ہمارے ٹی وی چینلوں کے مزاحیہ پروگراموں کا معیار

ٹی وی چینلوں کے مزاحیہ پروگراموں کا معیار
سہیل احمد برائے عمومی نمائندگی

ہمارے ٹی وی چینلوں کے مزاحیہ پروگراموں کا معیار

الیاس شاکر

ایک وقت تھا جب پی ٹی وی عید قرباں سے دو ماہ قبل عید کے پروگراموں کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتا تھا۔ عید کے دونوں تہواروں پر بھرپور جوش و جذبہ نظر آتا تھا۔ اعلیٰ لکھاری کے قلم کا کنکشن ذہن کے ساتھ جڑتے ہی جیسے الہام شروع ہو جاتا تھا۔ پھر اخبارات کو ان پروگراموں کی پوری فہرست بذریعہ ڈاک یا فیکس ارسال کی جاتی تاکہ ناظرین کو آگاہ کیا جا سکے۔ ان ڈراموں کے ہر مکالمے میں زندگی ”پھڑپھڑاتی‘‘ تھی۔ لوگ برسوں وہ مکالمے نہیں بھول پاتے تھے۔ ان میں سے بیشتر تو آج تک لوگوں کو یاد ہیں۔ اس دور میں مزاحیہ پروگراموں کی تیاری انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کی جاتی تھی تاکہ مزاح نشر ہونے تک اور اس کے بعد بھی زندہ رہے۔ مشتاق احمد یوسفی‘ کمال احمد رضوی‘ انور مقصود‘ لہری‘ معین اختر‘ عمر شریف‘ ڈاکٹر یونس بٹ اور اس پائے کے دیگر مزاح نگار پروگرام لکھتے… اور ناظرین ان پروگراموں کے ایک ایک جملے پر داد دیئے بغیر نہ رہ پاتے تھے۔

آج کا ٹی وی بدل گیا ہے۔ سکرین ایچ ڈی سے الٹرا ایچ ڈی ہو گئی ہے لیکن پروگراموں میں مزاح کا ”قتل‘‘ ہو گیا ہے۔ درجنوں نجی ٹی وی چینلز ”درجہ آخرم‘‘ تک کے مزاحیہ پروگرام پیش کر رہے ہیں‘ جس سے ہنسی تو دور کی بات الٹا غصہ آنے لگتا ہے۔ نازک کلیوں جیسی اداکارائیں پھول دار مکالمے بولتی ہیں تو ناظرین ہنستے نہیں بلکہ سوال کرتے ہیں کہ اس نے کہا کیا تھا؟ عموماً یہ بھی ہوتا ہے کہ میزبان خود ہنس رہا ہوتا ہے جبکہ مہمان‘ حاضرین اور ناظرین اُس پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔ بعض پروگراموں کے میزبان جب اپنے لال‘ پیلے دانتوں کے ساتھ بھونڈی ہنسی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ تو پروڈیوسر پہلے سے ”ریکارڈڈ ہنسی‘‘ شامل کرکے پروگرام میں ”تڑکا‘‘ لگانے کی ناکام کوشش کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

ایک بہت بڑی تعداد میں نجی ٹی وی چینلز کے آنے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ یہ چینلز اپنے اوزاروں کے ساتھ مزاحیہ پروگراموں کا ”لال قلعہ‘‘ فتح کر لیں گے‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ مزاح کی دھار سے محروم اوزار اتنا بڑا کام نہیں کر سکتے تھے۔ آپ نے اکثر نوجوانوں کو نجی محفلوں میں ایک جملہ ”بس یار ٹائم کِل کر رہا ہوں‘‘ استعمال کرتے سنا ہو گا۔ آج کل وہی کام ٹی وی پروگراموں میں ہو رہا ہے اور اب نجی ٹی وی چینلز ٹائم کِل کرنے کی مشینیں بنتے جا رہے ہیں۔ طنز کیا ہے؟… مزاح کسے کہتے ہیں؟… دو چار سکرپٹس کے حافظوں کو معلوم ہی نہیں ہے… اب تو مزاحیہ پروگرام سازی بھی مزاحیہ انداز میں ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مزاحیہ پروگرام بھی سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز ”مائنس مزاح فارمولا‘‘ پر عمل کر رہے ہیں… اب تو ادب میں بھی ”مارشل لاء‘‘ کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

چارلی چیپلن نے کہا تھا کہ ”ہنسی کے بغیر ایک دن گزارنا اسے ضائع کرنے جیسا ہے “A day without laughter is a day wasted”چارلس ڈارون نے ہنسی کو عضویاتی مظاہرہ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ”ہنسی کے دوران منہ کھل جاتا ہے ہونٹوں کے کنارے پیچھے اور اوپر کی طرف ہٹ آتے ہیں اوپر والا ہونٹ قدرے اوپر کو اٹھ جاتا ہے اور شدید ہنسی کے دوران تو پورا جسم کانپنے لگتا ہے‘ سانس میں ناہمواری پیدا ہونے کے ساتھ آنسو بھی بہہ نکلتے ہیں‘‘… مشہور لطیفہ ہے کہ کسی نے ہائیڈروجن بم کے بارے میں پروفیسر آئن سٹائن سے خیالات دریافت کئے تو آئن سٹائن نے مسکرا کر جواب دیا ”ہائیڈروجن بم سے ہماری زمین کے تباہ ہو جانے کا قطعاً کوئی امکان نہیں اور بالفرض اگر یہ تباہ ہو بھی گئی تو اس سے اتنی بڑی کائنات میں کچھ فرق نہیں پڑے گا‘‘… تبسم‘ ہنسی اور قہقہہ ہی دراصل ہمیں اس سنجیدہ کائنات میں زندہ رکھنے کے ذمہ دار ہیں اور انہی کے سہارے ہم زندگی سے سمجھوتہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ہمارے مزاحیہ ڈرامہ نگاروں سے بہتر شیخ رشید کے بیانات ہوتے ہیں… رانا ثناء اللہ‘ عابد شیر علی کے بیانات بھی مزاح کے لحاظ سے ”مرغن‘‘ کا درجہ پا سکتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی مونچھوں کے تاؤ سے بھی مزاح اور بجلی دونوں پیدا کر سکتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق اتنے معصومانہ انداز میں لوگوں کو مزاحیہ مواد فراہم کرتے ہیں کہ ”معصوم وسیم بادامی‘‘ کو بھی کبھی کبھی چھپنا پڑ جاتا ہے۔ اردو ادب میں مزاحیہ پروگراموں کی داغ بیل جب ڈالی گئی تو ادب کا سینہ بھی چوڑا ہو گیا۔

ابن انشاء اور پطرس بخاری جیسے نام مزاح کو تہذیب اور ثقافت کی بلندیوں پر لے گئے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا‘ جب مزاح‘ ادب سے بھی آگے نکلنے کا راستہ بنا چکا تھا‘ لیکن جب نئی نسل نے ٹی وی پروگراموں کو ٹٹولا تو انہیں ”بھانڈوں‘‘ کی کھرچن ہی نصیب ہوئی۔ اس وقت مزاح میں سوشل میڈیا سب سے آگے ہے… اور اگر سوشل میڈیا کو ٹی وی چینلز پر آن ایئر کر دیا جائے تو لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو سکتے ہیں… جب ایک عام آدمی حسِ مزاح رکھتا ہو تو اسے پُھسپھسے ٹی وی پروگرام سے ہنسانا انتہائی مشکل ہے۔ شفیق الرحمان نے کیا شاندار جملہ لکھا تھا

”ہمیں پسند تو عورت کے گال کا تل آتا ہے لیکن شادی پوری عورت سے کرنا پڑتی ہے‘‘۔

دنیا ٹی وی پر پیش کیا جانے والا پروگرام ”مذاق رات‘‘ قدرے بہتر ہے لیکن اس میں امان اللہ خان کو بولنے کا زیادہ موقع دیا جائے تو یہ بہترین ہو سکتا ہے… امان اللہ خان اور عمر شریف وہ مزاح نگار ہیں جن کا ذہن سکرپٹ تیار کرتا ہے اور زبان اسی وقت ادائیگی کر دیتی ہے… برجستہ جملے خدا کی دین ہوتے ہیں… یہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتے‘ اور نہ ہی آپ کسی سے سیکھ سکتے ہیں‘ بس تجربہ اس فن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ جہاں تک ”سلسلہء مزاحیہ‘‘ کا تعلق ہے اس میں زمین بھی وسیع ہے اور آسمان بھی… بس ذہن کا وسیع ہونا ضروری ہے۔ اگر بعض مشہور پروگرام لکھنے والے کم لکھیں اور مقابلے کے بازار میں ”نیزہ زنی‘‘ کرتے رہیں تو کوالٹی ”قہقہہ دار‘‘ ہو سکتی ہے۔

ایک وقت تھا جب بھارت کے ایوارڈ شوز مزاح کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے تھے… معین اختر (مرحوم) اور عمر شریف کو باقاعدہ ان ایوارڈز کی میزبانی کے لیے بلایا جاتا تھا… گووندا‘ اکشے کمار‘ جانی لیور اور دیگر متعدد اداکار عمر شریف کو اپنا استاد مانتے ہوئے ان سے دھاگہ بندھوا چکے ہیں۔ بھارت مزاح کے معاملے میں بانجھ تھا اور ہم خود کفیل!! بھارت کے ایک ٹی وی چینل نے ”لافٹر شو‘‘ کا آغاز کیا جس میں امان اللہ خان نے بھی حصہ لیا لیکن بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو گی کہ امان اللہ خان کی ٹائمنگ اور مزاح کی شاندار پرفارمنس دیکھتے ہوئے شو کی انتظامیہ نے انہیں ”گرو‘‘ تسلیم کیا اور مقابلے سے بالاتر بہت بڑا فن کار قرار دے دیا… اس شو کے فائنل میں عمر شریف کو بلایا گیا… یہ بھارتی تاریخ کا سب سے بڑا شو تھا‘ جس میں ایک ہی وقت میں عمر شریف اور امان اللہ خان سمیت پاکستان کے متعدد مزاح نگار موجود تھے۔

بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اداکار کپل شرما نے اس شو کا فائنل جیتا‘ وہ بیک وقت امان اللہ خان اور عمر شریف کا شاگرد بنا۔ اس کی ٹائمنگ اور برجستگی کمال کی تھی اسی لیے دیکھتے ہی دیکھتے وہ نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان میں بھی مقبول ہو گیا ہے۔ اس کے شو کی ”فوٹو کاپیز‘‘ پاکستان میں بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ ایک ٹی وی چینل نے تو اس شو کے رائٹس خریدے اور اسے پاکستان میں بھی نشر کیا۔

ایسا کوئی فنکار پاکستان کے پاس نہیں جو کپل شرما کو ٹکر دے سکے۔ عمر شریف صحت کے ہاتھوں مجبور ہیں جبکہ امان اللہ خان کو کوئی اتنا بڑا موقع نہیں دیتا۔ مزاح کے معاملے میں بانجھ بھارت کو آج اپنے ایوارڈ شوز کے لیے معین اختر اور عمر شریف کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کے لیے اب کپل شرما ہی عمر شریف اور معین اختر ہے۔ ہمارے ساتھ جو حشر سکواش‘ ہاکی‘ سنوکر میں ہوا… مزاح کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ ہم نہ تو دوسرا معین اختر پیدا کر سکے اور نہ ہی ایک اور عمر شریف‘ اسی لیے ہمارے مزاحیہ پروگرام بھی عید پر ”قربان‘‘ ہو جاتے ہیں۔
حیران بیٹھا ہوں وقت کا دھاگہ لے کر
روح کو رفو کروں کہ اپنے خواب بُنوں

بشکریہ روزنامہ دنیا