہیں تھی۔ اپنے مذہب کی حمایت میں نہ تقریریں کر سکتے تھے، نہ کتابیں چھپوا سکتے تھے اور نہ مقدس شبیہیں یا دوسرے تبرکات اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔ تبرکات کے لیے علیحدہ اجازت ناموں کی ضرورت ہوتی تھی۔ اگر مختص عبادت گاہ کے بجائے کسی اور جگہ عبادت کی آرزو دل میں جاگے تو ایک اور اجازت نامہ لینا پڑتا تھا۔
یہ تو چند قانونی رعایتیں تھیں مگر چونکہ ریاست مذہب دشمن تھی، اور پارٹی جو چاہے وہ کر سکتی تھی، اس لیے حقائق کافی خوفناک تھے۔

یعنی سوویت یونین مذاہب کے پیروکاروں کے لیے جہنم تھا۔اشتراکی پارٹی کے اعلی افسروں کے سوا سب کے لیے جہنم ہی تھا۔
چین بھی ایسی ہی نظریاتی ریاست ہے۔ آج کل یوئغور اور قازق قوموں کے لوگ اس کی عتاب کا شکار ہیں۔ تعلیم نو کے نام پر انھیں قید کر لیا گیا ہے۔عالمی اداروں اور اخباروں کی رپورٹوں کے مطابق ان لوگوں کو اسلام(یہ لوگ مسلمان ہیں) کے خلاف باتیں کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جو اشیا ان کے مذہب میں حرام ہیں، وہ زبردستی کھلائی  اور پلائی جاتی ہیں۔ان لوگوں کے گھروں میں بھی چینیوں کو بھیجا جاتا ہے کہ معلوم ہو کہ کیا یہ لوگ گھروں میں کلام مجید کے نسخے رکھتے ہیں۔

اگرچہ چینی حکام کہتے ہیں کہ وہ اتنہا پسندوں کو اعتدال پر مبنی تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں مگر جو رپورٹیں آ رہی ہیں، وہ اس دعوے کی تردید ہی کرتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ہتھکڑیاں باندھ کر سترہ سترہ گھنٹے دیوار کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان بندی خانوں کا مطلب ہم سے ہماری یوئیغور، قازق اور مسلم شناخت چھیننے کے سوا کچھ نہیں۔
نظریاتی ریاستوں میں یہی کچھ ہوتا ہے، الفاظ کا معانی سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ سب کچھ ریاست کی مرضی ہوتی ہے۔ اگر وہ ظلم کو انصاف کہے، تو جہاں جہاں تک اس کی بات چلتی ہے وہاں ظلم انصاف ہی ہوتا ہے۔

ان ریاستوں کے اکثر پروجیکٹ اپنے مقاصد حاصل کرنے  میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ سوویت یونین کی تمام تر کوششوں کی باوجود دنیا کے مذاہب نہ دنیا سے ختم ہوئے اور نہ ان علاقوں سے جہاں سوویت یونین تھا۔ ہاں سوویت یونین ختم ہو گیا۔تو پھریہ ساری قساوت کس لیے؟نظریاتیوں سے پوچھیں تو وہ کوہ بلند کے بزرگ کے فدائیوں کی طرح مجذوب ہو جاتے ہیں۔نہ فکر میں چھپا جہنم دیکھتے ہیں نہ عمل میں ہویدا دوزخ۔

یہ تو مذہب دشمن نظریاتی ریاستیں ہیں جو ریاستیں کسی ایک مذہب کے نفاذ اور ترویج کے نظریات پر مبنی ہوتی ہیں۔ وہ انسانی حقوق  کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہیں جو مذہب دشمن ریاستیں مذہبی آزادیوں کے ساتھ کرتی ہیں کہ نام تو ہوتا ہے مگر ان کا احترام ناممکن ہو جاتا ہے۔بس انسانی حقوق کی پامالی ہی ہوتی رہتی ہے۔

جمہوری اصول بہتر ہوتے ہیں کیونکہ وہ پرامن اجتماعی زندگی کے لیے بہتر ہوتے ہیں اور امن کے لیے فکر، بحث، گفتگو، تجاویز، تحقیق جیسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس سب میں نظریات کی سادگیوں کے کرارے مزے نہیں ہوتے۔ کافی عرصے سے کاروباری نظریاتی تسلط کی وجہ سے جمہوریتیں بھی چٹخاروں کی عادی ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں فردا میں ایک ممکنہ جہنم کے نقوش واضح ہونے لگے ہیں۔ دوردراز ملکوں میں تو یہ جہنم برپا ہی رہتا  ہے مگر اب لپٹیں گھر تک بھی پہنچنے لگی ہیں۔

اب دیکھیے کب جمہوری اور غیر جمہوری دنیا کے نشے اترتے ہیں اور کچھ معنی انگیز اصلاحات رائج ہوتی ہیں؟