ہم کنفیوزڈ قوم ہیں

مصنف کا نام
اورنگ زیب نیازی، صاحب مضمون

ہم کنفیوزڈ قوم ہیں

(اورنگ زیب نیازی)

ہم بحیثیت مجموعی ایک منافق قوم ہیں۔ شاید کچھ دوستوں کو لفظ منافق پر تحفظ ہو اس لیے جملہ تبدیل کیے دیتے ہیں: ہم ایک کنفیوژڈ قوم ہیں۔ اپنے مذہب، عقائد، نظریات اور رویوں حتٰی کہ زندگی کے عمومی معاملات میں بھی کنفیوژن اور دو رنگی کا شکار رہتے ہیں۔ یعنی آدھا تیتر آدھا بٹیر، میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو؛ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا؛کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا؛ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اورکھانے کے اور۔۔۔یہ اور ان کی طرح کے کئی دوسرے محاورات ہماری ذہنی تاریخ ،اجتماعی سائیکی اور عمومی مزاج کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں۔

ممکن ہے کچھ لوگ یہ اعتراض کریں کہ ان محاورات کے انگریزی اور دوسری زبانوں میں متبادل موجود ہیں ۔ چنانچہ اس حالت کو محض اپنی قوم سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مزاج نسلِ انسانی کی مشترکہ میراث ہے لیکن ہماری علاقائی؍مقامی زبانوں میں ایسے محاورے ضرب الامثال اور کہاوتیں بکثرت موجود ہیں جو خاص ہمارے اجتماعی لاشعور اور سائیکی کی عکاسی کرتی ہیں۔

ہم آزادی پسند ہیں۔ ہم نے آزادی کے لیے طویل جدوجہد کی لیکن عملی طور پر اپنی ثقافت، زبان، لباس اور روز مرہ معاملات میں غلامی سے چھٹکارا نہیں پا سکے۔ آزادی کے ستر سال بعد مغربی تہذیب کے کئی پہلو معرضِ سوال میں آ چکے ہیں لیکن ہماری مرعوبیت میں کمی اور کلونیل ذہنیت میں تبدیلی نہیں آ سکی۔ ہم ترقی پسند اور روشن خیال ہیں مگر ہمارے یہ دعاوی ہماری گفتگو اور تحریروں تک محدود ہیں۔ ترقی پسندی اور روشن خیالی کے حق میں عملی طور پر آواز اٹھاتے لمحے ہمارے گلے بند ہو جاتے ہیں۔

ہم آزادیِ اظہارِ رائے کے قائل ہیں۔ یک طرفہ لطیفہ ہے کہ ہم آزادیِ اظہارِ رائے کا بھاشن سرکاری ٹی وی پربیٹھ کر دیتے ہیں۔ سرکار سے ماہانہ چیک وصول کرتے ہیں اور ناجائز حکمرانوں کے ناجائز قصیدے روزانہ لکھتے ہیں۔ ہم خود کو لبرل کہلوانا پسند کرتے ہیں لیکن دوسروں کے اعتقادات، نظریات اور رائے کا احترام نہیں کرتے۔ اگر کوئی ہمارے نقطۂ نظر سے اختلاف کرے تو اسے ماں بہن کی گندی گالیاں دے کر ان فرینڈ کر دیتے ہیں۔

مطالعہ کے لیے مزید دیکھئے: ہمارے معاشرے کا بنیادی مسئلہ،  شعور کی کٹی پتنگ

یہ بھی ملاحظہ کیجئے: ہمارے سماج میں سوچ کی پسماندگی

شدت پسندی کے ذکر پر ہمارے منہ سے جھاگ بہتی ہے لیکن اپنے نقطۂ نظر کی حتمیت اور کاملیت پر بزورِ قلم اور بزورِ بازو اصرار کرتے ہیں۔ہم عورتوں کی آزادی اور احترام کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن ذاتی مفادات کے حصول کے لیے عورتوں کے چہرے برائے فروخت رکھ چھوڑتے ہیں۔

ہم جمہوریت کے حامی ہیں۔ملک میں جمہوری اقدار کا نفاذ چاہتے ہیں؛صبح شام اپنی تحریر و تقریر میں جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں لیکن نظریاتی وابستگیوں کو مفاداتی وابستگیوں پر غالب نہیں آنے دیتے۔ ذاتی منفعت کی خاطر آمریتوں کی گود میں پلنے والے غیر جمہوری حکمرانوں کے ترانے لکھتے ہیں۔ ہم جمہوریت کے گیت ضرور گاتے ہیں لیکن جمہوریت کے نام پر سیاسی اشرافیائی گروہوں کے تسلط اور نظامِ کہنہ کو توڑنا نہیں چاہتے کہ یہ نظام ہماری آسانیوں ،آسائشوں اور ذاتی مفادات کا محافظ ہے۔

سب سے زیادہ خطرناک صور ت حال مذہب کی ہے کہ مذہب ہماری اجتماعی تہذیبی اور انفرادی زندگی کا سب سے اہم جزو ہے۔ ہم مذہب چھوڑنا نہیں چاہتے مگر مذہب سے بیزاری کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ مذہبی شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مذہب کے اندر سے اپنے لیے آسانیاں تلاش کرتے ہیں۔ جو ہمیں پسند ہے، ہمارے لیے آسان ہے یا ہمارے فائدے میں ہے، اسے قبول کرتے ہیں، جہاں تکلیف، دشواری اور اپنی ذات پر جبر کا معاملہ آتا ہے، اسے رد کر دیتے ہیں۔ ہم مذہب چھوڑ نہیں سکتے، اسے اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اور دنیا کے تمام معاشروں میں مذہب سے محبت اور مذہب سے بیزاری کے رویے ساتھ ساتھ موجود رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ خود ہمارے ہا ں فزکس کے ایک مشہور پروفیسر (جن کے سائنسی کمالات کا تو معلوم نہیں لیکن مذہب اور سیاست پر بے دھڑک گفتگو کرتے نظر آتے ہیں) اور ان کے کچھ صحافی اور ادیب مداح مذہب بیزار رویوں کو تقویت دینے کا مسلسل سامان کرتے رہتے ہیں۔

احترام کے دائرے میں رہ کر اختلاف کرنا یا سوال اٹھانا ہمارا حق ہے ۔لیکن جب ہم کسی ڈسپلن کو اختیار کرتے ہیں تو اس کے پورے فریم کو تسلیم کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔اگر ہمیں اختلاف ہے یا کچھ نا پسند ہے تو ہم میں ا تنی اخلاقی جرأ ت موجود ہونی چاہیے کہ ہم کسی بھی قسم کے معاشرتی دباؤ کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اپنی برأت کا اظہار کر سکیں۔